تاریخ گواہ ہے جب بھی مسلم امت پر کوئی آزمائش آئی۔ جب
بھی کفار اور دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کو اپنی سازشوں کے جال میں پھنسایا
تو امت کے غیور نوجوان آگے بڑھے اور مظلوم و مجبور مسلمانوں کا سہارا بنے۔
پانچویں صدی ہجری کے آخری دور میں جب مسلمان آپس میں خانہ جنگی کا شکار
ہوئے تو صلیبیوں اور یہودیوں نے مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کا فیصلہ کیا
انگلینڈ٫ اٹلی ، جرمنی ،فرانس سمیت کئی ممالک نے مل کر اپنی فوج بنائی۔ اور
لاکھوں کی فوج لے کر مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ مسلمان بد ترین شکست سے دوچار
ہوئے ۔ اس دور میں بڑے بڑے صلیبی گاڈفری، ریمون جیسے کمانڈروں نے مسلمانوں
پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ فرانسیسی مورخ میشو لکھتا ہے کہ پہلی صلیبی جنگ کے
دوران مسلمانوں کو اونچے اونچے مقامات سے نیچے کرا کر مار دیا۔ انہیں ذندہ
آگ میں جلایا گیا۔ فلسطین کے بازاروں میں انہیں جانوروں کی طرح گھسیٹا جاتا
یہاں تک کہ ستر ہزار مسلمانوں کو بیت المقدس (اقصیٰ) میں شہید کر دیا گیا۔
مؤرخ لکھتا ہے۔ مسلمانوں کی ذلت اور ناکامی کے لیے اتنا بتانا کافی ہے کہ
جب صلیبی بیت المقدس میں داخل ہوئے تو ان کے گھٹنوں تک مسلمانوں کا خون تھا۔
کئی سال تک امت مسلمہ اس ظلم کا شکار رہی۔ مسلمان مسجد اقصیٰ میں سجدوں کے
لیے ترس گئے تھے۔ ایسے حالات میں اللّہ تعالیٰ نے اپنے پاکیزہ باہمت ترک
نوجوان عماد الدین زنگی ،اور صلاح الدین ایوبی کو اس مقصد کے لیے کھڑا کیا۔
پھر تاریخ گواہ ہے کہ نوجوان صلاح الدین ایوبی نے ان صلیبیوں کی ایسی اینٹ
سے اینٹ بجائی کہ آج تک صلیبی اور یہودی صلاح الدین ایوبی کے نام سے کانپتے
ہیں۔ ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور وہاں کئی سالوں بعد مسجد اقصیٰ
میں آذان دی گئی۔ مسلمانوں سجدے میں گر کر زاروقطار رونے لگے۔ نماز کے بعد
ایوبی نے وہاں ایسا ایمان افروز درس دیا کہ مسلمان نوجوانوں کا خون کھول
اٹھا۔ اور پھر وہ دن بھی آیا کہ مؤرخ لکھتا ہے ان نوجوانوں کا کفار پر
اتنا رعب تھا۔ کہ جب بھی کوئی قلعہ فتح ہوتا تو صلیبیوں کو قیدی بنایا جاتا
اور ایک رسی سے چالیس چالیس صلیبیوں کو باندھ کر ایک مسلمان نوجوان چالیس
چالیس صلیبیوں پر مسلط ہوتا۔ اور کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اس ایک مسلمان
نوجوان پر ہاتھ تک اٹھا سکے۔
اس دور کی طرح آج بھی امت کو ایسے ہی باہمت نوجوان درکار ہیں۔مگر اس بار
کفر کامیاب ہوا۔ اور جدید دور میں ٹک ٹاک سے لے کر پبجی گیم تک ہر طرح کا
جال پھینکا گیا۔ مسلمان نوجوان اس کے جال میں بری طرح پھنستے چلے گئے۔ کبھی
جن نوجوانوں کا مشن میدان جنگ میں شہادت ہوا کرتا تھا آج اسی امت کے نوجوان
ٹک ٹاک پر ناچتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اور پبجی گیم کے diamond level اور Ace
level تک پہنچنے کو اپنا زندگی کا سب سے بڑا مشن سمجھتے ہیں۔ جی ہاں میں
اسی پبجی گیم کی بات کر رہا ہوں جس نے ہمارے نوجوانوں کی راتوں کی نیند
چھین لی۔ پبجی گیم میں pro player بننے کی پاداش میں ان نوجوانوں نے ماؤں
بہنوں کو خود بازار سے سامان لانے پر مجبور کردیا۔ بوڑھا باپ جو ساری زندگی
اس اولاد کی خاطر کام کرتا رہا اس باپ نے اگر اولاد سے دوائی لانے کو کہا
تو آگے سے اولاد کا جواب ملا کہ ابا جی مجھے بس گیم میں دو تین دشمن مارنے
ہیں۔ پھر میں آپ کی دوائی لاؤں گا۔ باپ انتظار کرتا کرتا سو گیا مگر اس
نوجوان کی گیم ختم نہ ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گیم کا نشہ دماغ پر اس قدر
سوار ہوا کہ اب نہ تو نیند آتی ہے اور نہ ہی نمازوں کی کوئی فکر رہتی ہے۔
سارا سارا دن موبائل فون کی سکرین پر نظر جمائے گیم کھیلنے کے بعد یہی
نوجوان بڑی خوشی سے اپنے دوستوں کو بتاتا ہے " یار اب تمہارا بھائی pro
player بن گیا ہے"۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اب یہ نشہ جنون کی حد تک اس
نوجوان پر سوار ہو جاتا ہےاور جب اس کے والدین اس جنون کو ختم کرنے کی کوشش
کرتے ہیں ۔اسے پبجی گیم سے روکتے ہیں ۔ اس سے موبائل چھین لیتے ہیں تو اس
کا یہ نشہ اسے خود کشی تک پہنچا دیتا ہے۔ دن رات ایک کر کے اس نے پبجی گیم
میں ایک لیول بنایا۔ اور جب گیم ان سے چھینی جاتی ہے تو یہ نوجوان سمجھتے
ہیں جس گیم کے لیے اتنی محنت کی اس کے بغیر زندگی گزارنے کا کیا فائدہ۔
ایسی زندگی سے بہتر خودکشی کرکے مرجاؤ۔ اور پھر یہی نوجوان جو امت کا
محافظ بنایا گیا تھا لمحہ بھر میں بوڑھے ماں باب کو اکیلا چھوڑ کر ،ماں کو
اتنا بڑا صدمہ دے کر زلت کی موت مر گیا۔ میں اس پبجی گیم پر بات کیوں نہ
کروں کہ جس نے ہمارے نوجوانوں کو کہاں سے کہاں لا کر کھڑا کر دیا۔ جس گھر
میں نوجوان صبح اٹھ کر قرآن کی تلاوت کی بجائے پبجی گیم کا ایک میچ لگانا
ضروری سمجھتے ہوں اس گھر میں کہاں سے رحمت آئے۔ وہ بھی راتیں تھیں جب سلطان
صلاح الدین ایوبی اپنے نوجوانوں کے ساتھ مل کر راتوں کے اندھیرے میں
صلیبیوں کے قلعوں پر منجنیقیں نصب کرتا اور صبح ہوتے ہی ان پر ایسی یلغار
کرتا کہ ان کو گمان تک نہ ہوتا۔مگر یہ کیسی راتیں ہیں کہ اسی امت کے نوجوان
ساری ساری رات پبجی کھیلنے میں گزار دیتے ہیں۔ آج پھر امت کو ایسے
نواجوانوں کی ضرورت ہے جو راتوں کے اندھیروں میں جہاد کی پلاننگ کرتے ہوں۔
تو آئیے میرے ملت کے نوجوانوں آج پھر انہی صلیبی جنگوں کی یاد تازہ کرنے کی
ضرورت ہے۔ دشمن نے جو کرنا تھا کر لیا۔ اب ہم اپنی زمہ داریوں کو سمجھیں
اور امت کٹی پھٹی امت کا سہارا بن جائیں۔ اللّہ تعالیٰ ہم سے زیادہ سے
زیادہ اپنے دین کا کام لے لے۔ (آمین).
|