اَفغانستان: عیسائی مشنریوں کی یلغار - قسط ۲

(۵)افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد سے بہت سے تعلیمی اداروں کا اِنتظام واِنصرام ان غیر ملکی اَفراد نے اپنے ہاتھوں لے لیا اور اب وہاں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کی تعلیم و تربیت اور بنیادی نشوونما اس نہج پر کی جارہی ہے جس سے اس نوخیز نسل کو دین اسلام سے دور کر دیا جائے اور ایسا ماحول اور سہولیات انہیں فراہم کی جاتی ہیں جس سے دین بیزاری، مادیت پرستی اور عیسائی مذہب کی محبت ان کے دل و دماغ میں راسخ ہو جائے۔ اور یہ حربہ بھی بہت پرانا ہے خود برصغیر پاک وہند میں انگریزی عہد کے لارڈ میکالے نے بھی یہی تجویز پیش کی تھی کہ یہاں ہمیں ایسا نظام تعلیم رائج کرنا چاہئے کہ جس نظام سے ڈھل کر آنے والے نوجوان ظاہری شکل و شباہت میں اگرچہ ہندوستانی اور مسلمان دکھائی دیں مگر ان کے دل و دماغ ہمارے غلام ہوں۔ پھر اس نظام تعلیم کے اثرات بد سے آج تک ہم چھٹکارا نہیں پا سکے اور انہوں نے تو صرف ذہنی غلامی کے لئے یہ نظام و نصاب تعلیم جاری کیا تھا لیکن اس کے اثرات اتنا دور رس اور گہرے ثابت ہوئے کہ اس سے متاثرہ افراد ذہنی غلامی کے ساتھ ظاہری شکل وشباہت میں بھی ان کی روشِ مادیت پرستی ودین بیزاری کی تقلید کرنے لگی۔

اس کی مثال میں ایک تعلیمی ادارے کا حال بیان کرنا کافی ہو گا۔ یہ کابل شہر کے وسط میں واقع ایک اسکول ہے جس کا نام”Mini Circus for Children“ہے، امریکی جارحیت کے بعد سے اس کا کنٹرول ڈیوڈ ماسون نامی ایک شخص کے حوالے کیا گیا جو ڈنمارک کا باشندہ ہے، 2002 میں اس ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ پندرہ ملکوں سے اس ادارے کے اخراجات کے لئے رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ یہاں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کی تعداد400 کے قریب ہے۔ 17اساتذہ افغانی ہیں جبکہ غیر ملکی تربیت کنندگان فرانس، جاپان اور امریکہ وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس ادارے کے منتظمین کی طرف سے ہر سال چند چیدہ طلبہ و طالبات کو غیر ملکی دورے پر لے جایا جاتا ہے۔2005 میں اس ادارے کے 12طلبہ و طالبات کو 4ماہ کے لئے یورپ کے دورے پر لے جایا گیا، ان چارہ ماہ میں دو ماہ صرف ڈنمارک میں سیر وتفریح کی نذر ہوئے۔ اس دورے میں ان طلبہ و طالبات کو یورپ کے آزادانہ اور فحاشی وعریانی والے غلیظ ماحول میں رکھ کر اس سے مانوس کیا گیا، رقص و سرور کی محفلوں میں خاص شرکت کرائی گئی، تاکہ ان طلبہ و طالبات میں عیاشی، مادیت پرستی، فحاشی و عریانی اور دین بیزاری کوٹ کوٹ کر دل و دماغ میں رچ بس جائے اور وہاں کے نام نہاد عیسائی مذہب کی محبت دلوں میں گھر کر جائے جو انہیں کوئی اخلاقی تعلیم و تربیت مہیا نہیں کرتا بلکہ اپنی خواہشات کے سلسلے میں آزاد چھوڑتا ہے تاکہ یہ آزادی دیکھ کر ان کے دلوں سے اسلام کی محبت نکل جائے اور اسلام ایک سخت گیر مذہب کے طور پر انہیں معیوب دکھائی دے۔ اس طرح کی کاوشیں بڑی باریک بینی سے ترتیب دیکر افغانستان کی مسلم نوجوان نسل کو الحاد وکفر کی دلدل میں دھکیلنے کے لئے زور وشور سے جاری ہیں۔ مگر افسوس اپنے مسلمان بھائیوں کے حالات وواقعات سے ہم کس قدر غافل ہیں۔

(۶)افغانستان میں اگر کوئی شخص کھلم کھلا اپنے ارتداد کو ظاہر کر دے یا اس کا ارتداد کھل کر سامنے آجائے تو فوراً یورپی ممالک کی طرف سے اسے مکمل پروٹو کول دیکر پناہ دے دی جاتی ہے اور افغانستان پر قابض غیر ملکی قوتیں ا پنے اسباب و و سائل بروئے کار لا کر ایسے بدبخت کو فوری طور پر افغانستان سے نکال لیتے ہیں تاکہ ایک تو ا سکی جان بچ جائے دوسرے اس ایک واقعے کی بنیاد پر پورے ملک میں کوئی موثر احتجاجی تحریک نہ ابھر سکے، جو ان کی ارتدادی سرگرمیوں کی روک تھام کا مطالبہ رکھ دے، اس لئے اپنی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے فوراً اس واقعے کا سرا ہی گم کر دیا جاتا ہے۔

(۷)2007ءمیں غزنی کے علاقے قرہ باغ سے جنوبی کوریا کے باشندوں کا ایک وفد پکڑا گیا یہ وفد اٹھارہ افراد پر مشتمل تھا۔ جس کا منصوبہ افغانستان میں عیسائیت کی تبلیغ و ترویج تھا۔ اس وفد کے سربراہ جوزف بارک نے خود اقرار کیا کہ ہم یہاں بچوں میں انجیل وغیرہ تقسیم کرنے اور انہیں عیسائیت کی تعلیم سے روشناس کراتے ہیں۔ یہ وفد جنوبی کوریا کے ”سایم میل“ نامی کنیسہ سے یہاں بھیجا گیا تھا۔

(۸)جون2010ءمیں ہرات یونیورسٹی کے طلبہ نے بڑے بڑے مظاہرے اور احتجاجی جلوس نکالے، ان مظاہروں اور جلوسو میں ان کا مطالبہ یہی تھا کہ ہمارے تعلیمی اداروں پر جو غیر ملکی نگران مقرر کئے گئے ہیں یہ سب ایک مشن کے طور پر خفیہ انداز سے عیسائیت کی تبلیغ و ترویج کر رہے ہیں، ہمارے طلبہ میں تعلیم و خدمت انسانیت کے نام پر عیسائیت کو رائج کرنا چاہتے ہیں۔ ان مظاہرین نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یہاں جو ارتدادی سرگرمیاں جاری ہیں ان کو براہ راست کابل میں موجود”شیلٹرنو“ کے نام سے قائم مرکز سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ تعلیم اور خدمت انسانیت کے نام پر خفیہ طور سے جاری عیسائی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے اور جو اَشخاص مرتد ہو چکے ہیں انہیں اسلامی حدود و قضاء کے مطابق شرعی سزا دی جائے تاکہ اس قسم کی سرگرمیاں بھی بند ہوں اور دوسروں کو بھی تنبیہ ہو سکے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان طلبہ نے حکومت کو یہ دھمکی بھی دی کہ اگر حکومت ان سرگرمیوں پر پابندی عائد نہیں کرتی تو ہم خود ان کے خلاف علم جہاد بلند کر دیں گے اور پھر جو نقصان وغیرہ ہو گا،اس کی ذمہ دار فقط حکومت ہوگی۔ یاد رہے کہ ہرات کے علاوہ کابل، مزار شریف اور دیگر متعدد شہروں میں طلبہ و عوام الناس نے اس قسم کے مظاہرے کئے اور اپنے مطالبات حکومت کو پیش کئے۔

(۹)صلیبیوں کی طرف سے ان صریح اقدامات کے علاوہ دو ایسے اقدام کئے گئے جو براہ راست عیسائی تبلیغ و ترویج سے متعلق نہیں ہیں لیکن انجام کار کے لحاظ سے وہ بہت خطرناک اور اثرات کے لحاظ سے دور رس ہیں۔ سب سے پہلے ان حملہ آوروں نے اپنی قوت و زور کے بل بوتے اسلامی شعائر مٹانے کی مکمل کوشش کی۔ اور ایسے اقدامات کئے جس سے ایمانی غیرت، حمیت، شرم و حیاءافغان معاشرے سے نابود ہو جائے، مرد وزن کے اختلاط کی سرپرستی کی گئی، بازار، دفاتر، اسکول و کالجز ہر جگہ مخلوط ماحول پیدا کیا گیا، رقص و سرور، فسق و فجور، فحاشی و عریانی کے اسباب و وسائل عام کئے گئے، مختلف حیلوں، بہانوں اور ترغیبات سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اس آزادانہ اور مخلوط ماحول کی طرف مائل کیا گیا۔ بے پردگی اور بے باکی کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ شخصی آزادی کے نام سے دین بیزاری کی مہم ذہن میں راسخ کی گئی تاکہ افغانستان سے اسلامی معاشرے اور اسلامی شعائر کی ہر شناخت مٹا دی جائے۔ پھر یہ افغان مسلمان، عیسائی بنیں یا نہ بنیں لیکن کم از کم مسلمان بھی نہ رہیں۔(نعوذ باﷲ من ذلک)

(۰۱)دوسرا اہم قدم جو مسلم معاشرے کی شناخت ختم کرنے کے لئے اٹھایا گیا وہ نظام تعلیم کی تبدیلی ہے۔ اس تبدیلی کے عمل میں سب سے پہلے نصاب تعلیم سے وہ تمام قرآنی آیات و احادیث مبارکہ ختم کر دی گئیں جو جہاد سے متعلق تھیں اور کوئی ایک بات یا جملہ بھی ایسا نہیں رہنے دیا گیا جو کفار و منافقین سے جہاد کی طرف اشارہ کر رہا ہو۔ اور غیر نصابی سرگرمیوں میں ان چیزوں کو رائج کیا گیا جو مرد و زن کے اختلاط پر مشتمل ہوں اور ان سے بے حیائی و فحاشی کو فروغ ملتا ہو۔ اساتذہ و معلمات کے تقرر میں ان غیر ملکی افراد کو ترجیح دی گئی جو طلبہ و طالبات کی برین واشنگ موثر انداز سے کر سکیں۔ اور جن کا اپنا کردار وگفتار فسق وفجور کا نمائندہ ہو جو ایک قسم کی خاموش تبلیغ کا کردار ادا کر سکے۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343841 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.