میرا باپ تو غربت کی وجہ سے بغیر علاج کے مر گیا مگر اب ۔۔۔۔۔۔ ایک غریب رکشہ ڈرائیور کے حوصلے اور محبت کی حیرت انگیز کہانی

image


چھوٹے سے کچے گھر کے باہر تیزی سے بارش جاری تھی ارد گرد کیچڑ کے سبب آمدورفت محال تھی ایسے میں زين العابدین کا باپ بیماری کی شدت سے بری طرح کراہ رہا تھا اور نوجوان جنال عابدین ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا- قریب ترین ہسپتال بھی ان کے گاؤں سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا جہاں تک مریض کو پہنچانا اس برسات کے موسم میں ممکن نہ تھا ۔ زین العابدین اس وقت جس بے بسی کو محسوس کر رہا تھا وہی درحقیقت آنے والے وقت میں ان کی زندگی بدل ڈالنے والی تھی- اپنے ایڑیاں رگڑتے باپ کو آخری سانسیں لیتے دیکھ کر جنال عابدین نے اس کا ہاتھ تھام کر خود سے یہ عہد کیا کہ اب وہ کسی اور باپ کو اس بے بسی کے عالم میں مرنے نہیں دے گا-

زین العابدین کا تعلق شمالی بنگلہ دیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں میمنسگھ سے تھا جہاں وہ لوگوں کے کھیتوں میں بطور مزدور کے کام کرتے تھے- والد کی اس بے کسی کی موت نے ان کی زندگی کو بدل سا دیا انہوں نے خود سے عہد کیا کہ وہ اسی گاؤں میں ایک ہسپتال بنائيں گے تاکہ آئندہ ان کے گاؤں میں کوئی بغیر علاج کے نہ مرے ۔ اگرچہ یہ خیال بہت اچھا تھا مگر ایک غریب اور مزدور آدمی کے لیے یہ خیال ایک خواب سے زیادہ نہ تھا کیوں کہ زين العابدین کے پاس ایسے ذرائع نہ تھے کہ وہ ہسپتال بنوا سکے اس لیے لوگوں نے ان کی بات کو دیوانے کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہ دی-
 

image


زین العابدین اپنی بیوی اور اپنا بوریا بستر اٹھا کر اپنے گاؤں سے ساٹھ میل کا سفر طے کر کے ڈھاکہ آ گیا جنال کی آنکھوں میں صرف ایک ہی خواب تھا کہ انہوں نے اس بڑے شہر میں کام کر کے اتنا پیسہ جمع کرنا ہے جس سے وہ اتنا پیسہ جمع کر سکے جس سے وہ اپنے گاؤں میں ایک ہسپتال بنا سکے-
زین العابدین نے ڈھاکہ میں سائیکل رکشہ چلانے کا کام شروع کر دیا جب کہ اس کی بیوی لال بنو نے بھی ایک ہسپتال میں معمولی کام کرنے کی نوکری اختیار کر لی- دونوں میاں بیوی صبح اٹھتے ہی کام پر نکل جاتے مگر لال بنو کو اپنے شوہر سے ایک ہی شکایت تھی کہ اگر اس کا شوہر کام کرتا ہے تو اس کی کمائی کہاں جاتی ہے کیوں کہ زين العابدین ایک خاص رقم کے علاوہ گھر میں ایک پیسہ بھی خرچ نہ کرتا تھا اور اپنی ساری کمائی ایک علیحدہ اکاونٹ میں جمع کرتا تھا-

کئی سالوں کے بعد زين العابدین نے اپنی جمع پونجی لے کر گاؤں واپس جانے کا فیصلہ کیا زين العابدین اپنی شدید محنت کے بعد ڈھائی لاکھ ٹکا جمع کرنے کے قابل ہو چکا تھا- اس نے گاؤں جا کر ایک زمین کا ٹکڑا خریدا اور اس پر دیواریں بنا کر ٹین کا شیڈ لگا کر اس جگہ کو بطور ہسپتال مختص کر دیا اور اس جگہ کو ممتاز ہاسپٹل کا نام دیا- جہاں پر انہوں نے بیڈ ، ٹیبل کرسیاں خرید کر ایک میڈیکل سینٹر قائم کر دیا اب مرحلہ تھا اس دور افتادہ گاؤں میں کسی ڈاکٹر کو بھرتی کرنے کا جو کہ بہت ہی دشوار گزار مرحلہ تھا کیوں کہ کوئی بھی ڈاکٹر یہاں آکر کام کرنے کو تیار نہ تھا- لہٰذا زين العابدین نے یہاں ایک پیرا میڈیکل کو اپوائنٹ کر دیا جس نے اس ہسپتال میں علاج معالجے کے کام کا آغاز کر دیا -
 

image


لوگوں کو جب اس میڈیکل سینٹر کے قیام کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے علاج معالجے کے لیے یہاں کا رخ کیا جنال اور لال بنو نے اس میڈیکل سینٹر کی ترقی کے لیے محنت جاری رکھی اور لوگوں کی جانب سے ملنے والے پیسوں اور ارد گرد کے لوگوں کی امداد سے اسی ہسپتال میں ایک میٹرنٹی وارڈ ، فرسٹ ایڈ کی سہولت اور یہاں کے غریب لوگوں کے لیۓ فارمیسی کی سہولت بھی فراہم کی-

زين العابدین کا یہ کہنا تھا کہ وہ جب سائیکل رکشہ چلاتا تھا تو لوگ ان کے خواب کو سن کر ان کا مذاق اڑاتے تھے اور ان کی ہنسی اڑاتے تھے مگر اب لوگ نہ صرف ان کی عزت کرتے ہیں بلکہ ان کو بہت قدر کی نظر سے بھی دیکھتے ہیں کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ارادے مضبوط ہوں تو کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا-

YOU MAY ALSO LIKE: