چھوٹے سے کچے گھر کے باہر تیزی سے بارش جاری تھی ارد گرد کیچڑ کے سبب
آمدورفت محال تھی ایسے میں زين العابدین کا باپ بیماری کی شدت سے بری طرح
کراہ رہا تھا اور نوجوان جنال عابدین ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر
پا رہا تھا- قریب ترین ہسپتال بھی ان کے گاؤں سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر
تھا جہاں تک مریض کو پہنچانا اس برسات کے موسم میں ممکن نہ تھا ۔ زین
العابدین اس وقت جس بے بسی کو محسوس کر رہا تھا وہی درحقیقت آنے والے وقت
میں ان کی زندگی بدل ڈالنے والی تھی- اپنے ایڑیاں رگڑتے باپ کو آخری سانسیں
لیتے دیکھ کر جنال عابدین نے اس کا ہاتھ تھام کر خود سے یہ عہد کیا کہ اب
وہ کسی اور باپ کو اس بے بسی کے عالم میں مرنے نہیں دے گا-
زین العابدین کا تعلق شمالی بنگلہ دیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں میمنسگھ سے تھا
جہاں وہ لوگوں کے کھیتوں میں بطور مزدور کے کام کرتے تھے- والد کی اس بے
کسی کی موت نے ان کی زندگی کو بدل سا دیا انہوں نے خود سے عہد کیا کہ وہ
اسی گاؤں میں ایک ہسپتال بنائيں گے تاکہ آئندہ ان کے گاؤں میں کوئی بغیر
علاج کے نہ مرے ۔ اگرچہ یہ خیال بہت اچھا تھا مگر ایک غریب اور مزدور آدمی
کے لیے یہ خیال ایک خواب سے زیادہ نہ تھا کیوں کہ زين العابدین کے پاس ایسے
ذرائع نہ تھے کہ وہ ہسپتال بنوا سکے اس لیے لوگوں نے ان کی بات کو دیوانے
کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہ دی-
|