ماں کے جگر کا ٹکڑا جس نے اپنے جگر کا ٹکڑا ماں کو دے ڈالا --- ہمت، حوصلے اور فرمانبرداری کی مثالی داستان

image
 
ہمارے معاشرے میں اولاد نرینہ کی پیدائش ایک ماں کے لیے باعث فخر ہوتی ہے اس کی پرورش ماں اپنے خون دل سے کرتی ہے۔ قطرہ قطرہ اپنے جسم و جاں کا اس بچے کی پرورش پر استعمال کرتی ہے ۔ ماں کی ممتا بے غرض ہوتی ہے اور اس کے ذہن و دل میں کبھی بھی یہ گمان نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی پرورش آنے والے کسی صلے کی لالچ میں کر رہی ہوتی ہے- مگر وقت نے یہ بھی دیکھا ہے کہ یہی ماں جب بڑھاپے کی دہلیز پر آجاتی ہے تو ان بیٹوں کے لیے بوجھ بن جاتی ہے اور ماں کی بیماری اور تکلیف بیٹوں کو ڈرامہ لگتی ہے- مگر جیسے ہاتھوں کی پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتی ہیں ویسے ہی ہر بیٹا بھی ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس دنیا میں کچھ بیٹے سید توصیف شاہ جیسے بھی ہوتے ہیں-
 
سید توصیف شاہ وہ قابل فخر بیٹے ہیں جنہوں نے گمبٹ کے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں زير علاج اپنی ماں کی جان کو اپنے جگر کا عطیہ دے کر بچا لیا اس حوالے سے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے سید توصیف شاہ کا یہ کہنا تھا کہ ' جب میری والدہ کو ڈاکٹرز نے جگر کا کینسر تشخیص کیا تو ہمارے گھر کے سب لوگ بہت پریشان ہو گئے-  
 
image
 
ڈاکٹروں کے مطابق ان کی جان بچانے کی واحد صورت جگر کو ٹرانسپلانٹ کرنا تھا میرے لیے اس سے بہتر کچھ نہ تھا کہ میں اپنا جگر دے کر اپنی ماں کی جان بچا لوں اس کے لیے ہم نے گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا انتخاب کیا جہاں کے عملے کی بہترین کوششوں اور دیکھ بھال کی بدولت میں اور میری والدہ پانچ مہینے تک زیر علاج رہنے کے بعد اب ٹھیک ہیں اور اس حوالے سے ہم اللہ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے-
 
اس کے ساتھ ساتھ سید توصیف شاہ نے اپنی پوسٹ کے ذریعے ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی ، ڈاکٹر عبد الوہاب ڈوگر اور انفاق فاؤنڈيشن کا شکریہ ادا کیا جس سے یہ ممکن ہو سکا-
 
image
 
سید توصیف شاہ آج کل کے دور میں ایک ایسے مثالی بیٹے ہیں جنہوں نے اپنی ماں کے لیے نہ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈالا بلکہ اپنی ماں سے اپنی بے پناہ محبت کا ثبوت فراہم کیا- ان کی پوسٹ سوشل میدیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے اور کرونا وائرس کی بہت ساری بری خبروں کے ساتھ ان کی عظیم قربانی کی خبر تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح محسوس ہو رہی ہے-  
YOU MAY ALSO LIKE: