|
|
اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے جو لوگ اس بیماری
سے براہ راست متاثر ہیں وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں جب کہ جو لوگ
اس بیماری میں گرفتار ہونے سے بچ بھی گئے ہیں وہ بھی دن رات اس کے خوف میں
مبتلا ہیں- اس کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن نے دنیا بھر کی معیشت کو بری طرح
متاثر کیا ہے اور ہر کوئی نفسا نفسی میں گرفتار ہے- |
|
مگر اس عالم میں بھی دنیا میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو
کہ صرف اپنے بارے میں نہیں سوچ رہے ہیں اور ان کی یہی کوشش ہے کہ وہ کسی
دوسرے کا بھلا کر دے ایسے ہی کچھ لوگوں میں لاہور کی ایک رضا کار خاتون اوج
فاطمہ بھی ہیں- |
|
اوج فاطمہ کا تعلق لاہور سے ہے اور اس وبا کے
پھیلاؤ اور لوگوں کے اس سے متاثر ہونے کے بعد قرنطینہ ہونے کے سبب ان کو
پیش آنے والی مشکلات کا سوچ کر اوج فاطمہ نے ایک بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ
کیا ۔ |
|
|
|
اس حوالے سے اوج فاطمہ کا یہ کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے
متاثر ہونے والے بیمار لوگ کئی قسم کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں ایک جانب تو
بیماری کے باعث وہ کمزور ہو جاتے ہیں اور اپنے روز مرہ کے کام انجام نہیں
دے سکتے ہیں- ایسی حالت میں اس بیماری سے مقابلے کے لیے کوئی دوا تو اب تک
دریافت نہیں ہو سکی اور ان کو اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط قوت
مدافعت کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ اچھی غذا سے ہی ممکن ہو سکتی ہے ۔ |
|
اس لیے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس بیماری میں مبتلا مریضوں کو مفت صحت بخش
کھانا فراہم کریں گی تاکہ وہ لوگ اس بیماری ککا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں-
کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے شروع ہونے والا یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ان پیرا
میڈیکل افراد تک بھی پھیل گیا جو کہ اپنے گھر سے دور دن رات ان مریضوں کی خدمت
کرتے ہیں- |
|
اوج فاطمہ ہر روز ان لوگوں کے لیے کھانا تیار کرتی ہیں اور اس کے بعد بغیر کسی
قسم کے چارجز کے یہ کھانا ان لوگوں کو فراہم کیا جاتا ہے- کھانے کے معیار کے
حوالے سے اوج فاطمہ کا یہ کہنا ہے کہ وہ کھانے کی تیاری کے دوران اس بات کا
خیال رکھتی ہیں کہ یہ کھانا نہ صرف ان مریضوں کو طاقت فراہم کرے بلکہ اس کے
ساتھ ساتھ اس میں لہسن اور ادرک کا استعمال اس تناسب سے کیا جاتا ہے جو کہ
کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے درکار ہوتی ہے- |
|
|
|
اوج فاطمہ کھانے کی ڈلیوری کے لیے ڈسپوزبل برتنوں کا
استعمال کرتی ہیں تاکہ یہ برتن کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن سکیں-
اوج فاطمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب کرونا وائرس کے مریض ان کو فون کر کے
بھی کھانے کا آرڈر دے دیتے ہیں جس کی ڈلیوری وہ ان کے ایڈریس پر بغیر کسی
چارجز کے کر دیتی ہیں تاکہ مریضوں کو آرام مل سکے- |
|
اوج فاطمہ کا یہ عمل ہر اس انسان کے لیے ایک مثال ہے کہ
انسان اگر چاہے تو نیکی کے لیے بہت بڑے وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ
اپنی طاقت کے مطابق بھی اچھے کام کو شروع کیا جا سکتا ہے اور شاید یہ دنیا
اب تک ایسے ہی اچھے لوگوں کی وجہ سے باقی ہے- |