میرے استاد ڈاکٹر مغیث الدین شیخ مرحوم

زیب داستاں
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر

چند دنوں میں کیسی کیسی نابغہ روزگار ہستیاں رخصت ہو گئیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف کمپیئر طارق عزیز صاحب، ممتاز عالم دین مفتی محمد نعیم صاحب، معروف عالم دین اور ذاکر علامہ طالب جوہری صاحب، جماعت اسلامی کے سابق امیر اور دانشور سید منور حسن صاحب، ممتاز ماہر تعلیم اور جامعہ پنجاب کے ادارہ علوم ابلاغیات کے معمار پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ صاحب۔ اﷲ پاک ان سب کو غریق رحمت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

ڈاکٹر مغیث مجھ نالائق کے استاد تھے۔ استاد بھی ایسے جن کے علم و فضل اور رعب و دبدبہ کی دھاک مجھ پر ہمیشہ قائم رہی۔ برسوں قبل شعبہ ابلاغیات میں ایم ۔اے کیلئے داخلہ لیا تو ان سے پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد پی۔ایچ۔ڈی میں بھی ان سے فیضیاب ہوئی۔انتظامی ذمہ داریوں کے باعث وہ باقاعدگی سے لیکچر نہیں دے پاتے تھے۔ مگر جب بھی لیکچر دیتے ان کے بیان سے علم جھلکتا نہیں، چھلکتا تھا۔ تند و تیزطبیعت کے حامل تھے۔ ذرا سی بات پر گرجنے برسنے لگتے۔ دھاڑ چنگھاڑ سے طالب علم سہم جاتے۔ اگلے ہی پل وہ ایک مہربان اور بے تکلف دوست کا روپ دھار لیتے۔ صحیح معنوں میں دھوپ چھاوں جیسا مزاج رکھتے تھے۔ ڈگری مکمل ہوتے ہی مجھے ایک معروف ٹیلی ویژن چینل میں ملازمت مل گئی ۔ یونیورسٹی کے احباب سے رابطہ منقطع ہو گیا۔تاہم میں جس بھی صحافتی ادارے میں گئی، ڈاکٹر مغیث مجھ سے ہمیشہ رابطہ رکھتے.۔انہوں نے میرا نام " آئرن لیڈی" رکھ چھوڑا تھا۔ جب بھی فون کرتے ، کسی علمی یا صحافتی مجلس میں ملاقات ہوتی، تواسی نام سے پکارتے۔ کبھی احساس نہیں ہوا۔ مگر آج یہ جملے تحریر کر تے خیال آتا ہے کہ ان جیسی قد آور شخصیت کی طرف سے یہ لقب پانا نہایت اعزاز کی بات ہے۔

اقرباپروری کی حد تک میری حوصلہ افزائی فرماتے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانہ میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے سپرد تھی۔ میں نے چوہدری صاحب کا ایک انٹرویو کیا جو ڈاکٹرمغیث کی نگاہ سے گزرا۔ انہی دنوں کسی سرکاری تقریب میں ڈاکٹر صاحب کی ملاقات وزیر اعلیٰ پنجاب سے ہو ئی۔ ڈاکٹر مغیث نے اس انٹرویو کا تذکرہ کیا۔ بتایا کہ لبنیٰ ظہیر میری شاگرد ہے۔ برسبیل تذکرہ، سیاسی نظریات سے قطع نظر، چوہدری برادران کو میں نے نہایت مہذب اور وضعدار انسان پایا۔ میرے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ انتہائی مشفقانہ اوربزرگانہ رہا۔ چوہدری صاحب کی مہربانی کہ انہوں نے میرے متعلق چند اچھے کلمات کہہ ڈالے۔ چند روز بعد میں یونیورسٹی گئی اورڈاکٹر صاحب کے دفتر میں حاضری دی۔ زندگی میں پہلی اور آخری بار انہوں نے کھڑے ہو کر میرا استقبال کیا۔ باقاعدہ میرے کاندھے پر تھپکی دی۔ اس کے بعد یہ قصہ سنایا۔ کہنے لگے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے بھری محفل میں تمہارے متعلق جو تعریفی اور تعظیمی کلمات کہے، انہیں سن کر میرا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ ایسی نیک نامی تو لوگ عشروں میں کماتے ہیں۔ تم نے چند برس میں اپنے نام کر لی۔ ڈاکٹر صاحب کی ساری بات سن کر میں نے فلمی انداز میں ایک ڈائیلاگ جھاڑ دیا۔ عرض کیا کہ مجھے کسی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کی تعریف سے کیا غرض۔ ہمارے لئے تو فقط اپنے استاد محترم کی تعریف اور حوصلہ افزائی اہم ہے۔ میری بات پر ڈاکٹر صاحب نے ایک بلند آہنگ قہقہہ لگایا۔ کبھی میرا اخباری کالم انکی نگاہ سے گزرتا تو فون کر کے تعریف کرتے۔میرے ٹیلی ویژن پروگرا م کے حوالے سے بھی وقتا فوقتا حوصلہ افزائی فرماتے۔

ڈاکٹر صاحب نے مجھے جامعہ پنجاب میں بطور وزیٹنگ لیکچرر متعارف کروایا۔ سپیرئیر یونیورسٹی گئے تو وہاں پڑھانے کا موقع دیا۔ یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب جوائن کی تو ہر سمسٹر میں خود فون کرتے یا کسی معاون سے کرواتے۔ اپنی مصروفیات (اور سستی) کے باعث میں پڑھانے سے معذرت کر لیتی۔ نہایت خفا ہوتے ۔ اسکے باوجود مجھے تحقیقی مقالاجات کے معائنے اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں کے ضمن میں باقاعدگی سے مدعو کر تے ۔انہوں نے یونیورسٹی آف مینجمنٹ ٹیکنالوجی جوائن کی۔ مجھے باقاعدہ حکم جاری فرمایا۔ الفاظ ان کے یہ تھے کہ آئرن لیڈی اس مرتبہ تمہارے نخرے نہیں چلیں گے۔ ایک کورس تمہیں پڑھانا ہی پڑے گا۔ میں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اب سوچتی ہوں کہ بہت اچھا ہوا۔ اس بہانے ان سے ملاقات کے مزید مواقع میسر آگئے۔ وگرنہ مجھے عمر بھر قلق رہتا کہ ان کے حکم کی تعمیل نہیں کر سکی۔

وبائی صورتحال سے قبل ان کیساتھ چند طویل نشستیں رہیں۔ ایک مرتبہ ان کے دفتر گئی تو اساتذہ کے جلو میں بیٹھے تھے۔ چھوٹنے ہی کہنے لگے۔ تم کیا ناروے گئی ہوئی تھی؟ مجھے تمہارے کالم کے ذریعے معلوم ہوا ۔ اثبات میں سر ہلایا تو خفگی سے کہنے لگے ۔ اطلاع دے کر جانا چاہیے تھا۔ میرے کچھ دوست خاندان سمیت وہاں مقیم ہیں۔ وہ تمہیں گھماتے پھراتے۔ پاکستانی کمیونٹی اور سیاسی افراد سے ملواتے۔ عرض کیا کہ اگلی مرتبہ ضرور مطلع کروں گی۔ اکثر و بیشتر مذاقا فرماتے۔ کالم کیساتھ لگی تصویر فورا بدلو۔ اس میں تم انتہائی بری اور فضول دکھائی دیتی ہو۔ اس ملاقات میں بھی یہی بات دہرائی۔ ایسی بات کا بھلا کیا جواب ہو سکتا ہے؟ وہاں موجود سب لوگوں کیساتھ ساتھ میں بھی ہنسنے لگی۔ کسی علمی سرگرمی کے معاوضے کا چیک تھماتے تو ہمیشہ کہتے۔ ان چند ہزار روپوں سے تمہیں کیا فرق پڑے گا۔جوابا میں یہ جملہ دہرا دیتی کہ یہ آپ کی طرف سے عیدی ہے جو ایڈوانس میں مجھ تک پہنچ گئی ہے۔ان کی سوانح حیات (biography) شائع ہوئی تو مجھے یہ کتاب بھجوائی۔ ایوان اقبال میں منعقد ہ ، کتاب کی تعارفی تقریب میں بطور مقرر مدعو کرکے عزت افزائی کی۔ کیسی کیسی یادیں ہیں جو میرے ذہن میں ابھرتی چلی آرہی ہیں۔

ہمارے ہاں ہر حکومت اور صاحب اختیار کیساتھ اپنا قبلہ تبدیل کر کے جائز ناجائز فائدے سمیٹنے والوں کی بہتات ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر مغیث استقامت کا پہاڑ تھے۔ آتے جاتے صاحبان ارباب و اختیار کیساتھ اپنا رخ تبدیل نہیں کرتے تھے۔ اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑے رہتے۔محبت اور عداوت جم کر نبھاتے۔ ان کی یہ عادت مجھے پسند تھی۔ تنک مزاجی کے باوجود، انتہائی درد دل رکھنے والی شخصیت تھے۔ درجنوں حاجت مند طالبعلموں کی فیس اپنی جیب سے اداکرتے۔ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہونے دیتے۔ شاگردوں کی نوکریوں کا بندوبست کرتے۔میری کلاس فیلو رابعہ نور آج کامیاب رپورٹر ہے۔ڈاکٹر صاحب کی وفات پر وہ نہایت دکھی تھی۔ کہنے لگی کہ میں کبھی کہہ نہیں سکی مگر آج دل چاہتا ہے کہ ساری دنیا کو بتاوں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ میری سرپرستی کی۔ خاموشی سے میری سمسٹر فیس ادا کر دیا کرتے تھے۔ ہوسٹل اور میس کاخرچہ بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔ بلا شبہ سینکڑوں ہزاروں لوگ انکے مداح اور شکرگزار ہیں۔ تاہم بیسیوں ایسے ہیں جو احسان فراموش نکلے۔ غرض پوری ہونے کے بعد پلٹ کر نہیں دیکھا۔ مخالفت اور مخاصمت میں جتے رہے۔ بہت سے چھوٹے لوگوں کی بڑی ڈگریاں اور نوکریاں ڈاکٹر صاحب کی مرہون منت ہیں۔ لیکن یہ کم ظرف ڈاکٹر مغیث کا قد کترنے میں سرگرداں رہے۔ ایسوں کا ذکر کرتے ڈاکٹر صاحب دکھی ہو جایا کرتے تھے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو چاہنے والوں کا وسیع حلقہ بھی میسر تھا۔ ان کے بیٹے علی مغیث نے مجھے بتایا کہ اندرون ملک اور بیرون ملک سے ٹیلی فون کالوں کا تانتا بندھا ہے۔ خودمجھے ڈاکٹر صاحب کی علالت اور وفات پر بے شمار کالز اور پیغامات موصول ہوئے۔ درجنوں لوگوں نے مجھ سے ڈاکٹر صاحب کے بیٹے اور بیگم کا فون نمبر طلب کیا۔ سینئر صحافی سلمان غنی صاحب ان کی علالت پر یوں مضطرب تھے جیسے ڈاکٹر صاحب سے ان کا خون کا رشتہ ہو۔ان کی وفات کی خبر سن کر سینئر صحافی اور نئی بات میڈیا گروپ کے گروپ ایڈیٹر عطا الرحمن صاحب نے روتے ہوئے فون کیا۔ آنسووں سے رندھی آواز میں ڈاکٹر صاحب کی تحسین کرتے رہے۔ وہ قصہ دہرایا جب عطا الرحمن صاحب دل میں ڈاکٹر صاحب کے بارے میں کوئی غلط فہمی پال بیٹھے تھے۔ غلط فہمی دور ہوئی تو بھری محفل میں عطا صا حب نے ڈاکٹر مغیث سے ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی نشست سے اٹھ کر انہیں گلے لگا لیا تھا۔یہ دو بڑی شخصیات کا طرز عمل تھا۔ جامعہ پنجاب کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران صاحب ، ڈاکٹر مغیث کے علمی قدکاٹھ اور ذہانت کا اعتراف کرتے رہے۔ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ناصرہ جبیں نے ڈاکٹر صاحب اور انکے خاندان کیساتھ اپنے دوستانہ مراسم کا تذکرہ کیا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اپنے انتہائی غم کا اظہار کرتی رہیں۔ناروے میں مقیم پاکستانی نژاد صحافی عطا انصاری صاحب انکی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ انہیں نیک اور بھلا آدمی کہتے رہے۔ انہوں نے خوب یاد دلایا کہ ناروے کی اوسلو میٹ یونیورسٹی میں پاکستانیوں کے لئے تعلیم کے دروازے کھولنے میں ڈاکٹر صاحب کا بڑا ہاتھ تھا۔تعزیت (اور خراج تحسین ) کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

ڈاکٹر مغیث کے انتقال کی خبر پر، مداحوں کے ساتھ ساتھ کئی دو رخے لوگ بھی فیس بک اور واٹس ایپ گروپس پر ان کی تصاویر شیئر کرتے رہے۔ ان کو اپنا ستاد، آئیڈیل، سرپرست اور پتہ نہیں کیا کیا قرار دیتے رہے۔ زندگی میں انہیں ڈاکٹر صاحب کے متعلق کبھی حرف خیر کہنے ، کسی چھوٹی موٹی تقریب کا اہتمام کرنے کی توفیق تک نہیں ہوئی۔ رابعہ کہنے لگی ڈاکٹر صاحب کے متعلق ہمیشہ زہر خند گفتگو کرنے والوں کی منافقت دیکھو۔ آج سوشل میڈیا پر دنیا دکھاوے کو کیسی شہد میں گھلی باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہر زمانے میں یہ لوگ موجود ہوا کرتے ہیں۔ میرے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی منافقین سے واسطہ پڑا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ خود جس ادارے کو اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا، اس کی جانب سے برتی جانے والی بے اعتنائی پر ڈاکٹر مغیث ہمیشہ شاکی رہے۔انہیں گلہ تھا کہ انکی سوانح حیات (biography) شائع ہوئی تو دیگر اداروں نے تقاریب کا انعقاد کیا۔مگر انکے اپنے ادارے نے پوچھا تک نہیں۔دکھی ہوا کرتے تھے کہ پاکستان بھر کی جامعات نے مجھے اپنے اداروں کی علمی کمیٹیوں اور بورڈز میں شامل کر رکھا ہے۔ لیکن میرا اپنا ادارہ میری ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ انہیں شدید رنج تھا کہ جس ادارے میں ڈاکٹراحسن اختر ناز مرحوم نے ساری عمر گزار دی ۔ جس جگہ ملازمت کرتے وہ انتقال کر گئے۔ وہ ادارہ انکی یاد میں ایک تعزیتی نشست (condolence reference) تک کا انعقاد نہیں کر سکا۔ آج تک ان کیلئے دعائے مغفرت کا اہتمام نہیں کر سکا۔ ڈاکٹر مغیث بذات خود ، ڈاکٹر ناز مرحوم کیلئے باقاعدگی سے یہ اہتمام کیا کرتے ۔ ان کے بیٹوں کی سرپرستی بھی فرماتے ۔

خیال آتا ہے کہ کاش جیتے جی ان کی دل جوئی اور عزت افزائی کی جاتی ۔ اب اگر اینٹ ،پتھر، مٹی، گارے کی کوئی دیوار یا کوٹھری ان کے نام منسوب کی جاتی ہے تو یہ بے سود ہے۔ عالیشان مقبرہ یا مزار بھی تعمیر کر دیا جائے تو ڈاکٹر صاحب کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا۔ ڈاکٹر صاحب کا معاملہ میرے رب کے سپرد ہے۔ وہ تمام تر مادی خرخشوں سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔برسوں قبل ڈاکٹر مغیث کوصدارتی ایوار ڈ " اعزاز فضیلت" عطا ہوا تھا۔ میں ذاتی طور پر آگاہ ہوں کہ گزشتہ دور حکومت میں ان کا نام صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی (pride of performance) کیلئے تجویز کیا گیا ۔ وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر اور وفاقی وزیر برائے قومی تاریخی و ادبی ورثہ ڈویژن، عرفان صدیقی صاحب ایوارڈ کمیٹی کے سربراہ تھے۔ ڈاکٹر مغیث نے مجھے بتایا تھا کہ صدیقی صاحب نے بذات خود ان سے رابطہ کیا اور متعلقہ دستاویزات طلب کی ہیں۔یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ ایوارڈ کا باقاعدہ اعلان تو چند ماہ بعد ہو گا۔ میری طرف سے پیشگی مبارکباد قبول فرمائیے۔ مگر یہ معاملہ پانامہ لیکس کی نذر ہو گیا۔ نواز شریف کو وزارت عظمی سے معزول کر دیا گیا۔ کابینہ تحلیل ہوئی۔ وہ کمیٹی اور اسکی سفارشات ہوا کا رزق ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب اب ہر قسم کے دنیاوی اعزازات کی آرزو سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ان کے نام سے کسی صحافتی اور علمی ایوارڈ، میڈل، یا اعزاز کا اجراء کیا جائے۔ ان کے بیٹے علی مغیث نے ایک تجویز دی ہے۔ میں نے وعدہ کیا ہے کہ اسے جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد صاحب کی خدمت میں پیش کروں گی۔ فی الحال اس کالم کے توسط سے عرض کر دیتی ہوں۔ علی کی خواہش ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے نام سے ضرورتمند اور ذہین طالبعلموں کیلئے کسی وظیفے (scholarship) کا اجراء ہو۔ یہ ایک عمدہ تجویز ہے۔ ایسا ہو جائے تو یہ صدقہ جاریہ ہوگا۔ خیال آتا ہے کہ کاش ادارہ علوم ابلاغیات میں ڈاکٹر مغیث کے نام پر مسند تحقیق (research chair) قائم کر دی جائے۔ تاکہ ان کی شخصیت اور علمی خدمات پر تحقیق ہو سکے ۔ جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد صاحب نے وبائی صورتحال کے باوجود، بذات خود ڈاکٹر مغیث مرحوم کی نماز جنازہ کی امامت کی۔ یہ طرز عمل نہایت قابل تحسین ہے۔ یوں لگا جیسے جناب ڈاکٹر نیاز نے جامعہ کے تمام اساتذہ اور طالبعلموں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر دیا ہو۔ اﷲ پاک ڈاکٹر نیاز کو جزا دے۔ امید ہے کہ جناب وائس چانسلر صاحب مندرجہ بالا گزارشات پر بھی غور فرمائیں گے۔

Sidra Malik
About the Author: Sidra Malik Read More Articles by Sidra Malik: 164 Articles with 119227 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.