چین اور بھارت کے سرحدی فوجی دستوں کے درمیان چند روز قبل
وادی گلوان میں ہونے والی جسمانی جھڑپ اور ہاتھا پائی میں ایک جانب جہاں
بھارت کو اپنے کئی فوجیوں کی ہلاکت کا نقصان اٹھانا پڑا تو دوسری جانب
بھارتی قیادت کے اشتعال انگیز رویے اور توسیع پسندانہ عزائم اسے تنہائی کی
دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔پندرہ جون کو ہونے والے اس مہلک تصادم کے فوری بعد
بھارتی قیادت کوئی یکساں موقف اپنانے سے قاصر نظر آئی اور تواتر سے متضاد
بیانات سامنے آئے جس سے قیادت کی بوکھلاہٹ واضح ہوتی ہے اور حزب مخالف
جماعتوں کو بھی ایک موقع مل گیا کہ وہ مودی سرکار کو آڑے ہاتھو ں لے سکیں۔
اپنے غیر دانشمندانہ فیصلوں کے باعث شرمندگی سے دوچار ہونے کے بعد بھارتی
قیادت نے اس واقعے سے توجہ ہٹانے کے لیے اپنے عوام میں چین مخالف جذبات کو
ہوا دی ہے۔بھارت میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کے اعلانات کیے گئے اور
بھارتی میڈیا بھی حسب روایت الزام تراشی اور من گھڑت کہانیاں تراشتا نظر
آیا۔بھارتی حکومت کے چین مخالف اقدامات کی ایک تازہ کڑی 59 چینی ایپلی
کیشنز پر پابندی کا فیصلہ ہے۔ان ایپلی کیشنز میں سماجی میڈیا کی انتہائی
معروف ایپلی کیشنز ٹک ٹاک اور وی چیٹ بھی شامل ہیں۔اس پابندی کا جواز یہ
پیش کیا گیا ہے نام نہاد ملکی خودمختاری اور سالمیت ، قومی دفاع ، قومی
سلامتی اور عوامی نظم و نسق کی خاطر کچھ چینی ایپلی کیشنز کے بھارت میں
استعمال پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔
بھارتی فیصلے کے بعد عالمی کاروباری ادارے بشمول "ایپل" ایک غیر یقینی کی
کیفیت سے دوچار ہیں کہ ان ایپلی کیشنز پر پابندی کیسے لاگو کی جائے کیونکہ
اس عمل سے لاکھوں بھارتی صارفین بری طرح متاثر ہوں گے۔یہ بات قابل زکر ہے
کہ بھارت کی اسمارٹ فون مارکیٹ میں چینی ساختہ اسمارٹ فون یا چینی مصنوعات
کا تناسب 80 فیصد سے زائد ہے۔ چینی موبائل فون برانڈز "شیاو می ،اوپو اور
ویوو " بھارت کے ہر گھر میں استعمال ہوتے ہیں۔یہ موبائل فون بھارتی منڈی
میں کوئی مراعات یافتہ پالیسیوں کے تحت داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ ایک دشوار
مقابلے کے بعد انہیں بھارتی صارفین میں اپنی کم لاگت اور اعلیٰ معیار کے بل
بوتے پر پسندیدگی کی سند ملی ہے ۔
ایک ڈیجیٹل ریسرچ ادارے "کاونٹر پوائنٹ" کے مطابق بھارتی فیصلے سے ملک میں
ہر تین میں ایک اسمارٹ فون صارف متاثر ہو گا۔ بھارت میں" ٹک ٹاک ، کلب
فیکٹری اور یو سی براوزر" سمیت دیگر چینی ایپلی کیشنز استعمال کرنے والے
فعال صارفین کی مجموی تعداد رواں برس مئی میں پچاس کروڑ سے زائد رہی ہے
جبکہ اس صنعت سے وابستہ کچھ ماہرین کے خیال میں 59 چینی ایپلی کیشنز
استعمال کرنے والے صارفین کی مجموعی تعداد 80 کروڑ سے زائد ہے۔ان میں سے 27
ایپس بھارت میں سرفہرست 1000 اینڈرائیڈ ایپلی کیشنز میں شامل ہیں۔ اگر ٹک
ٹاک کی ہی بات کی جائے تو چین کے بعد بھارت دوسرا بڑا ملک ہے جہاں یہ ایپلی
کیشن استعمال کرنے والے افراد کی تعداد انیس کروڑ سے زائد ہے۔یہ ایپلی کیشن
نہ صرف تفریح بلکہ نوجوانوں کی آمدنی میں بھی اضافے کا اس وقت اہم ذریعہ
بن چکی ہے۔
بھارت کی جانب سے چینی ایپس پر پابندی کے جواز میں قومی سلامتی کے ساتھ
ساتھ صارفین کے زاتی نوعیت کے ڈیٹا کا تحفظ بھی شامل ہے لیکن حیرت کی بات
یہ ہے کہ چند ایپلی کیشنز مثلاً "سویٹ سلفی" اور "یوکیم میک اپ" کیسے قومی
سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتی ہیں جبکہ یہ ایپس تو لوگ صرف سیلفی کے لیے
استعمال کرتے ہیں۔بدقسمتی سے بھارت کی جانب سے یہ فیصلہ حقائق کے بجائے
سیاست پر مبنی ہے۔بھارت میں اکثر حلقے حقائق سے نظریں چراتے ہوئے "میڈ ان
چائنا" کے بائیکاٹ کی آوازیں بلند کر رہے ہیں جو اس وبائی صورتحال میں تو
قطعاً ممکن نہیں ہے۔بھارتی فیصلہ سازوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ "موبائل
ایپس" ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں صارف کی لازمی ضرورت کی ایک مددگار شے
ہے۔
بھارت کی جانب سے عوام میں انتہائی مقبول چینی ایپلی کیشنز پر پابندی کا
فیصلہ امتیازی سلوک کی ایک واضح مثال ہے جبکہ وجوہات انتہائی غیر منصفانہ
اور غیر دانشمندانہ ہیں۔آج میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ایسے
فیصلے تنگ نظری اور پست سوچ کی علامت ہیں جبکہ اس فیصلے کے ذریعے قومی
سلامتی کے تحفظ کے حق کا بھی منفی طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ بھارتی قیادت
کا یہ فیصلہ عالمی تجارتی تنظیم کے متعلقہ قواعد کی بھی واضح خلاف ورزی ہے
اور بین الاقوامی تجارت اور ای کامرس کے ترقیاتی رجحان کی بھی نفی ہے۔ ایسے
اقدامات بھارتی صارفین کے مفادات اور مارکیٹ میں مسابقتی رجحان کی حوصلہ
شکنی کا باعث بھی بنیں گے ۔یہ ایپلی کیشنز بھارتی صارفین ، تخلیق کاروں ،
اور کاروباری افراد کو مؤثر اور فوری خدمات فراہم کرتی ہیں۔ ان پابندیوں کا
بھارتی صارفین کے مفادات اور بہت سے تخلیق کاروں اور کاروباری افراد کے
روزگار اور ذریعہ معاش پر بھی منفی اثر پڑے گا۔
چین کے ساتھ سرحدی تنازعے کے بعد بجائے صورتحال کو معمول پر واپس لانے کے
بھارتی قیادت کی جانب سے ایسے غیر معقول فیصلوں سے صورتحال مزید خراب ہو
گی۔۔1962 میں بھی بھارت کو چین کے ہاتھوں اپنے تکبر اور غلط فیصلے کے باعث
عالمی اور علاقائی سطح پر رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور لگتا یہی ہے کہ
بھارت اس مرتبہ وہی غلطی دوبارہ دوہرانے جا رہا ہے لیکن اس مرتبہ شائد قیمت
دوگنا ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔چین کے علاوہ بھارت کے ہمسایہ ممالک میں
پاکستان،سری لنکا ،نیپال اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں لیکن مودی سرکار کے
"شر " سے کوئی بھی ہمسایہ ملک محفوظ نہیں ہے۔بھارت میں آباد اقلیتیں بھی
اس وقت مودی سرکار کے "ہندواتا ایجنڈے" کے باعث امتیازی سلوک کا سامنا کر
رہی ہیں۔بھارتی قیادت کو اب سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ ہمسایہ ممالک کے
ساتھ کشیدہ تعلقات اور اشتعال انگیزی سے نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی
بھارت کو رسوائی ،ناکامی اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
|