جب کوئی مورخ پندرہویں صدی میں
ہوئی پرتگالی کھوجی ٹیموں کے بحری انکشافات اور ان کے اسفار کے موضوع کو
چھیڑتا ہے تو اسے ان کھوجی ٹیموں کی جد و جہد کے پس پردہ کھڑے اس جذبہ کو
بھی دیکھنا ہوتا ہے جو ان کے اہداف سے شانہ بشانہ ملاکر اور ساتھ ساتھ رواں
دواں تھے، یہ جذبہ تھا عہد وسطی کے عالمی تجارتی راستوں پر انکی مکمل دسترس
اور ان کے سرچشموں کو مسلمانوں کی سرزمینوں سے کاٹ کر پرتگال کی سرزمین کی
طرف موڑنا اور پھر یہاں سے یورپ تک انہیں لے جانا، اس کی وضاحت کے لئے اس
وقت کے عالمی تجارت کے راستوں کو پیش کرنا از حد ضروری ہے۔
دور وسطی میں سامان تجارت کے اصلی سرچشمے براعظم افریقہ کے مشرقی ساحل سے
شروع ہوکر ملیشیا اور چین تک پہنچتے تھے، یہ تجارت مختلف بری اور بحری
راستوں سے ہو کر گزرتی تھی ۔ اور ان میں سے اکثر بحر ہند سے ہوتے ہوئے
بحراوقیانوس پر ختم ہوتی تھی، ان کے درمیان میں عالم عرب اور یورپ کی
منڈیاں آتی تھیں ، اس تجارت کا بڑا حصہ مندرجہ ذیل راستوں سے ہوکر گزرتا
تھا۔
۱۔ خلیج عرب ۔ ملک شام
مشرقی سامان تجارت کشتیوں کے راستے ہندوستان سے بحری راستے سے خلیج عرب (فارس)
تک پہنچتا ، پھر بصرہ اور خلیج کے آخری سرے تک،جہاں سے قافلے بری راستے یا
پھر نہر فرات کے راستے سے بغداد پہنچتے ، پھر یہاں سے حلب ، یہاں سے مغرب
کی سمت پر واقع شامی بندرگاہوں تک ، یہاں وینس اور جنوہ کی کشتیاں یورپ کی
منڈیوں میں انہیں پہنچانے کے انتظار میں تیار رہتیں(۱)
اس راستے کو طریق اوسط (درمیانی راستہ ) کہا جاتا تھا۔یورپی صارفین تک
ہندوستانی و مشرقی سامان پہنچانے کے لئے اس راستہ کا نصیب سب سے اچھا
تھا،اپنے بہترین جغرافیائی جائے وقوع اور ہندوستانی کشتیوں کے لئے براہ
راست راستہ ہونے کی وجہ سے،اس راستے سے اطالوی شہروں نے مشرقی عرب ملکوں
میں برپا صلیبی جنگوں کے دوران خوب فائدہ اٹھا یا ۔
۲۔ بحر احمر ۔ مصر
یہ راستہ عدن کے جنوب میں واقع مشرق سے آنے والے سامان تجارت اکٹھا ہونے کے
مرکز سے شروع ہوتا تھا،پھر یہ سامان بحری راستہ سے بحر احمر کے مغربی ساحل
پر سویز یا (عیذاب اور قصیر) لے جایا جاتا ، پھر قافلوں کی پیٹھوں لاد کر
قاہرہ پھر اسکندریہ اور کبھی دمیاط لے جایا جاتا،یہاں سے وینس اور جنوہ کی
کشتیاں اسے یورپ منتقل کرتیںجہاں یہ صارفین کے لئے خردہ فروشوں کے پاس
پہنچتا(۲)
جب مملوک سلاطین (سلطنت غلامان ) مصر شام حجاز اور یمن کے بعض علاقوں پر
عہد وسطی کے اواخر سے عہد جدید کے آغاز تک (۰۵۲۱ء۔ ۷۱۵۱ئ) حکومت کرنے لگے
تو یہ دونوں راستے ممالیک کے قبضے میں آگئے تو انہوں نے اپنی سرزمین سے
گذرنے والے سامان تجارت پر مختلف قسم کے زبردست ٹیکس لگا کر بے تحاشہ منافع
کمانا شروع کیا (۳)
ان سلاطین ممالیک کی کوشش رہی کہ فائدہ مند مصالحہ جات کی تجارت کے راز
اپنے تک محدود رہیں ، کوئی اور قوم اس تجارت کے خفیہ رازوں سے آگاہ نہ
ہو،لہذا انہوں نے اس کے لئے زبردست احتیاطی تدابیر اختیار کیں،اس غرض سے
انہوں نے غیر مسلم سوار کشتیوں کے بحر احمر کی لہروں کو چیرنے پر اس دلیل
کے ساتھ پابندی لگادی کہ یہ سمندر حجاز کے مقدس اسلامی مقامات تک جاتا ہے،
لہذا انہوں نے یہ حصار توڑنے یا مشرقی تجارت کے اصل جگہوں اور راستوں کے
بارے میں معلومات فراہم کرنے والوں پر سخت سزائیں مقرر کیں (۴)
( بحر احمر میں جہازرانی کا یہ ضابطہ دراصل صلاح الدین ایوبی ؒ نے فرانسیسی
بادشاہ ارناط ف ۷۸۱۱ء Renaud de Châtillon کے بحر احمر پر حملہ کے بعد نافذ
کیا تھا)
یہ دونوں راستے جو کہ مصالحہ جات کی تجارت کے لئے بنیاد ی حیثیت رکھتے تھے
ان سے ہٹ کر ایک تیسرا بری راستہ بھی تھا جو کہ خطرات سے پر تھا، یہ ملبار
کے اندرونی پہاڑوں سے نکل کر شمال کی طرف کو بڑھتا اور مختلف آڑھے ٹیڑھے
راستوں سے ہوتے ہوئے دریائے جیحون کی طرف کو نکلتا جہاں چین و بخاری سے آنے
والے راستے اسے آکر ملتے ، یہاں سے اس کی دو شاخیں نکلتی تھیں :
۱۔ ایک بحر قزوین سے ہوتے ہوئے دریائے وولگا کی طرف نکلتی
ب : دوسری بحر اسود کی طرف جاتی جو طرا بزون پھر قسطنطینیہ تک پہنچتی ۔
چودھوی صدی کے اواخر اور پندرھویں صدی کے اوائل میں سلطنت عثمانیہ کی
توسیعی جنگوں کے ظہور پذیر ہونے کی وجہ سے اس راستے مین زبردست رکاوٹیں
آئیں (۵)
باہم متنازع گروپوں میں اختلافات اور سیاسی تنازعات کی وجہ سے ان عربی و
اسلامی زمینوں سے گذرنے والے دو میں سے کوئی ایک راستہ یا دونوں بند ہوتا
رہتا، جس کی وجہ سے یورپ کو مشرقی اشیاء کی رسد بند ہوجاتی اور تاجروں کو
اس تیسرے راستے کو اپنانے کی ضرورت پیش آتی حالانکہ ایشیاءکے وسیع و عریض
خطے پر پھیلے ہونے کی وجہ سے یہ راستہ بھی چنداں محفوظ نہ ہوتا(۶)
قرون وسطی کے آخری حصے میںیہ اہم پیش رفت ہوئی کہ مصالحہ جات تیار کرنے
والے تمام مراکز اور راستے مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگئے اور ان علاقوں کے
روابط ہندوستان کی مقامی اسلامی حکومتوں جیسے افغان اور مغل کے ساتھ، ملقا
کی مسلم سلطنتوں کے ساتھ ، مصر شام اور حجاز کے ممالیک سلاطین (سلطان
غلامان) کے ساتھ ، اور مشرقی افریقہ کی اسلامی امارتوں کے ساتھ مضبوط ہوگئے
،اور یورپ مکمل طور پر مسلم تجارت کے مکمل کنٹرول سے نکلنے کے اسباب ووسائل
کے حصول کی جد وجہد میں مگن ہوگیا ،اور اس بات کی ضرورت اس وقت شدید تر
ہوگئی جب مسلم عثمانی سلطنت نے اناضول کو فتح کیا اور ۳۵۴۱ءمیں مشرقی یورپ
کے پایہ تخت قسطنطینیہ پر قبضہ کرلیا۔
اس میں شک نہیں کہ مشرقی یورپ پر عثمانیوں کے بڑھتے سیلاب نے بابائے روم
کواز سرنو مسلمانوں کے خلاف دوسری صلیبی جنگ شروع کرنے کی صدادینے پر
اکسایا (۷)
بعض مورخین کی رائے ہے کہ دور جدید کی ابتدا میں جو جو جغرافیائی کھوجی
ٹیمیں نکلیں ان کا اولین مقصد عثمانی ترکوں کی ایشائے کوچک اور بحرمتوسط کے
مشرقی ساحلوں کی طرف پیش قدمی کو روکنا اور انہیں ہندوستان کو مغرب سے
ملانے والے قدیم تجارتی راستوں سے کاٹنا اور مشرق سے مصالحہ جات کے حصول کے
لئے درپیش مشکلات کا حل تلاش کرنا ہے۔یہاں سے اس سامان تجارت کی اصل جگہوں
تک نئے راستوں سے پہنچنے کی ا نہیں سخت ضرورت پیش آئی ۔لیکن فرانسیسی مورخ
رولان موسینیہ اس رائے کو رد کرتے ہیں،اور وہ جواب دیتے ہیں کہ ترکوں کی
جنگوں کی وجہ سے تجارت میں کبھی کبھار دڑاریں پڑتی رہیں،لیکن ترکوں نے بذات
خود کبھی مغرب والوں سے تجارتی معاملات میں دشمنی کا رویہ نہیں اپنایا،
انہوں نے ہمیشہ وینس اور جنوہ کی حکومتوں کے ساتھ معاہدوں پر اپنی رضامندی
ظاہر کی اور ان کی تجدید اور مابین الملکی معاہدوں کی پاسداری کرتے
رہے،انہوں نے فارس سے گزرنے والے قافلوں اور خلیج عرب اور بحر احمر کے بحری
گزرگاہوں کی آزادی کے تحفظ کا ہمیشہ خیال رکھا،سلیم اول نے ۷۱۵۱ءمیں مصر
فتح کرتے ہی ممالیک سلاطین کے ساتھ وینس والوں کے معاہدوں کی تجدید کی،او ر
ممالیک نے مصالحہ جات کی تجارت پر جو ٹیکس بڑھائے تھے انہیں کم کئے(۸)
مگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عثمانی ترکوں کے یورپ میںغزوات نے اس وقت
نفسیاتی طور پر اہم کردا ر ادا کیا ،جب دوبارہ اسلام مشرقی یورپ پر حملہ
کرنے میں کامیاب ہوگیا ،حالانکہ ۳۵۴۱ ءمیں اندلس میں یورپ کے جنوبی اور
مغربی اطراف میں اسلام ختم ہورہا تھا،اس نفسیاتی صورت حال کو سلطان عثمانی
محمد الفاتح کے مشرقی آرتھوڈکس کلیسا کے مرکز قسطنطینیہ کو عثمانی سلطنت کا
دارالخلافہ بنانے اور اس کانام تبدیل کرکے دارالاسلام (اسلامبول ) رکھنے نے
اور تقویت دی(۹)
اس موقعہ کو پوپ کالیکٹس سوم ۸۵۔۵۵۴۱Calixtus III نے اسلام مخالف جذبات
ابھارنے کے لئے استعمال کیا ، اس نے سقوط قسطنینیہ کے بعد نصرانی مذہب میں
ایک نئی عبادت کی بنیاد ڈالی اور عیسائیوں کو اس کی ادائیگی کا حکم دیا ،
اس نے اسے نماز خوشخبری کا نام دیا ،اس دوران عثمانی ترکوں پر خصوصیت کے
ساتھ نصرت کی دعا مانگی جاتی تھی،اس پوپ نے یورپ والوں کو مسلمانوں کے خلاف
ہر جگہ اکٹھا کرنے کی بھرپور کوشش کی (۰۱)
ان سب اسباب سے نئے اسلامی ریلے کے بارے میں تمام نصرانی دنیا ایک ڈر اور
خوف میں مبتلا ہوگئی، رومن کیتھولک چرچ نے قسطنطینیہ اور وہاں کے مشرقی
کلیسا کے سقوط کے بعد اس ڈر کو مغربی اور مشرقی عیسائی دنیا پر اپنی روحانی
چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے خوب استعمال کیا ، اور مشرقی اور مغربی کلیسا کے
درمیان جو دشمنی ۴۵۰۱ءکے بعد ختم نہیں ہوئی تھی وہ ان کے درمیان مکمل قطع
تعلقی پر منتج ہوئی ۔یہاں سے رومن کلیسا کے اندلس کے نصرانی بادشاہوں سے
جذباتی تعلقا ت ابھرنے لگے جنہوں نے اپنے کندھوں پر دوسری صلیبی جنگ چھیڑنے
کی ذمہ داری اٹھالی تھی ، اور شاید یہ تعبیر درست ہو کہ انہوں نے کلیسا اور
اسکے پاپاوں کی آشیرواد سے جزیرہ نمائے ایبیریا سے اسلامی وجود کو ختم کرنے
اور مغربی یورپ سے اسلام اور اس کی سلطنت کو نیست و نابود کرکے پوری نصرانی
دنیا پر رومن کلیسا کی سیاسی اور روحانی چودھراہٹ مسلط کرنے کا ٹھیکہ اٹھا
رکھا تھا،اسی وجہ سے رومن کلیسا اور اس کے پاپاوںنے پرتگال اور اسپین کی
متبادل تجارتی راستوں تک رسائی حاصل کرکے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس
کر ضرب لگانے انہیں ان کے ملکوں کے پیچھے سے گھیر کر ہمیشہ کے لئے تباہ کر
نے اور تجارتی دولت کو ان سے چھین لینے اور اس طرح اقتصادی عامل (مصالحہ
جات کے اصل مراکز تک براہ راست پہنچ کران کے اونچے ٹیکسوں سے بچنے )، اور
دینی عامل یہ کہ یورپ کی جغرافیائی کھوجی دستوں کی تحریک کے ذریعے (
مسلمانوں کو پیچھے سے مارنے اور عالم اسلام کو تباہ کرنے)کی کوششوں کی
بھرپور ہمت افزائی کی۔
حوالہ جات
۱۔ Boies Penrose:Travel And Discovery In Renaissance (1402-1692)U.K 1960
p 16.17
۲۔ نعیم ذکی فہمی :طرق التجارة الدولیة (القاہرة (۳۷۹۱) ص ۴۲۱
۳۔ سعید عبد الفتاح عاشور : مصر فی عہد دولة سلاطین الممالیک البحریة
(القاہرة ۲۶۹۱) ص ۸۰۲
۴۔ شوقی الجمل : تاریخ کشف افریقیا و استعمارھا (القاہرة ، ۱۷۹۱) ص ۰۶
۵۔اسماعیل نور الربیعی : المرحلة المرحلة الثانیة من التنافس (مجلة الوثیقہ
ع۹۲ س ۵۱ البحرین ۶۹۹۱) ص ۹۸
۶۔ج ج لویمر : دلیل الخلیج (القسم التاریخی ۔الدوحة ۷۶۹۱ئ) ج۱،ص ۹
۷۔سعید عبد الفتاح عاشور : الحرکة الصلیبیة (القاہرة ۰۹۹۱) ج ۲ ص ۹۸۹
۸۔ رولان موسینیہ :تاریخ الحضارات العام(لبنان ۷۸۹۱ئ) ج ۴ ص ۹۳)
۹۔ عبد العزیز الشناوی : المراحل الاولی للوجود البرتغالی (قطر ۶۷۹۱ئ) ج ۲
ص ۸۱۶
۰۱۔حمزہ الصیرفی : النفوذ البرتغالی فی الخلیج العربی (الریاض ۳۸۹۱ئ) ص ۰۷ |