یعنی ملک ہمارا اور اختیار ان کا

اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں مبینہ ہلاکت کے بعد سے مسلسل یہ واقعہ موضوع بحث ہے بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ سب سے بڑا ردعمل عوام کے شدید ردعمل اور ایک طرح سے پرزور مطالبے کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا اجلاس تھا جس میں عسکری قیادت نے ارکان پارلیمنٹ کے سوالات کے جوابات دیئے اور اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ قرار داد پیش اور منظور کی گئی۔ جس میں بہت سارے نکات عوامی خواہشات کے عین مطابق تھے۔ عسکری قیادت نے جب ایوان کی بالا دستی قبول کر لی اور اسے کوئی بھی اقدام اٹھانے کی اجازت دے دی تو اب عوام کی یہ امید کہ جمہوری حکومت کوئی ٹھوس حکمت عملی اپناتے ہوئے کوئی قدم اٹھائے با لکل بجا ہے۔ اب جبکہ جمہوری حکومت ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ عوام کی اکثریت کی نمائندہ ہے اورعوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہوئے نمائندوں نے ایک قرار داد میں خود کو امریکہ سے معاملات طے کرنے کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے تو پھر قوم بجا طور پر یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ قومی خود مختاری کی حفاظت کریں اور یہ خوف دل سے نکال دیں کہ اگر انہوں نے امریکہ کو کوئی سخت جواب دیا تو نتائج کیا ہونگے یقیناً مشکلات پیش آئیں گی لیکن معاملات کو اگر ہوشمندی سے سنبھالا جائے تو انہیں کم بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس سارے معاملے کو دیکھنے سے پہلے ذرا اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ آخر ملک کے حالات اس نہج تک پہنچے کیسے کہ ہمارے حکمرانوں کو یہ سوچتے ہوئے بھی جھر جھری آنے لگتی ہے کہ اگر امریکی امداد بند ہو گئی تو کیا ہوگا؟ پاکستان اس وقت بیرونی قرضوں پر چل رہا ہے اور ہم44%امداد امریکہ سے لے رہے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ہم نے خود کو گروی رکھ لیا ہے بلکہ اپنی زندگی کے حقوق بھی امریکہ کو دے دیئے ہیں۔ یہ بھی بالکل درست ہے کہ آج کی دنیا میں خود کو الگ تھلگ رکھنا ممکن نہیں ۔ یہاں ہر ملک کسی نہ کسی ضرورت اور معاملے میں دوسرے ملک پر انحصار کرتا ہے لیکن اس انحصار میں وقار اور خود مختاری سے ہاتھ نہیں دھویا جاتا۔ پھر ہم نے ان حالات کو کیسے قبول کر لیا۔ یہاں بات ہمارے حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور خود غرضیوں پر آتی ہے۔ جو وزارتوں پر وزارتوں بنائے جاتے ہیں تاکہ ان کیلئے وزیر بنا سکیں کیونکہ حکومت میں رہنے کیلئے اتحاد اور اتحادوں کو قائم رکھنے کیلئے وزارتوں کی رشوت اور وزیروں کیلئے بے تحاشا مراعات یہ سب کچھ اس سلسلے کی کڑیا ں ہیں اور آپ ایسی ہی بہت سی کڑیاں جوڑیں تو امداد کی ضرورت تو پڑے گی۔ اب ذرا دوسری طرف آئیے اور دیکھئے کہ ہمارے سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں کے کتنے مفادات اس ملک سے وابستہ ہیں سوائے اس کے کہ اس کے عوام کی خون پسینے اور محنت مشقت سے حاصل کی ہوئی کمائی سے اپنے بینک بھر سکیں۔ کیا پاکستان جیسے امیر لوگوں کے ملک کو بیرونی قرضوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہ سیاستدان کاروبار جہاں چاہے کریں لیکن کچھ ذرائع اپنے ملک میں بھی پیدا کریں تاکہ ملک غیر ملکی غلامی سے بچا رہے۔ اس وقت یہی امداد کی مجبوری ہے جس نے پورے ملک کی سانسیں اکھاڑ رکھی ہیں اور اس وقت کسی آمر کی حکومت بھی نہیں کہ ہمیشہ کی طرح الزام آمر کو دے دیا جائے۔ اب عوام کی خواہشات کے مطابق امریکی امداد کی مجبوری سے خود کو آزاد کر لینا چاہیئے۔ عوام اب تک بھی اس امداد کا ثمر اور اثر نہیں دیکھ سکے اور آئندہ بھی ایسا کوئی امکان نہیں ہے اور ایک پہلو یہ بھی مد نظر رکھئیے کہ آخر ہر قیمت پر امریکہ ہی کیوں؟ کوئی اور طاقت چھوڑیئے چین بھی کیوں نہیں،کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ چین ہمیں مہارت دیتا ہے اور منصوبے بنا کر دیتا ہے روزگار ملک میں آتا ہے اور جب روزگار ہوتا ہے تو ظاہر ہے لوگوں کو کھانے کو ملتا ہے اور جب وہ غم روزگار سے آزاد ہوتے ہیں تو حکومت کی پالیسیوں اور بدعنوانیوں پر تنقید کر سکتے ہیں جو کہ بدعنوان حکومتوں کیلئے بہت خطر ناک ہوتا ہے کیونکہ شعور کے ذریعے انہیں چیک کیا جاسکتا ہے جبکہ حکومت یہی نہیں چاہتی کہ قوم جان سکے کہ اب تک اراکین حکومت نے بیرونی بینکوں میں ڈھائی سو ارب ڈالرز اپنی آنے والی بے شمار نسلوں کیلئے سنبھال کر رکھے ہیں تاکہ دو سو سال بعد آنے والا پوتا بھی اپنے دادا کی دولت پر فخر کر سکے چاہے اس سارے فخر میں ملک کا نام کہیں نہ آئے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایک عام آدمی کا جمہوریت سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔

یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن اب حکمرانوں نے اپنی ذمہ داری قبول کرلی ہے اور ایسے حالات میں کی ہے جب ملک میں امریکہ کے خلاف جذبات اپنے عروج پر ہیں۔ ایک اور حوصلہ افزا اقدام جو اٹھایا گیا ہے وہ صدر اور وزیر اعظم کے دورہ چین اور روس ہیں ۔ خاص کر دورہ چین سے قوم کی کچھ آس بندھی ہے اور وہ توقع کر رہی ہے کہ شاید امریکہ سے کسی طرح ان کی گلو خلاصی ہو لیکن فی الحقیقت ہو یہ رہا ہے کہ جب سے امریکی حملے کے خلاف پارلیمنٹ نے قرار داد منظور کی ہے ڈرون حملوں میں زیادہ تیزی آگئی ہے لیکن ہونا یہ چاہیے کہ پاکستان کو ہر صورت امریکی بالا دستی اور غلامی سے نجات حاصل کرنا ہوگی کیونکہ سچ یہ ہے کہ امریکہ ہمیں دے کم رہا ہے اور ہم سے لے زیادہ رہا ہے اور نہ ہی وہ ہمارے اوپر اعتماد کرنے کو تیار ہے جس کا بر ملا اظہار اس نے ایبٹ آباد آپریشن میں پاکستان کو بے خبر رکھ کر کیا اور اب بھی مشترکہ آپریشن کی شرط تک ماننے کو تیار نہیں یعنی ملک ہمارا اور اختیار ان کا۔ اب تک تو اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے منظور کی جانے والی رقم بھی ہمیں نہیں دی ہے اور جو دی ہے وہ بھی ترسا ترسا کر۔ جبکہ اس سے کہیں زیادہ دولت ہم دہشت گردی کی جنگ میں جھونک چکے ہیں۔ اب امریکہ کے ساتھ معاملات جو پہلے ایک عام آدمی کی نظر میں فوج طے کرتی تھی سیاسی حکومت کے حوالے کیے جا چکے ہیں تو اب تک جتنی دولت ہمارے حکمران بنا چکے ہیں اسی کو کافی سمجھ لیں اور قوم اور عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرتے ہوئے اپنی ہی قرار داد پر عمل کر لیں اور امریکی امداد پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے زور بازو پر اعتماد کر لیں اور ایک دفعہ وقار سے جینے کا حوصلہ کر لیں تو پھر دنیا میں کچھ بھی ناممکن نظر نہیں آئے گا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 509711 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.