بچے کی پہلی درسگاہ اس کے والدین کی گود ہے۔ اور مجھے یہ
کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ درسگاہیں ہی معصوم ذہن کو متشدد بنا کر
معاشرے میں ایک گندے دانے کا اضافہ کرتی ہیں۔ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے اس
کے ذہن کے کینوس پر بنائے نقش اپنا رنگ چھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ
نفسیاتی مریض سا بنا دکھتا ہے۔ ادب آداب، رکھ رکھاؤ، تہذیب، شائستگی کا اس
سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔ اس میں بہت سی منفی باتیں جو والدین کے رحم و کرم
سے پروان چڑھی ہوتی ہیں تکلیف کا سبب بنتی ہیں۔ تربیت کے اطوار کچھ الگ
ٹھہرتے ہیں۔ خودپسندی، جھوٹ، فریب کا چسکا منہ کو لگا ہوتا ہے۔ اب ہوتا یہ
ہے کہ والدین غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کو تربیت کی فکر تو ہوتی ہے مگر
دوسروں کی، اپنی تربیت ہرگز نہیں کی جاتی۔ نہ شادی سے پہلے، نہ شادی کے
بعد۔ خود کو تربیت یافتہ سمجھتے ہوئے اپنے ہر غلط عمل کو بھی درستی کی نگاہ
سے دیکھتے ہیں۔
والدین بھی ان کی تربیت کا انتظام نہیں کرتے۔ ہاں اگر کسی ایک میں کوئی
منفی بات، برائی، عیب ہو بھی، تو کہا جاتا ہے شادی کے بعد ٹھیک ہوجائے
گا/گی۔ اور شادی کے بعد کی زندگی گزشتہ زندگی کی طرح چل چلاؤ میں گزر جاتی
ہے۔ نہیں سوچا جاتا کہ ہم تربیت لیں ہم پر ایک بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ ہم
نے ایک نسل کی تربیت کرنی ہے۔ شادی ہوگئی، اولاد ہوگئی۔ ان کی اچھی تربیت،
بامہذب بنانا، شعور و آگاہی بخشنا ہماری زمہ داری ٹھہرے گی۔ تربیت لیں گے
تو ہی زمہ داریوں کا تعین ہوگا۔ خبر ہوگی کہ کس کے کیا حقوق ہیں۔ یاد رکھنا
چاہئے کہ جب دو بندے ایک بندھن میں بندھنے کی خواہش رکھیں۔ یا انہیں بندھن
میں باندھا جا رہا ہو تو وہ طبی معالج سے اپنی مکمل جانچ کرائیں۔ دوسرا ان
دونوں کی مکمل تربیت ہو۔ شادی کے بعد دوسری زندگی کی شروعات سے بچہ پیدا
کرنے اور پھر اسے پروان چڑھانے اور خیال رکھنے تک۔ یہاں تک کہ وہ باشعور
شہری بن جائے۔
دونوں کو بتایا جائے کہ ان کا رویہ کیسا رہے۔ بچے کے سامنے کیسا رویہ، اس
کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھنا ہے اور یہ بھی کہ جو ساتھی اپنے لیے چنا اس کے
حقوق کیا ہیں۔ نسبتی والدین نے اعتماد کرتے جو اپنا دل ھدیہ کیا اس کے ساتھ
کیسے رہنا ہے۔ بالفرض کوئی اونچ نیچ، آپسی اختلاف کی وجہ سے نوک جھونک ہو
گئی تو الجھاؤ کو کیسے سلجھانا ہے۔ بچوں کے سامنے کھٹ پٹ سے اجتناب کرنا
ہے۔ بچوں کو ذہنی مریض بننے سے بچانا۔ اپنے الجھاؤ کو بچوں کے الجھنے کا
سبب نہیں بننے دینا۔ اپنے ساتھ ساتھ خود سے جڑے رشتوں کا سکون غارت نہیں
کرنا۔ یہ سب نہ سیکھا اور والدین بچوں کو ڈانٹتے رہے، شور شرابا کیا تو یہ
بچوں پر منفی اثر ڈالے گا۔ ان کے سامنے چیخنا، چلانا، غصہ کرنا، منہ سے
جھاگ نکالنا ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ بعد میں پھر ہتھیلیاں
رگڑنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
ہمیں شعور کی تربیت کرنا ہوگی اور سیکھنا ہوگا کہ بطور انسان ہم پر کیا ذمہ
داری عائد ہوتی ہے؟ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اچھے سے زندگی گزار سکتے ہیں؟
آپسی معاملات کو محبت کے سانچے میں ڈھال کر نبھا سکتے ہیں؟ شادی کا فیصلہ
کر لیا اب بچے کو افورڈ کر سکتے ہیں؟ اس کا خیال رکھ سکیں گے۔ زمہ داری
نبھا سکیں گے تو ٹھیک ہے۔ نہیں تو ایک زندگی کو جہنم بنانے سے بہتر ہے
اکیلے پھریں۔ اپنے جیون ساتھی کو اذیت دیں نہ خود اذیت کا شکار ہوں۔ شادی
کے بعد بھی سمجھتے ہیں کہ بچے کو سنھبالا نہ جا سکے گا، تربیت نہیں کر سکتے
،حقوق کی ادائیگی سے عاری ہیں؛ تو خدارا !بچے مت پیدا کریں۔کہ بچوں کے
معاملے میں صرف جنم دینا اور لائن لگانا کافی نہیں۔ صرف نسل کا بڑھاوا چرند
پرند بہت اچھے سے کرتے ہیں۔
جاننا چاہیے کہ متشدد رویے معاشرے کی گرواٹ کا سبب ہوتے ہیں۔ ایسے رویے گھر
میں، یا کہیں بھی مقابل کو نفسیاتی مریض بنا کر دم لیتے ہوں۔ وہاں اصل غلطی
اسی متشدد کی ہوتی ہے جو کسی بھی معاملے میں انتہا پسند ہوتا ہے۔ وہ باپ
بھی ہو سکتا ہے وہ ماں بھی ہو سکتی ہے۔ جنہیں بہترین علاج کی ضرورت ہوتی ہے
نہ کہ تسلی کے دو بولوں کی۔ اور نہ اس زعم میں مبتلا رہنے کی کہ میں نے جنم
دیا۔ میری اولاد ہے۔ میرا مقام ،میرا مرتبہ ہے۔ میرے سامنے اف کہنے کا حکم
نہیں۔ میں جنت کا دروازہ ہوں۔ میرے پاؤں تلے جنت ہے۔ میں نے جنم دیا۔ کتنی
مشکلات جھیل کر بڑھا کیا اب میں جو کہوں گرچہ وہ غلط ہو لیکن وہی ہو، وہی
مانا جائے۔ حضور! ایسا کیوں ہو؟
لاشک کہ آپ کا بہت بڑا مقام ہے لیکن یہ اسی وقت مانا جائے گا جب آپ بھی اس
بچے کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔ وگرنہ آپ ایک والد یا والدہ کیسے تصور کیے
جائیں گے؟ سال بعد ایک بچے کے اضافے اور نسل کا بڑھاوا ہی تو کام نہیں ناں۔
تربیت یافتہ بن کر تربیت بھی لازم ہے۔ انہیں اچھا شہری بنانا بھی ضروری ہے۔
انہیں بامہذب بنانا بھی اہم ہے۔ انہیں محبت، ایثار، قربانی جیسے جذبے کی
گڑتی ڈالنی بھی ضروری ہے۔ انہیں ان متشدد رویوں سے دور رکھنا ازحد لازم و
ضروری ہے۔ بھئی! سمجھنے کی بات ہے کہ والدین، بڑوں کے سخت، کرخت رویے بچوں
کے صاف ستھرے، ذہن کے خالی کینوس پر کیسے رنگ بکھیریں گے؟ کاش کہ ہم اس بات
کو سوچیں، سمجھیں کہ ہمارا رویہ،ہمارا عمل اس معصوم کو کس نہج پر لے جائے
گا۔ غالباً نیلسن منڈیلا نے کہا تھا: ایک سماج کی رُوح کا بہترین عکس اُس
کے اندر بچوں سے روا رکھا رویہ و سلوک ہے۔ سوچیے اور خود کو پیمانے میں
پرکھیے کہ آپ کا اپنے بچوں سے رویہ کیسا ہے؟ تاریخ ہمیں اِس طور پرکھے گی
کہ بچوں کی روز مرّہ زندگی میں ہم لوگوں نے کیا گُل کھلائے۔
ایک سوال بہرحال اب بھی باقی ہے گراں نہ گزرے تو عرض کروں کہ اہل علم
والدین کے حقوق کی گردان کرتے نہیں تھکتے۔ اقوال زریں کی ایک لمبی فہرست ہے
جو تھما دی جاتی ہے۔ یہ بتلائیے کیا اولاد کے بھی کچھ حقوق ہیں یا نہیں؟ یا
صرف بس والدین کے ہی حقوق ہیں اولاد پر، اور اولاد کے کچھ حقوق نہیں والدین
پر؟ اولاد حقوق میں اونچ نیچ کرے، کمی بیشی ہو جائے تو دشنام طرازی کے ساتھ
وعیدوں کی بھرمار اور اخلاقیات کا پلندہ تھمایا جائے لیکن والدین قدم قدم
پر اولاد کے حقوق روندتے چلے جائیں۔ ان کے حقوق کو مانا ہی نہ جائے اولاد
کے حقوق پر چڑھے بیٹھے ہوں۔ ادا نہ کریں تو خاموشی؟ آخر کیوں؟ |