گورنمنٹ پوسٹ گریجوٹ کالج مناورگلگت میں گورنمنٹ ڈگری
کالج گلگت کے پچاس سال مکمل ہونے پر ''گولڈن جوبلی تقریبات '' کا آغاز
کردیا گیا۔ابتدائی تقریب ٩جولائی ٢٠٢٠ء کو منعقد ہوئی۔ ڈگری کالج کا آغاز ٨
جولائی ١٩٧٠ میں ہوا۔ ''گولڈن جوبلی تقریبات'' کے حوالے سے منعقدہ سیمنار
سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر میراحمد خان نے کہا پچاس سالہ تقریبات کا آغاز
خوش آئند ہیں۔پچاس سالہ تعلیمی سلسلے کے متعلق تقریبات میں ریٹائرڈ
پروفیسرز معاونت کریں گے۔یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے بلکہ اس سلسلے کا آخری
پروگرام بہت شاندار ہوگا۔ پروفیسر محبوب علی خان نے کہا کہ قراقرام
یونیورسٹی کو ڈگری کالج کے اساتذہ کے ساتھ مشاورت اور اشتراک عمل سے چلایا
جانا تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ جس کی وجہ سے ڈگری کالج متاثر ہوا۔
پروفیسر اشرف ملک نے کہا ڈگری کالج گلگت کے اساتذہ اور پروفیسر ایسوسی ایشن
کی کوششوں سے کالج کو ١٣٠٠ کنال زمین ایڈمنیسٹریٹر عنایت اللہ خان نے کالج
کے نام انتقال کردیا۔کالج کے اساتذہ نے سخت ترین مذہبی تعصبات کے باوجود
اتحاد و اتفاق کا ماحول پیدا کیا اور بالخصوص تینوں مکاتب فکر کے اساتذہ نے
اس مشکل وقت میں آپس میں بیٹھ کر حلف اٹھا یا کہ حالات جیسے بھی ہوں مگر
ڈگری کالج کا تعلیمی ماحول پر اثرانداز نہیں ہونے دیا جائے گا اور آپس میں
اتحاد و یکجہتی اور رواداری قائم کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ڈگری
کالج کے تعلیمی ماحول اور یکجہتی کو خراب کرنے کے لیے سیاسی و مذہبی مداخلت
بہت زیادہ رہی ہے اس لیے ماحول متاثر بھی ہوتا رہا۔پروفیسر اسلم عبداللہ نے
کہا کہ٨٨ء کے گھمبیر حالات کے بعد بھی ڈگری کالج کے اساتذہ نے کمال یکجہتی
کا مظاہرہ کیا اور تدریسی عمل کو مذہبی فرقہ واریت اور علاقائی تعصب سے پاک
رکھا۔اساتذہ نے اپنے حقوق اور ویلفیئر کے لیے بھی شاندار کوششیں کی جس کی
بدولت مختلف حقوق مل گئے۔آج کی نئی پود کو بھی مل جل کر تدریسی و تعلیمی
عمل کے ساتھ اپنے ویلفیئر کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔پروفیسر سید عبدالجلال
نے سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا گورنمنٹ ڈگری کالج کا آغاز موجودہ
ڈائریکٹریٹ کی بلڈنگ سے ہوا، جہاں بورڈنگ قائم کیا گیا تھا اور وہاں اساتذہ
پڑھایا کرتے تھے۔جب بھی ڈگری کالج میں ہنگامے ہوتے تھے تو میں باہر نکلتا
اور تمام مسالک کے طلبہ کو پتھراو سے روکتا اور انہیں سمجھتا۔ بطور استاد
مجھے طلبہ کی طرف سے انتہائی زیادہ احترام ملا ۔ میں ان سب کے لیے دعا گوہ
ہوں۔پروفیسر ایسوسی ایشن کے سابق صدر ارشاد احمد شاہ نے انتہائی تاسف کے
ساتھ کہا کہ ہمیں ہر سطح پر اپنا مورال بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ایڈمنسٹریشن
، سیکریٹریٹ اور ڈائریکٹریٹ سمیت عوامی سطح پر کالجز کے پروفیسروں کو جس
سطحی نظر سے دیکھا جاتا ہے اس سے نکلنے کے لیے ایک ایسا سسٹم وضع کرنے کی
ضرورت ہے جس میں ہم تدریسی امور کے ساتھ اساتذہ کی ویلفیئر اور حقوق کے لیے
بھی مناسب اقدام اٹھا سکیں۔کالجز کی ترقی اور اساتذہ کی ویلفیئر اور حقوق
میں رکاوٹ تمام اسباب و عوامل کا جائزہ لے کر ایک واضح اسٹریٹجی وضع نہ کی
گئی تو مستقبل میں مزید حالات بدتری کی طرف جاسکتے ہیں اس کے لیے ایک
دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے ایک میکنزم سیٹ کرکے، فیکلٹی اسٹاف، کالجز
اور ڈائریکٹریٹ کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کتنے
افسوس کی بات ہے کہ تیس سال تجربہ رکھنے والے ایک گریڈ بیس کے پروفیسر کو
ایک نوجوان لڑکا بطور سیکریٹری،ڈپٹی سیکریٹری اور سیکشن آفیسر ڈکٹیشن دیتا
ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کالجز اور ڈائریکٹریٹ کے تجربہ کار پروفیسر
تعلیمی اور اساتذہ کے ویلفیئر پر سیکریٹریٹ کے منشیوں کو رہنمائی دیں۔یہ سب
ہماری کمزوری اور سستی کی وجہ سے ہورہا ہے۔اور انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں
نے ایک اعلیٰ سپریم کونسل بنانے کی تجویز بھی دی جس میں ریٹائرڈ پروفیسروں
کو بھی شامل کیا جائے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر فضل کریم نے
کہا استاد کی ایک نظر سے زندگیاں بدل جاتی ہیں۔ ہم کیمرے کی ایک آنکھ کے
سامنے محتاط ہوتے ہیں لیکن کلاس میں موجود ١٠٠ کے قریب طلبہ کے دل و دماغ
کے کیمرے کے سامنے سنجیدہ ہوکر پڑھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ طلبہ کا دماغ اور
دل وہ کیمرہ ہوتا ہے جو ہماری ہر ہر بات ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھتا ہے۔تقریب
سے خطاب کرتے ہوئے ریٹائرڈ اسٹنٹ لائبریرین ادریس نے کہا زندگی کے جس شعبہ
سے بھی منسلک ہوجائے اس میں ایمانداری اور اخلاص سے کام کیا جائے تو اللہ
برکتیں دیتا ہے اور رزق بھی حلال ہوجاتا ہے جس کے اثرات اولاد اور زندگی کے
ہر مرحلے میں کامیابی اور برکت کی شکل میں واضح ہوجاتے۔پوسٹ گریجویٹ کالج
کے پرنسپل پروفیسر محمد عالم نے کہا کہ ڈگری کالج گلگت کا سفرتابناک
ہیں۔ڈگری کالج کے طلبہ بہترین جگہوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ڈگری کالج
گلگت کی کامیابی میں اولین کردار نان لوکل پروفیسروں کا رہا۔ انہوں نے گلگت
بلتستان کے کونے کونے میں جاکر علم کی شمع بلند کی۔ ڈگری کالج گلگت کے پہلے
دو عشروں میں اکثر اساتذہ نان لوکل تھے جنہوں نے پنجاب اور کے پی کے سے آکر
ہمیں تعلیم دی۔پوسٹ گریجویٹ کالج کے لیکچرار امیرجان حقانی نے ان تمام
لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے دامے درمے ، قدمے سخنے ڈگری کالج گلگت کی
تعمیر وترقی میں حصہ لیا اور تمام مرحومین پروفیسروں اور انتظامی اسٹاف کے
حق میں دعائے مغفرت بھی کرائی اور حیات ریٹائرڈ عملہ اور پروفیسروں کے لیے
دعائے خیر کروائی۔اس تقریب میںاسٹنٹ قیصر،غلام عباس ،نائب خان اور ریٹائرڈ
سپرنٹنڈنٹ لیاقت اور ڈپٹی ڈائریکٹر جمشید علی نے خصوصی شرکت کی۔کالج کے
لیکچراراحمد سلیم سلیمی نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے اور تقریب
میں شمولیت کرنے والے تمام پروفیسروں اور دیگر عملے کا شکریہ ادا کیا۔تمام
مقررین اور فیکلٹی ممبران نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پچاس سالہ تعلیمی سفر
کے تکمیل میں منعقدہ تقریبات کا سلسلہ بہترین انداز میں منایا جائے گا۔ |