ترجیحات

جیسے ہی موبائل فون کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر آئی ، مختلف ایپس کی اَپ ڈیشن شروع ہوگئی ۔ اس عمل کو مکمل ہونے کے لئے اندازاً ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت درکار تھا۔ چہرے پر ہلکی سی ناگواری گزری لیکن اَپ ڈیشن ضروری تھی چناچہ انتظار کرنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی اس سارے عمل کو دیکھتا رہا۔ مختلف ایپس قطار میں کھڑے تھے، اُن کے ساتھ میموری سائز بھی لکھا ہوا تھاجس سے مجھے یہ سمجھنا آسان ہوگیا تھا کہ جن ایپس کا میموری سائز زیادہ تھا وہ اَپ ڈیشن میں زیادہ وقت اور کم سائز والے کم وقت لیں گے۔ میں یہ سارا منظر موبائل فون کی چھوٹی اسکرین پر وقت گزاری کی غرض سے دل چسپی نہ ہونے کے باوجود دیکھ رہا تھا۔کہتے ہیں کہ سفر میں اگر وقتنہ گزر رہا ہو تو ساتھ بیٹھے مسافر سے بات چیت شروع کردیں۔ آپ کو وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوگا۔ ایک مرتبہ ریل گاڑی میں دو مسافر وقفے وقفے سے کچھ یوں گفتگو کررہے تھے۔ پہلا بولا ، آپ کہاں جارہے ہیں ؟ دوسرا، لاہور جارہا ہوں۔تھوڑی دیر بعد پہلا بولا ، اچھا !میں بھی لاہور جار ہا ہوں۔ آپ لاہور میں کہاں رہتے ہیں ؟ دوسرا ، گلبرگ میں گھر ہے ۔کچھ دیر بعد پہلا پھر بولا ، میں بھی گلبرگ میں رہتا ہوں۔ آپ کون سی گلی میں رہتے ہیں ؟ ان مسافروں کی گفتگو ساتھ میں بیٹھا ایک اور مسافر بھی غور سے سُن رہا تھا۔ دوسرا بولا ، گلی نمبر ایک سو ایک میں رہتا ہوں۔ پہلا پھر بولا ، میں بھی گلی نمبر ایک سو ایک میں رہتا ہوں۔ آپ کا مکان نمبر کیا ہے ؟ دوسرا بولا ، مکان نمبر پانچ ہے ۔ پہلا کچھ دیر بعد بولا، میں بھی مکان نمبر پانچ میں رہتا ہوں۔ ساتھ میں بیٹھے مسافر سے رہا نہ گیا اور تعجب سے پوچھا کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہو اور آپ ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں ہو۔ پہلا مسافر بولا ، آپ بیچ میں دخل نہ دیں۔ ہم دونوں بھائی ہیں اور وقت گزاری کے لئے آپس میں بات چیت کر رہے ہیں۔ موبائل فون پر کال ، ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ سہولت کی دستیابی سے کسی دوست سے گپ شپ ہوسکتی تھی لیکن اَپ ڈیشن کا تھا تو انتظارہی۔ انتظار ایک ایسی کیفیت ہے جس کا شمار سب سے زیادہ تکلیف دہ کیفیتوں میں ہوتا ہے۔ ہم نے بھی ایپس کی اَپ ڈیشن پر توجہ مرکوز کر لی ، دھیرے دھیرے ایپلیکیشن اَپ ڈیٹ ہونا شروع ہوئے۔ اس سارے عمل کی خاص بات یہ تھی کہ موبائل فون کے اندر موجود آپریٹنگ سافٹ وئیر نے اپنی ترجیحات طے کر لی تھیں، یعنی سب سے پہلے چھوٹے ایپس اَپ ڈیٹ ہونا شروع کئے اور بیچ بیچ میں بڑی میموری سائز والے جو کہ اہمیت کے حامل تھے ، اَپ ڈیٹ کرنے لگے۔درجنوں ایپس تھے جن میں سے چھوٹے چھوٹے اَپ ڈیٹ ہو کر قطار میں سے نکلنے لگے۔ مجھے موبائل فون کے سافٹ وئیر کی ذہانت کو داد دینی پڑی ، یعنی سسٹم سے بوجھ کو اپنی ترجیحات کی بنیاد پر کم کرتا رہا اور یہ سارا عمل گھنٹے سے کم وقت میں مکمل ہوگیا۔ ہمارے لئے یہ سبق چھوڑا کہ ہمیں بھی اپنی زندگی کی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے تاکہ زندگی کے کاموں میں تاخیر نہ آئے اور ان کی بروقت انجام دہی کو یقینی بنایا جاسکے۔ کمپیوٹر کے آپریٹنگ سسٹم بھی اپنے تمام کاموں کو اسی طرح سر انجام دیتے ہیں۔ اُن میں جاب شیڈیولر ترجیحات اور اہمیت کی بنیادوں پر کام کرتے ہیں۔

یہی اُصول موجودہ حکومت کو اُمور ِ مملکت کو چلانے کے لئے اپنانے چاہیے کیوں کہ اس وقت ملک کے اندرونی و بیرونی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ہر طرف بحرانوں اور مسائل کا سامنا ہے جن میں پیٹرول کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور غائب ہونا،تباہ معیشت ، کمرتوڑ مہنگائی ، کووِڈ19کی عالمی وباء ، سیاسی دینگامشتی ، داخلی اور خارجی مسائل وغیرہ سرفہرست ہیں۔ایسے حالات میں ترجیحات کا تعین کرنا ناگزیر بن جاتا ہے اور اگرہم ترجیحات طے کرنے میں ناکام ہوئے تو یہ بحران مزید گھمبیر شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ جولائی 2018 ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک ِ انصاف کامیاب ہو کر اُبھری جس کا بنیادی نعرہ احتساب تھا۔ انہوں نے احتساب کا عمل شروع کیا اور خوش آئند بات یہ تھی کہ چینی اور آٹے کے بحرانوں کے لئے کمیشن بنایا اور رپورٹ منظر عام پر لائے۔ اپنی حکومت میں اپنے منجھے بلّے بازوں کے خلاف رپورٹ منظر ِ عام پر لانا بلا شبہ ایک بڑا قدم تھا لیکن انہوں نے احتساب کے عمل کو اتنا پیچھے (یعنی چالیس سال ) لے گئے کہ تمام کیس اپنے منطقی انجام سے ہٹ گئے۔ جس کی تازہ مثال موجودہ چینی بحران کو 1985 ء سے تحقیق کرنا ہے۔اَب حکومت احتساب کے چکروں میں بُری طرح پھنس چکی ہے حالاں کہ اس وقت اُن کی ترجیحات معاشی پالیسیوں کوبہتر کرنا ہونا چاہیے تھا۔ یاد رہے اسٹیٹ بنک کی حالیہ ششماہی رپورٹ کے مطابق مجموعی قومی پیداوار ہدف سے نصف ، مہنگائی گزشتہ سالوں کی نسبت دگنی ، محصولات کی وصولی میں 331 ارب روپے کی کمی ، ترقیاتی پروگراموں کے لئے مختص فنڈز میں کٹوتی اور روپے کی ڈالر کے مقابلے میں بے قدری وغیرہ ہے۔ ان حالات میں ترجیحات کاتعین نہایت ضروری بنتا ہے اور انہیں موبائل فون کے آپریٹنگ سافٹ وئیر کی طرح سمارٹ اور درست سمت ہونا چاہیے تاکہ مسائل حل ہوتے رہیں اور عوام کو حقیقی ریلیف مل سکے۔
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.