کتنا انتظار ہوتا ہے اس کے آنے کا لیکن جب بھی آتی ہے ،ھمکنار
ھوئے بغیر چلی جاتی ہے، پتہ نہیں کیوں اسے یہاں دل نہیں لگتا، پوچھا تو
کہنے لگی جب بھی آتی ھوں، تم پتہ نہیں کن خیالوں میں گم ھوتے ھو، مجھ سے
ملتے ھی نہیں، کبھی باورچی خانے میں، کبھی، موبائل پر، کبھی سمندر پار کسی
سے باتیں کرتے ہو، پتہ نہیں کیا اناپ شناپ لکھتے اور گم رہتے ھو، اور اگر
کسی دن تمھارے پاس ٹھہر جاؤں تو استاد بڑے غلام علی خان کی طرح پکے راگ
سناتے ھو وہ بھی بلند آواز میں کہ ارد گرد کا محلہ جاگ جاتا ہے،اٹھتے ھو
اور تسبیح پکڑ لیتے ھو، پتہ نہیں کیا باتیں چھیڑ دیتے ھو، پھر مصلے پر کچھ
گنگناتے رہتے ھو، اور شکوہ مجھ سے کرتے ھو، میں نے کہا سنو تم تو امیروں کے
گھروں میں ھی پھیرا پا کہ آتی ھو، پتہ نہیں کہاں کہاں مجرے کرتی ھو، غصہ
ھوگئی، کہتی ہے، امیروں کا مجھ سے کیا تعلق؟ میں نے کہا پھر ضرور بنی گالا
جاتی ھو گی، کبھی میرا اور ان فٹ پھاتیوں کا پیغام ھی دے دیا کرو، کوئی
بھوک میں، کوئی آٹے دانے اور پانی کے لیے پریشان ، کہتی ہے کہا تھا آگے سے
خان صاحب کہتے ہیں، معافی، معافی، میں نے کہا معافی نہیں مافیا، مافیا کہتے
ھوں گے، اب مافیا کا خان صاحب کو بتائیں آپ نے ھی کچھ کرنا ھے، ھم کیا کر
سکتے ہیں، ھمیں تو آٹا بھی مہنگا، چینی بھی مہنگی، اوپر سے بجلی، گیس کے بل
اور پتہ ھے ھماری ملازمت بھی غیر یقینی ھو گئی، تین سال سے تنخواہ نہیں
بڑھی، " اچھا کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا" بہادر شاہ ظفر بچارا تو کہتا
تھا کہ، دن زندگی کے ختم ھوئے شام ھو گئی
پھیلا کر پاؤں سوئیں گے کنج مزار میں، مگر ھم تو دل مضطرب والے ھیں، مر کے
بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟
کہتی ہے بنی گالا میں میری کوئی نہیں سنتا، میں نے کہا تم تو نرم گدیلوں،
زلف عنبر اور زعفران جنت کو چھو کر آتی ھو تھوڑی دیر۔ میرے پاس کیوں نہیں
رہتی، شاید تیرے وصل سے میری شب غم مختصر ھو جائے، تمھارے ناز نخرے ہی ختم
نہیں ھوتے، تمہیں بلوچی شاعر کی طرح کوئی سلطان مرتب کوئی شہزادہ مل گیا ہو
گا، میری کیا پروا ھے، جا تو چلی جا، کہتی ہے عجیب پاگل آدمی ہو تم ایک تو
میری خاطر مدارت نہیں کر سکتے اوپر سے شکوے کرتے ہو، میں نے کہا شکوہ کیا
پچھلے تیس سال سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں، لوگ سمجھتے ہیں تم میرے ساتھ
ھو اور تم ھو کہ دو گھڑیاں بھی میرے پاس نہیں رہتی، تجھے ٹھاٹھ بھاٹ چائیے،
میں تو فقیر منش ھوں یہاں تجھے کیا ملے گا، دل مضطرب نے کہیں کا نہیں چھوڑا،
میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ میرے والد نے 35 سال اس کا انتظار کیا نہیں آئی
مجھے تمھاری بے وفائی کی داستانیں بہت پریشان کرتی ہیں، جب تو نہیں آتی تو
اللہ کے سامنے ھاتھ پھیلا کر تجھے مانگتا رہتا ہوں، بجلی کی طرح تو آتی ہے
اور چلی جاتی ہے، اتنی جفائیں اچھی نہیں ھوتیں، انتظار، انتظار مگر آئے
نئید آج بھی تو نہیں آئی!!!!
|