ڈاکٹر عرفان شہزاد سے۔ عالم رؤیا میں ملاقات!!!

 میں ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب کو نہیں جانتا تھا، میرے ایک دوست عمران باجوہ نے ان کا تعارف کروایا بلکہ زور دیا کہ آپ ان کو فیس بک پر ایڈ کریں،وہ بہت خوبصورت لکھتے اور فکری، دینی واخلاقی رہنمائی کرتے ہیں، ھم اچھے لوگ چراغ لے کر ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ھم بھی کچھ سیکھ لیں،عمران باجوہ صاحب نے نہ صرف فیس بک پر ایڈ کرنے کا کہا بلکہ روز پوچھتے کہ ، عرفان شہزاد کا فلاں مضمون پڑھا کہ نہیں، میں ذرا افسانوی مزاج اور جذباتی قسم کا آدمی ھوں اور اسی وجہ سے تحریر و تقریر میں جذبات، محبت، بے معنی رومان غالب ھو جاتا ھے، اور دل کرتا ہے یہ سحر نہ ٹوٹے تاکہ جینے کا کوئی بہانہ تو ھو ، اس لئے عرفان شہزاد صاحب، یا ان کے استاد جاوید غامدی صاحب کی تحریریں دلکش نہیں لگتی تھیں، ذکر و عبادت کا لطف چھن جانے کا خطرہ تھا اس لیے میں ایسے لوگوں سے دور رہتا تھا، بہرحال زندگی ایک سفر ھے، اور اس میں ارتقائی مراحل تو آتے ہیں، یہی سمجھ کر فیس بک پر عرفان شہزاد صاحب کو ایڈ کر لیا، اسی قبیل کے ایک اور فرد خورشید ندیم صاحب عرصے سے یاد اللہ ھے، کئی دفعہ مکالمہ بھی ھوا، وہ جس زمانے میں اساس اخبار میں لکھتے تھے تو جواب آں غزل کے طور پر بیشتر کالم میں نے لکھے، کچھ انہوں نے اپنے کالم میں چھاپے بھی، پھر گلزار آفاقی صاحب سے بھی قلمی اور صوتی رابطہ رہا، خورشید ندیم صاحب تو اب بھی کبھی کبھار سلسلہ بات چیت جاری رہتا ہے، اسی طرح جاوید غامدی صاحب کا رسالہ ھماری کالج لائیبریری میں آتا ھوتا تھا 2002ء میں ان کو پڑھ چکا تھا اور پھر خورشید ندیم صاحب کے کالم میں اکثر استاذی جاوید غامدی صاحب کے۔ نام سے تذکرہ ھوتا تھا، ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب کو میں نے فیس بک پر پڑھا کبھی ہلکے پھلکا تبصرہ بھی کیا، اسلام آباد میں کتاب میلہ ھوا ، پاک چائنا سینٹر میں اور مجھے عمران باجوہ صاحب پکڑ وہاں لے گئے، جہاں عرفان شہزاد صاحب سے تعارف بھی، وہ شاید بھول گئے ھوں گے، ای میگزین کے نام سے ھونے والے مذاکرے میں شرکت بھی کی، مختلف معروف بلاگرز، اور شبلی فراز صاحب کو بھی سنا، خود بھی بولنے کی خواہش تھی مگر مناسب نہ جانا، اسی دن المورد کے دوست سے تفصیلی ملاقات اور نشت بھی ھوئی، خیر عمران باجوہ صاحب کی تحریک پر عرفان شہزاد صاحب کو پڑھنا شروع کیا، یہ الگ بات ھے کہ کسی غائبانہ دکھ یا انجانے میں عرفان شہزاد صاحب عمران باجوہ کو ان فرینڈ کر چکے ہیں، لیکن میں ابھی تک ان کو پڑھ رہا ہوں، کبھی جواب بھی اور کئی سوال بھی اٹھانے کا دل کرتا ہے مگر کم علمی غالب آجاتی ہے اس کے باوجود ھلکا سا چرکہ لگا دیتے ہیں، دوسرا ان کی بعض تحریریں مشکل ھوتی ھیں، اور دماغ پر زور ڈالنے کا وقت نہیں ملتا، البتہ کمال دلائل کے ساتھ لکھتے ہیں اور اکثر ان کی تحریروں سے استفادہ کرتا رہتا ہوں، اللہ کرے یہ سلسلہ دراز رہے، بعض اوقات جب وہ سیاست پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس میں کچھ تعصب نظر آتا ہے، لیکن وہ جب بھی معاشرتی مسائل، فکری مغالطوں اور مذہبی موضوعات پر لکھتے ہیں تو ھمارے ذھین کے بند دریچے کھل جاتے ہیں، برداشت کا مادہ، دلیل سے بات کرنا، اور درد دل کا اظہار ھمیں بہا گیا ہے اور وہ طلسم جو تھا، وہ جاتا رہا، اور کسی قدر ھم اس سفر میں اترے کہ البیان اور میزان کے سفر میں شامل ھیں، گذشتہ دنوں ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب سے عالم رویا میں ایک طویل ملاقات ھوئی، ایف الیون میں کسی ہال میں مذاکرے کی نشست ھو رھی ھے ، عرفان شہزاد صاحب میرے قریب بیٹھے ہیں اور گپ شپ بھی چل رہی ہے، عالم رویا میں میں نے چند سوالات ان کے سامنے رکھے جن کی اسی عالم میں تو تشفی ھو گئی تھی، لیکن بیداری کے بعد پھر وہی سوال میرے سامنے کھڑے ہو گئے،
1) کیا دینی معاملات میں ھر چیز کو دلیل سے ھی ثابت کیا جاسکتا ہے، یا کرنا چاہیے، خدا کی حقانیت، یا قرآن کے احکام من وعن تسلیم نہیں کر لینے چائیے،؟
2) آپ اور غامدی صاحب کی کتابیں، تفسیر عام پڑھے لکھے شخص کے لیے کیسے مفید ھو سکتی ھیں, عوامی سطح پر قبولیت اور عمل کیسے ممکن ہے؟
3) جب آپ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں سورہ قریش، اہل کتاب، یا اس موقع محل کے لیے بیان ھوئی تو کیا ھم قرآن مجید کو قیامت تک کے لیے ھر سورہ یا احکام سے استفادہ کرنے کے پابند نہیں ھیں یا قرآن کی تعلیمات معاذ اللہ ابدی نہیں ھیں؟
4) ھم کس بنیاد پر اہل سلف کی کاوشوں، تصوف کی تعلیمات اور ذرائع کو رد کر دیں اور اس فکر کو مان لیں؟
5) کیا دنیا میں غلبہ اسلام کے لیے جدوجہد یا امید رکھنا عبث ہے؟
اس طرح کے کئی سوالات اور بھی تھے جو ذھین سے عالم بیداری میں محو ہو گئے، بہرحال امید ہے کہ ان سے عالم بیداری میں نہ سہی عالم رویا میں پھر شاید ملاقات ھو جائے، تو سوال تو ھر جگہ اُٹھتے رہتے ہیں، فیس عالم فیس بک پر بھی وہ جواب دے سکتے ہیں، عالم رویا کی نشت میں ھم نے ایک کھوکھے سے کھانا بھی کھایا، چائے بھی پی اور مسجد میں نماز بھی ادا کی، اسی دوران میں غلطی سے کسی نمازی کے آگے سے گزر گیا، تو عرفان شہزاد صاحب نے کہا کہ۔ اس سے

 

Sardar Khursheed Akhtar
About the Author: Sardar Khursheed Akhtar Read More Articles by Sardar Khursheed Akhtar: 89 Articles with 60677 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.