نابغہ عصر مفکرِ اسلام شاہ ولی اللہ اپنے عہد
اٹھارویں صدی عیسوی کے مجدد کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ اپنی
ذات میں ایک انجمن تھے، ایک جید عالم دین، ایک باکمال فقیہہ، ایک دانش مند
سیاسی مدبر کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ایک عارف صوفی اور فلسفی کے طور پر ان
کی علمی حیثیت یاد رکھی جائیگی۔ آزادی ہند کے سلسلہ میں دوسرے مجاہدینِ ملت
اور آزادی کےسپوتوں کے مساعی کے علاوہ شاوہ ولی اللہ کے علمی و عملی مساعی
کو نمایاں دخل رہا ہے۔
آ پ کا نام ولی اللہ ، کنیت ابو محمد اور لقب محدث دہلوی تھا۔ آپ کو عالد
کانام عبد الرحیم بن شہید وجہیہ الدین تھا۔ شاہ عبدالرحیم ملک کے ان ممتاز
علماء میں سے تھے فتاویٰ عالمگیری ترتیب دینے کے لیے چنا گیا۔ وہ معتدل
مزاج تھے، لباس اور غذا میں سادگی برتتے۔ ۶۰ برس کی عمر کی چند غیبی اشارات
اور بشارتوں کے ذریعے ان کو علم ہوا کہ ان کے ہاں ایسی بلند اقبال اولاد
پیدا ہو گی ،جس سے قدرت کو بڑے بڑے کام لینے مقصود ہیں۔شاہ صاحب کی ولادت ۴
شوال ۱۱۱۴ ھ کو اپنے ننھیال کے قصبے پھلت میں ہوئی۔ آپ کے والد نے آپ کا
نام ولی اللہ رکھا۔ آپ بچپن ہی سے عمدہ اخلاق کی وجہ اے اپنے ہم عمروں سے
ممتاز نظر آتے تھے۔آپ نے فقہ، اُصول ِ فقہ، منطق، علم الکلام،طب اور
ریاضی سے متعلق اپنے دور کی بہترین کتب سے استفادہ کیا۔پندرہ برس کی عمر
میں ہندوستان میں رائج علوم سے مکمل واقفیت حاصل کر کی۔
پاکستان ایک نظریاتی ملک کی حیثیت سے اسلام اور جاملین اسلام کے ساتھ ایک
مضبوط رشتہ رکھتا ہے، اس رشتہ کی بقاء سے اس ملک کا استحکام ہے اور یہی
نظریہ اس کی پہچان ہے، تخلیقِ پاکستان کے پس منظر میں اس نظریہ کی آبیاری
جن حضرات نے کی، ان میں دوسرے زعماءِ ملت کے علاوہ صوفیاء کی خاموش جدوجہد
کو نمایاں مقام حاصل رہا ہے، ماضی میں صوفیاء کی خاصی تعداد اس حوالے سے
بطورِ دلیل پیش کی جاسکتی ہے، ماضی قریب میں اس حوالے سے علامہ اقبال نے جن
شخصیات کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے۔ ان میں سے شیخ احمد سرہندی م ۱۶۲۴ء، سلطان
محی الدین اورنگزیب م ۱۷۰۷ء اور شاہ ولی اللہ شامل ہیں۔ علامہ کا یہ بھی
لکھنا ہے، تصوف جیسی علمی قدر اٹھارویں صدی میں ہر قسم کے آمیزش سے محفوظ
رہی ہے، اگر اس وقت کے علمی اشخاص ان کی حفاظت میں تساہل سےکام لیتے تو
اسلامی فلسفہ یقیناً ہندو تہذیب کے زیرِ اثر آتا۔
تصوف کی حقیقت انسان کی نفسی قوتوں کو بیدار کرکے اُسے اوجِ کمال پر
پہنچانا ہے۔ انسان کی نفسی قوتیں بے پناہ تغیر کا باعث ہیں، انسان کی
لامحدود قوتیں عالمِ افاق کی بجائے جب صرف نفسِ انسانی کو اپنی تحقیق و
تسخیر و تسخیر کا مرکز بناتی ہیں، تو اس کی وجہ سے اس پر زندگی کے وہ مافوق
الادراک حقائق منکشف ہو جاتے ہیں، جن کی وسعتوں اور گہرائیوں کا کوئی
اندازہ نہیں کرسکتا۔ شاہ ولی اللہ کی نظر میں تصوف کا ایک مقصد انسان کے
لطائف و ملکات کو بیدار کرنا ہے یہ اعمال کی روح ہے، وہ تصوف سے مقصود
احکامِ الہٰی کی تعمیل کے نتیجہ میں چار اُم الا خلاق طہارت، اخبات، سماحت
اور عدالت کی صفات سے انسانی نفس کو مزین کرنا اور ان کے اضداد یعنی حدث و
خُبث، استکبار، خود غرضی اور ظالم سے گلو خلاصی پانا قرار دیتے ہیں، چونکہ
تصوف سے مقصد اعلٰی اخلاق کی تشکیل ہے، اس لئے صوفیاء کی کتب میں اخلاقیات
ہی کو تصوف کہا گیا ہے۔
لفظ تصوف کی تحقیق اور شاہ ولی اللہ کی رائے:
لفظ صوفی اور تصوف کے لغوی اشتقاق کے کے بارے میں ہر دور کے محققین نے اپنی
اپنی آراء پیش کی ہیں تاہم قرآن مجید اور صحاح ستہ میں یہ لفظ موجود ہی
نہیں ہے اسی طرح عربی زبان کی قدیم لغات بھی اسی سے خالی ہیں۔ یہی وجی ہے
کہ علماء تصوف اس کی اصل کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ تصوف کے سلسلے
میں پہلی کوشش حافظ محمد بن طاہر المقدسی کی بیان کردہ ایک روایت میں کی
گئی ہے، ان کے بیان کے مطابق کوفہ کے ایک محدث ولید بن قاسم سے صوفی کی
نسبت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
" جاہلیت میں صوفہ کے نام سے ایک قوم تھی جو اللہ کے لیے یکسو ہو گئی تھی
اور جس نے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا تھا پس جن کوگوں
کے ان کی مشابہت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے"۔
اس کے علاوہ کئی اور روایات بھی ذکر کی جاتی ہیں جسے درج ذیل پیش کیا جا
رہا ہے:
۱۔۔ صوفہ کی قوم کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ خانہ کعبہ کے مجاور تھے اور
حاجیوں کے لیے آرام و آ سائش کا انتظام کرنا ان کی ذمہ داری تھا۔ ان میں
سب سے پہلے غوث بن مر بن اُدبن طابخہ بن الیاس بن مضر کا نام صوفہ پڑا۔
۲۔۔ ایک اور روایت کے مطابق غوث بن مر کی ماں کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا
تھا، اس نے نظر مانی کہ اگر بچہ زندہ رہا تو اس کے سر پر صوفہ باندھے گی۔
لڑکا پیدا ہونے پر اس نے اپنی نذر پوری کی ۔ اس وجہ سے لڑکے کا نام صوفہ
پڑا اور بعد میں اس کی نسل صوف کہلائی۔
۳۔۔ معاصر اہل قلم اقبال شاہ نے اس لفظ کا مادہ " صفا" ذکر کیا ہے ۔ باب
مفاعلۃ کے ماضی مجہول کا صیغہ "صُو فِیَ" لیا گیا۔ گویا یہ اسم نہیں بلکہ
فول ماضی مجہول ہے جو بطور اسم استعمال ہورہا ہے۔
شاہ ولی اللہ کی نظر میں تصوف:
امام الہند نے اپنی کُتب میں تصوف و احسان کے بارے میں قدرے وسعت سے لکھا
ہے، اپنی شہرہ آفاق کتاب حجتہ اللہ البالغہ جو شاہ صاحب کی (Magnum Opus)
ہے، کو گوانہوں نے اصلاً شریعت کے اسرار و حِکم، مقاصد و اغراض احادیث کی
توضیح میں لکھی تھی، تاہم اس کی دوسری جلد کے آغاز میں ارکانِ اسلام نماز،
زکٰوۃ، روزہ اور حج میں سے ہر ایک کی حقیقت اور بھر پور حکمتِ تشریع بیان
کرنے کے بعد مبحث فی ابواب من الاحسان کی ذیل میں انہوں نے تصوف کے مسائل
کا بھر پور احاطہ کیا ہے، شاہ صاحب عام صوفیاء کی طرح طریقت کو شریعت کا
تابع سمجھتے ہیں اور احکامِ الہٰی کی بجا آوری کے نتیجہ میں باطنی کیفیات و
نتائج کو احسان و تصوف ہی قرار دیتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ سے تصوف کی جو تعریف منقول ہے وہ تصوف کی باضابطہ تعریف تو
نہیں ، البتہ اسے تصوف کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ شاہ صاحب اپنی کتاب"
البدروالبازغہ" میں لکھتے ہیں:
" یہ طریقہ کی وہ قسم ہے جس کی مدد سے انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے
اور انسان کے اعمال پر مرتب ہونے والے
مجاوزات اور نتائج کو جان لیتا ہے"۔
شاہ صاحب انسانی عقل ، قلب اور نفس کے مقامات و احوال بڑی تفصیل سے بیان
کرتے ہیں۔یہ دراصل مقامات و احوال تصوف کے نتائج و ثمرات ہیں لہذٰا لطیفہ
عقل کی بناء سالک کو جو احوال پیش آتے ہیں ، وہ توحید، اخلاص ، توکل، شکر،
اُنس،ہیبت، صدیقت، محدثیت کی شکل میں ہیں۔
شاہ صاحب ان کیفیات کا نام تصوف رکھتے ہیں۔
ادوارِ تصوف:
عام مورخین تصوف کے جن ارتقائی مراحل کو بیان کرتے ہیں، وہ تاریخی و سنین
کے اعتبار سے ہیں وہ ان ادوار کو پانچ مراحل میں تقسیم کرتے ہیں، (۲۳) شاہ
صاحب خود اپنی کتاب "ھمعات" میں جو تقسیم ادوار کرتے ہیں (۲۴) وہ اس سے
مختلف ہے، مورخین کے ہاں تصوف کے ادوار یہ ہیں۔
۱۔ پہلا دور تصوف، دورِ رسالت:
تصوف دور ظاہر ہے، دور رسالت اور دور صحابہ ہے، اس دور مسعد کو مزید یوں
بھی تقسیم کیا گیا ہے۔
۱۔ دور قبل از نبوت ب۔ دور قبل از ہجرت مدینہ ج۔ دور بعد از ہجرت مدینہ
۲۔ تصوف کا دوسرا دور:
اس دور میں اویس قرنی اور حسن بصری جیس بزرگ ہستیاں نظر آتی ہیں، ان حضرات
نے تصوف کی بنیادوں کو استوار کیا، یہ دور ۳۴ھ تا ۱۵۰ھ کو محیط ہے۔
۳۔ تصوف کا تیسرا دور تبع تابعین کا دور:
یہ دور عبدک الصوف اور حضرت ہاشم صوفی سے شروع ہوتا ہے، صوف کی اصطلاح کھلے
عام اس دور کی پیداوار ہے۔ مخصوص اوضاع کے افراد پر "صوفی لفظ کا اطلاق
ہونا شروع ہوا، یہ دور ۱۵۰ء ہجری سے ۳۵۰ھ تک پھیلا ہوا ہے۔
۴۔ تصوف کا دورِ متاخرین:
اس دور کا آغاز شیخ ابوالحسن علی ہجویری م ۴۷۶ھ سے ہوتا ہے، اس دور میں بھی
بالترتیب حضرت امام غزالی م ۵۰۵ھ، مولانا جلال الدین رومی م ۶۰۴ھ اور شیخ
اکبر محی الدین ابن عربی م ۶۳۸ھ کے اسمائے اور ان کے علمی کارنامے قابل ذکر
ہیں، اس دور میں تصوف اپنے منتہائے کمال کو پہنچا۔ یہ دور ۴۰۰ھ سے ۶۷۶ھ تک
رہا، اس کے بعد تصوف کا رخ زوال کی طرف رہا، یہ واضح ہے کہ اسی دور میں
تصوف عمل کے میدان سے نکل کر فلسفے کے میدان میں داخل ہوا، بعد کے ادوار
میں اسی مزاج سے تصوف اپنے ادوار کو قطع کرتا رہا۔
۵۔ تصوف کا دورِانحطاط:
یہ دور آٹھویں صدی ہجری سے شروع ہوتا ہے، یہ وہ دور ہے، جب صوفیا کو تختہ
دار پر چڑھانے کے فتوٰی کا رحجان اپنی پوری شدت سے زور پکڑ چکا تھا۔
عبدالکریم جیلی ۷۶۶ھ، مولانا عبدالرحٰمن جامی ۸۹۸ھ، عبدالوہاب الشعرانی
۹۷۳ھ، شیخ احمد سرہندی ۱۰۳۴، اور شاہ ولی اللہ ۱۱۱۴، کا دور بھی اسی میں
شامل ہے۔ یہ دور شاہ صاحب کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز سے ہوتے ہوئے اس
وقت تک رہا اور ہنوز جاری ہے۔ تصوف کی اس تقسیم میں کافی اسقام پائے جاتے
ہیں۔ لہٰذا شاہ صاحب نے مقصد تصوف کی اساس پر تصوف کو چار ادوار میں تقسیم
کیا۔
شاہ ولی اللہ اور تصوف کے ادوار:
شاہ ولی اللہ کی نظر میں تصوف کا تاریخی پس منظر کچھ یوں ہے،آپ نے اسلامی
تاریخ میں تصوف کے مختلف اندازو اطوار کا جائزہ لے کر تصوف کو ۴ ادوار پر
تقسیم کیا ہے:
۱۔۔ دورِ ایمان و عمل:
علومِ اسلامی کا تشکیلی دور آنخضرت کا دورِ مسعود ہی تھا، اس وقت سادہ تمدن
میں ہدایت کا بڑا ذریعہ آنحضرت کی ذات سے بڑھ کر کون سی ذات ہو سکتی تھی؟
اس وقت جبکہ اسلامی معاشرہ کی داغ بیل پڑ رہی تھی تو صحابہ کرام آنحضرت سے
مسائل کے بارے میں استفسار فرماتے، آنحضرت مسائل کے حل میں راہنمائی
فرماتے، شاہ صاحب نہ صرف تصوف کے حوالے سے بلکہ تمام علوم کے لئے آنحضرت کی
ذات کو مصدرِ علم مانتے ہیں، شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ :
''تمام علوم کے حصول کے لیے صحابہ ؓ کی نگاہیں آپﷺ کے جمالِ مبارک پر جمی
ہوئی تھیں ۔ آپ منبع علم سے فیض حاصل کر رہے تھے۔ دورِ ایمان و عمل میں
کسی شخص کو اس امر کی ضرورت نہیں پڑی تھی کہ ان معنوی کیفیات کوحاصل کرنے
کے لیے بعد کے صوفیاء کی طرح سر نیچے کیے ہوئے گھنٹوں کوئی مخصوص مشق کرے
اور یہ کہ اللہ کے قُرب کے لیے غرق نظر آ تے ہوں ۔ اس وقت تصوف کی بنیاد
اومال پر استوار تھی۔ ''
۲۔۔ دورِ نسبت پہلی صدی تا جنید بغدادی:
جندی بغدادی (م: ۲۸۷ھ) جو صوفیا کے سرخیل ہیں ان کے زمانے میں یا کچھ پہلے
تصوف ایک دوسرا رنگ ابنایا۔ اس دور میں اہل کمال میں سے ایک عام طبقہ دورِ
عمل کے طریقہ پر عمل پیرا رہا۔ لیکن خواص کے بڑی بڑی ریاضتیں شروع کیں۔
انہوں نے دنیا سے بالکل قطع تعلق مستقل طور پر ذکرو فکر میں مشغولیت اختیار
کی ، اس سے ان میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوئی ، اس سے یہ مقصود تھا کہ دل کو
تعلق باللہ کی نسبت حاصل ہو جائے ، چنانچہ یہ لوگ اسی نسبت کو حاصل کر نے
میں لگ گئے ، مراقبے کرنے لگے۔ یہ لوگ سماع سنتے ، کشف و اسرار کے ذریعہ
دوسروں کے دلوں کی باتیں معلوم کرتے تھے ، مجایدے اور نفس کشی کے اُمور بجا
لاتےتھے۔الغرض اس دور کے اہل کمال کا تصوف یہ تھا کہ وہ خدا کی عبادت اور
دوزخ کے عذاب سے ڈر یا جنت کی نعمتوں کے طمع میں نہ کرتے تھے بلکہ ان کی
عبادت کا محرک خدا کے ساتھ ان کی محبت کا جذ بہ اور قلبی و روحانی وابستگی
تھی۔
رسول اللہ اور صحابہ کرام کے زمانے میں چند نسلوں تک جو اہل کمال بزرگ گزرے
ہیں، ان کی زیادہ تر توجہ شریعت کے ظاہری اعمال ہی کی طرف رہی، باطنی زندگی
کی وہ تمام کیفیات جو تصوف کا اصل مقصد ہے، اُن حضرات کو شرعی احکام کی
پابندی کے ضمن میں حاصل ہو جاتی تھی، اس میں کسی شخص کو اس امر کی ضرورت
نہیں پڑی تھی کہ ان معنوی کیفیات کو حاصل کرنے کے لئے بعد کی صوفیاء کی طرح
سر نیچے کئے ہوئے پہروں غوروفکر کرلے اور یہ کہ خدائے تعالٰی سے قرب و
حضوری کے بحرِ تفکرات میں غرق نظر آتے ہو، اس وقت اعمال کی بنیاد پر تصوف
کی بنیاد استوار تھی ۔حتیٰ کے دوسرا دور دورِ نسبت آیا، جو چوتھی صدی ہجری
تک رہا۔
۳۔۔ دورِ جذب و توجہ:
اس سے متعلق شاہ صاحب لکھتے ہیں:
" اس دور میں طریقہ تصوف میں ایک اور تغیر رونما ہوااور اہل کمال میں سے
عوام حسب ِ سابق شرعی اوامر پر کاربند رہے ہیں جبکہ خواص نے
با طنی احوال و کیفیات کو اپنا نصب العین بنایا، خواص الخواص نے اعمال و
احوال سے گزر کر جذب تک رسائی حاصل کرنے کواپنا مقصود ٹھرایااور انہوں نے
عالم محسوسات میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا وہی ایک ذات ہے جس پر تمام
اشیا کے وجود کا انحصار ہے۔"
اس دوسرے دور میں تصوف کی اصطلاحات تفاسیر میں جگہ پانے لگیں ، تصوف و حکمت
کے امتزاجی سلسلے امام ابو حامد غزالی نے مؤثر ترین کام یہ کیا کہ انہوں نے
دینی عقائد ، فلسفیانہ ، افکار اور عرفانی واردات کے مابین تطبیق پیدا کر
دی۔ ان کی کتب " احیا ء علوم الدین"، مشکوۃالانوار، اس تطبیقی نقطہ نظر کی
نمائندگی کرتی ہیں۔
۴۔ چوتھا دورِ فلسفہ وجود تا حال:
فلسفہ وجود کی بحث اس دور کے ممیزاست میں سے رہی، وجود مطلق کیا ہے؟ ذات
واجب الوجود سے کائنات کا کیا تعلق ہے؟ کائنات کا صدور ذات فیاض سے کیسے
ہوا؟ اس وقت صوفیاء کیفیات و احوال کی منزل سے بھی آگے جذب و سکر کی حد تک
نکل گئی، ان بزرگوں نے ظہور کائنات کے مدارج اور تنزلات کی تحقیقات کیں،
قدیم اور حادث کے باہمی تعلق کو باریک بینی سے بیان کیا، اسی طرح تصوف
فلسفہ کا روپ دھارا گیا، ابن عربی نے جن حقائق کو علم و حکمت کی متعلقہ
زبان میں پیش کیا، سنائی، عطار، رومی اور جامی نے شعر کے دلکش وزود اثر
پیرائے میں ان حقائق کو ادا فرمایا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تصوف کے معارف
خواص سے عوام تک پہنچے اور ہر شخص تصوف کا کلمہ پڑھنے لگا۔
شاہ صاحب کی تقسیم ادوارِ تصوف عام مورخین کے مقابلہ میں متصوفانہ رجحانات
اور مقصدیت پر مبنی ہے، شاہ صاحب کے یہ چار ادوار، دورِ ایمان، دورِ نسبت،
دورِ جذب و توجہ، دورِ فلسفئہ وجود، ایسے تاریخی موڑ ہیں، جن سے واضح طور
پر پتہ چلتا ہے کہ تصوف کو ان ادوار میں نئے رجحانات کا سامنا کرنا پڑا اور
تصوف کو واضح جہتیں ملیں۔ تقسیم ادوارِ تصوف میں وقت و اشخاص کے اعتبار سے
تنوع کے مواقع موجود ہیں۔
تصوف میں اتصال سند کا جائزہ:
اس میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ شیخ کی سند کا اتصال ہے
یعنی شیخ خود کسی اور شیخ سے بیعت کر چکا ہو اور اسی طرح یہ سند متعلقہ
بائی سلسلہ کو پہنچے۔ خود شاہ صاحب اپنی سند کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان
کی سند طریقت رسولﷺ تک،صحیح اور متصل طریقے سے پہنچی ہے۔ شاہ صاحب لکھتے
ہیں:
" رسولﷺ سے بات شہرت کے درجے میں معلوم ہے کہ صحابہ کرام ؓ سے کبھی تو ہجرت
و جہاد پر بیعت کرتے تھے، کبھی ارکان اسلام کی ادائیگی پر بیعت کرتے تھے
کبھی کفار کے ساتھ لڑائی میں ثا بت قدم رہنے کی بیعت لیتے تھے"۔
لہٰذا عام حالات میں بیعت کے مسنون ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ہے،
البتہ خلفاء راشیدین کے بعد بیعت کے سلسلے کو اس خوف سے ترک کردیا گیا کہ
کہیں بیعت لینے والے کے متعلق خلافت کی تحصیل کا گمان نہ کیا جانے لگے اور
یہ اُلٹا فتنہ و فساد کا موجب نہ بنے۔
شاہ صاحب نے تصوف کی حقیقت ہی بدل دی وہ تصوف میں توارث (Dogma) سے زیادہ
جس چیز پر زور دیتے ہیں وہ علم ہے، امام الہند نے تصوف کو علمی خطوط پر
استوار کیا اور اس حوالہ سے بدعات و رسومات کی بجا طور پر حوصلہ شکنی کی،
یہ حقیقت شاہ صاحب کی ان کڑی شرائط سے اشکارا ہے جو وہ شیخ کی شرائط کے
حوالہ سے قلم بند کرتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ کے نزدیک "شیخ الکامل" کی شرائط:
شاہ صاحب نے شیخ الکامل کے لیے کچھ شرائط مقرر کی ہیں جن کا شیخ میں پایا
جاناضروری ہے ورنہ وہ کامل شیخ نہیں کہلائے گا۔
۱۔۔ عالم بالقرآن والسنۃ:
شاہ ولی اللہ کے نزدیک شیخ کامل کے لیے ابتدائی شرط قرآن و سنت کا مناسب
حد تک عالم ہونا ہے ، وہ لکھتے ہیں:
" بیعت لینے والے میں یعنی پیر ومرشد میں چند اُمور کا ہونا ضروری ہے، اوّل
ان کا قرآن و سنت کا عالم ہونا ہے ۔ قرٓان و سنت کے علم سے میری یہ مراد
نہیں کہ وہ اس میں درجہ کمال کو پہنچ جائے بلکہ مرشد کےلیے قرآن کا علم بس
اتنا ہی کافی ہےکہ اس نے تفسیر مدارک یا تفسیر جلالین جیسی کوئی تفسیر پڑھی
ہو، کسی عالم سے اس کے معانی جان لیے ہوں"۔
۲۔۔ عادل و متقی ہونا:
شیخ کامل سے متعلق شاہ صاحب دوسری اہم شرط کے بارے میں لکھتے ہیں:
" مرشد کے لیے دوسری شرط اس کا عادل ہونا ، اور اس کا تقویٰ دار ہونا ہے،ا
س کے لیے ضروری ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں سے بچے"۔
۳۔۔ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے رغبت رکھنا:
شاہ صاحب مرشد کے لیے تیسری شرط بیان کرتے ہیں:
" مرشد کے لیے تیسری شرط یہ ہے کہ دنیا سے بے نیاز ہو اور آخرت میں رغبت
رکھتا ہو اور جو طا عا ت وعبادات ضروری ہیں اور جو اذکار صحیح احادیث سے
مروری ہیں وہ ان کا پابند ہو اس کا دل برابر اللہ سے تعلق رکھے "۔
۴۔۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر پر عامل ہونا:
چوتھی شرط بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" مرشد کے لیے چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عامل
ہو ، اپنی رائے میں پختہ ہو ، عقل رکھتا ہو کہ جس کام کو کرنے کا حکم دے
رہا ہےاور جس سے منع کر رہا ہے اس پر پورا اختیار رکھتا ہو۔ "۔
۵۔۔ شیخ کا صحبت یافتہ ہونا:
شاہ صاحب مرشد کے لیے پانچویں شرط یہ قرار دیتی ہیں:
" مرشد کے لیے پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ ایک مدت دراز تک مشائخ کی صحبت میں
رہا ہو، ان سے اس نے تربیت پائی ہو، یہ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا
یہ مقررہ نظام ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک فلاح نہیں پا سکتا جب تک وہ فلاح
پانے والوں کو دیکھا اور مل نہ لے"۔
شاہ صاحب نے شیخ کامل سے متعلق جن شرائط کو بیان کیا ہے، ان کی معقولیت ایک
مُسلّمہ حقیقت ہے، یہ تمام مذکورہ وہ شرائط ہیں، جو ایک دینی رہنما میں
ہونی چاہئے تاکہ ان کی تابعداری میں لوگ وجاھت پائیں اور عار محسوس نہ
کریں۔
کرامات اور شاہ ولی اللہ کا نظریہ:
مرشد کے لیے ضروری نہیں کہ کرامات وغیرہ کا ظہور ہو یا وہ تمدن و معاشرت یا
کسب معاش کو چھوڑ بیٹھے اور اسے توکل کا نام دے ۔ اگر ان کا حصول
ہو جائے تو انہیں نعمت ِ خداوندی سمجھا جائے۔ ورنہ یہ امور ولایت کے جز کے
طور پر لازمی نہیں۔ البتہ وہ یہ لازمی قرار دیتی ہیں کہ شیخ کا دربار ربانی
سے خصوصی تعلق ہو ۔آپ انتخاب شیخ کو اہم مسئلہ قرار دیتی ہیں۔ اسی طرح کسی
شیخ کے مرید ین کی کثرت بھی ان کے ہاں کاملیت کی دلیل نہیں۔
وہ نصیحت کے طور پر لکھتے ہیں خوب جانچ پرکھ سے کام لیا جائے ، کثرت
معتقدین یا خوارق کو بنیاد بنا کر کسی کو شیخ کامل سمجھنا بڑی غلطی ہے ۔
شاہ صاحب کا مجوزہ نصابِ سلوک:
یہ سوال بذات خود پیچیدہ ہے، اس لئے کہ تمام سالکین کی ذہنی سطح برابر نہیں
ہوتی، انسانی شخصیات کی تشکیل میں ملکوتی و بہیمی ملکات کے تنوع اور اس میں
تجاذب و اصطلاح کی بنیاد پر افردِ انسانی کا متفاوت ہونا ایک مسلّمہ حقیقت
ہے، لٰہذا سالک کا خود اپنی استعداد سے متعلق معلوم کرنا یا مرشد کا اس
حوالے سے رہنمائی کرنا اہم ترین عمل ہے یہ معلوم ہوکہ سالک کی روحانی
استعداد کیا ہے؟ تاکہ بعد میں ان کے حسبِ حال بیماری کا علاج تجویز ہو، کلی
طور پر سب انسانوں کے لئے ایک ہی نصابِ اصلاح مقرر کرنا خلاف اُصول ہے،
تاہم نوعِ انسانی کے طبائع میں کچھ عمومی خصوصیات قدرے مشترک کے طور پر
موجود ہوتے ہیں، اس لئے شاہ صاحب کی کتب سے عمومی درجے میں ان کے متعین
کردہ "نصاب سلوک" کا کھوج لگایا جاسکتا ہے، یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب
عمومی انداز میں درج ذیل امور پر زور دیتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
"مرشد سالک کے عقیدے کی درستگی پر توجہ دیں، عقیدے کی درستگی میں کسی مصلحت
کو قریب نہ آنے دیں، وہ ذات واجب الوجود کو اس طرح مانے کہ اس کے علاوہ
کوئی معبود نہیں اور حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع اور اس طرح کی صفات سے
اللہ جل شانہ کو متصف مانے، ان صفات کمال کو واجب الوجود کے حق میں اس طرح
مانے، جس طرح خود اللہ تعالٰی نے انہیں اپنے لئے اپنی کتاب میں ثابت کیا ہے
اور رسول اللہ کی صحیح حدیثوں نے اُس کی صداقت پر مہر ثبت کی ہے، نیز یہ
عقیدہ رکھے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی ہر قسم کے عیب و نقص اور عجز سے مبرا
ہے، وہ جسمیت کسی جگہ میں محدود، عرض ہونے، کسی خاص طرف رنگ اور خاص شکل سے
متصف ہونے سے منزہ ہے۔''
عقائد کی اصلاح اور گناہوں سے احتراز کے بعد شاہ صاحب جس چیز پر سب سے
زیادہ زور دیتے ہیں، وہ ارکان خمسہ کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی ہے، دراصل ارکانِ
خمسہ دین کی بنیادیں ہیں، اس کے بعد مرید کے معاملات کی درستگی کی باری آتی
ہے، مرید کو چاہئے کہ زندگی کی معاشی ضروریات بیع و شراء، اکل و شراب، بات
چیت، لوگوں سے ملنے جلنے، عائلی و خانگی معاملات، یعنی نکاح، زیردست افراد
کے حقوق، تجارت و اموال کا صرف، الغرض تمام معاملات میں شرعی حدود کی رعایت
رکھے، سالک ان بالا حقوق کی رعایت کے ساتھ اُن اذکار اور وظائف کا اہتمام
بھی کرے، جو شیخ تجویز کریں، شاہ صاحب نے اس حوالہ سے اذکار و افکار کا
مکمل نظامِ عمل دیا ہے۔
نتائج بحث:
• تصوف احسان و تزکیہ کی شکل میں عہد نبوی میں موجود تھا، تصوف قرآن و سنت
سے ماخوذ علم ہے۔
• تصوف کا ایک مقصد لطائف و خودی کو بیدار کرنا بھی ہے، یہ اعمال کی روح
ہے۔
• مسلمان جس طرح ظاہری شریعت کے مکلف ہیں، اسی طرح باطنی تجلیہ و تصفیہ
موجب اعتناء امر رہا ہے، آنحضرت کے عہد میں یہ مقصد آپ کی
• صحبت عالی سے حاصل ہو جاتا تھا، بعد میں یہ علم علمِ کلام و اصول فقہ کی
طرح منضبط ہوا اور باقاعدہ خطوط پر استوار ہوا۔
• علمِ تصوف ایک وجدانی مسئلہ ہے، اس لئے اہل فن کا اس حوالہ سے مختلف فیہ
ہونا ایک فطری بات ہے۔
• شاہ ولی اللہ کے ہاں چار ادوارِ تصوف، دورِ ایمان، دورِ نسبت، دورِ جذب
اور دورِ فلسفہ وجود ایسے تاریخی موڑ ہیں، جہاں تصوف کو واضح جہتیں ملی
ہیں۔
• شاہ صاحب مرشد کا عالمِ قرآن و سنت ہونا، عادل و متقی ہونا، دنیا سے بے
نیازی اور آخرت سے رغبت رکھنا، امر باالمعروف ونہی عنِ المنکر کے وظیفہ کو
بجالانا اور معاصر عارفین کا صحبت یافتہ ہونا لازمی قرار دیتے ہیں۔
• شاہ صاحب کا مجوزہ نصابِ سلوک شعائر و ارکان اسلام کے احیاء پر مشتمل ہے،
وہ ام العبادت (نماز، زکواۃ ، روزہ اور حج) کو بمنزل آلات قرار دے کر ان کی
بجا آوری اندرونی نفسی کیفیات پر منتج مانتے ہیں، لہٰذا ان کے ہاں شریعت
طریقت میں ظاہر و باطن کا فرق ہے، دونوں دین میں مطلوب ہیں۔
• شریعت و طریقت دونوں انسان کےفطری تقاضے ہیں، شاہ ولی اللہ تصوف کا مقصد
چار ام الاخلاق یعنی طہارت، اخبات، سماحت اور عدالت کے احیاء اور ان کے
اضداد سے گلو خلاصی قراردیتے ہیں، یہ کامیاب دنیاوی زندگی اطمینان تر
اُخروی زندگی کی کامیابی پر منتج کرتی ہے اور پُر اسرار انسان کی عظمت کی
توجیہ ہے۔
|