آیا صوفیہ مسجد کی بازیابی کے مضمرات

کورونا وبا کے بعد آیا صوفیہ کی مسجد عالمی برادری کو اپنی جانب متوجہ کرنے والی پہلی بڑی بین لاقوامی خبر ہے ۔ اس دوران امریکہ میں نسلی تصادم اور ہند چین سرحد پر کشیدگی یا روسی استصواب اور ہانگ کانگ کا انتخاب وغیرہ کی خبر بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنی مگر ان کے اثرات محدود تھے۔ آیا صوفیہ مسجد کی بازیابی کا فیصلہ کسی ہجوم نے نہیں کیا بلکہ عدالت نے کیا ہے لیکن اگر ہندوستان کی سپریم کورٹ میں بابری مسجد کا فیصلہ نہ ہوا ہوتا تو لوگ بہ آسانی اس سے مطمئن ہوجاتے۔ ایک ایسے ماحول میں جبکہ عوام کا عدلیہ کے اوپر سے اعتماد کم ہو گیا ہے دیگر ممالک کی عدالت کو بھی لوگ اپنے ملک پر قیاس کرسکتے ہیں ۔اس معاملے کا ایک قانونی اور دوسرا اخلاقی پہلو ہے۔ اس کے علاوہ ایک سیاسی نقطۂ نظر بھی ہے لیکن فی الحال جذباتی پہلو غالب ہے۔

انسان اگر کسی معاملے کی تہہ میں جانے کے لیے دماغ کے بجائے دل کا راستہ اختیار کرے تو اس کے لیے معروضیت پر قائم رہنا ا مشکل ہوجاتا ہے۔ عقل پر انحصار کرکےحقیقت تک پہنچنے بعد فیصلہ کرنے کے لیے دل کا استعمال ٹھیک ہے لیکن معروضی انداز میں غور وفکر سے بے نیاز ہوکر کسی رائے پہنچنے کی کوشش میں جو مشکلات حائل ہوتی ہیں ان سے دونوں مخالف فریق فی الحال نبرد آزما ہیں۔ اس معاملے میں جذباتیت کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس مصطفیٰ کمال اتاترک نے اسلام پسندوں اور عثمانیوں پر بڑے ستم ڈھائے اور اسی نے مسجد کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا حکم دیا ۔ اس لیے لا محالہ اس کا یہ فیصلہ بھی ازخود مظالم کی فہرست میں شامل ہوگیا اور موجودہ فیصلے کے ہر مخالف کو مصطفیٰ کمال اتا ترک کا حامی سمجھ لیا گیا حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے۔

اس فیصلے کے حق میں ٹھوس دلائل دینے کے بعد اپنے مخالفین کی نیت پر شک کرنا یا اس کو کمال اتاترک کے مظالم یاد دلا کر عار دلانا اپنے آپ کی جعلی تسکین کا سامان تو بن سکتا ہے مگر مخاطب کو مطمئن نہیں کرسکتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصطفیٰ کمال اتاترک یا اس کے وارثین نے جو عثمانیوں اور ان کے ہمدرد وزیر اعظم عدنان مندریس کے ساتھ جو سلوک کیا وہ قابلِ مذمت ہے لیکن ان کو بیان کرکے اس فیصلے سے اضطراب محسوس کرنے والے لوگوں کو ان مظالم کا حامی قرار دے دینا اور برا بھلا کہنا مناسب نہیں ہے ۔ یہ رویہ ان کی بے چینی میں اضافہ کرے گا اور اسلام بیزاری یا مسلمان دشمنی کوبڑھائے گا ۔ اس طرح کا معاملہ مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے شکوک و شبہات کو رفع کرنے میں اسلام پسندوں کی ناکامی یا ترش روی قصور وار ہے۔

ترکی عدالت نے فیصلہ اس بنیاد پر کیا کہ آیا صوفیہ کی عباتگاہ کا سرکاری اندراج مسجد کی حیثیت سے ہے ۔ سلطان محمدفاتح نے استبول فتح کرنے کے بعد اس عمارت کو مسیحیوں سے خرید کرمسجد کے لیے وقف کردیا تھا ۔وقف سے قبل یہ ان کی ذاتی ملکیت تھی کیونکہ انہوں نے سرکاری خزانے کے بجائے اپنی جیب سے اس کی قیمت ادا کی تھی ۔ اس کے شواہد عدالت میں پیش کیے گئے۔ یہ کلیسا اس وقت چونکہ بازنطینی حکمرانوں کے شاہی کمپلکس میںتھی اور وہ لوگ اسے خالی کرکے اٹلی لوٹ رہے تھے۔ ایسے میں ممکن ہے انہوں نے سوچا ہوگا کہ اب یہ عمارت ان کے کسی کام کی نہیں ہے۔ سلطان کو مسجد کے لیے استعمال کی خاطر خریدنا چاہتا ہے کیوں نہ اس کو فروخت کردیا جائے تا کہ کسی اور کے کام آئے اورانہیں اس کی قیمت مل جائے ۔ یہاں تک سب درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ دستاویزات کہاں ہیں ؟ اور کس زبان میں ہیں ؟ ترکی کے موجودہ حکمرانوں کو مسیحی دنیا کے ردعمل کا اندازہ کرکےیہ دستاویزات دنیا کی بڑی زبانوں میں منتقل کرکے انٹر نیٹکے ذریعہ بڑے پیمانے پر مہیا کرنا چاہیے تھا تاکہ رسائی آسان ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

آج کل لوگ غلط باتوں سے نیٹ کا پیٹ بھر دیتے ہیں لیکن حکومت ِ ترکی کا صحیح بات کو عام کرنے کی ضرورت کومحسوس نہ کرنا اس کی کوتاہی ہے ۔ اس اتمام حجت کے باوجود اگر کوئی نہیں مانتا تو وہ اس کی ہٹ دھرمی کہلاتا ۔ اس سے کم ازکم سمجھانے والوں کوتو آسانی ہوتی ۔ ان کو غیر متعلق تاریخی واقعات کا سہارا لینے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اب ترکی حکومت اس کی تلافی کرے لیکن اس درمیان جو نقصان ہوچکا اس کی بھرپائی ممکن نہیں ہے ۔ کوئی واقعہ جب رونما ہوتا ہے تو اس کے فوراً بعد لوگ گوگل جیسی سائیٹس پر چھان پھٹک شروع کردیتے ہیں۔ایک بار ان کے حصے میں مایوسی آئے تو وہ لوٹ کر دوبارہ نہیں آتے ۔ ایسے میں مخالفین خوش ہوجاتے ہیں اور حمایتی غمگین ہوتے ہیں ۔ یہ کام اگر وقت سے پہلے نہ کرنے کےبجائے بعد کیا جائے اس کے فوائد بہت محدود ہوتے ہیں ۔ کوئی بھولا بسرا تحقیق کا طالبعلم تو مستقبل میں اس سے مستفید ہوسکتا لیکن حالات حاضرہ پر لکھنے پڑھنے والے مبصر اور دانشور فائدہ نہیں اٹھا پاتےاوررائے عامہ کو ہموار نہیں ہوتی ۔

اس طرح کے موضوعات پر تاریخی واقعات کے علاوہ فقہی مباحث بھی پیش کیے جاتے ہیں مثلاً کسی ملک کو فتح کرنے کی صورت میںمفتوحین سے کیا سلوک یا معاہدے کے بعد ان کی عبادتگاہوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے وغیرہ ۔ اس طرح ایک راسخ العقیدہ مسلمان کو تو مطمئن ہوسکتا ہے لیکن مرعوب مسلمانوں کی سمجھ میں یہ سب نہیں آتا اور غیر مسلم کے اندر اس سے نفرت وعناد پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ اس کا علاج مسیحیوں کے اسپین یا بوسنیا کے مظالم میں تلاش کیا جاتا ہے ۔اب اگر ہم اس رویہ کو درست سمجھتے ہیں تو ہم اس کو نظیر بناکر پیش کرسکتے ہیں لیکن اسے غلط کہہ کر جواز بنانا عقلی اعتبار سے نہیں ہاں جذباتی طور پر تو درست ہوسکتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی زیادتی کا سہارا لینے والا اپنی زیادتی کا بلاواسطہ اعتراف کرلیتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے دونوں فریق یکساں طور پر ظالم قرار پاتے ہیں ۔

اس معاملے میں خانۂ کعبہ کی مثال دینا درست نہیں لگتا۔ مکہ مکرمہ کے سارے لوگ حرم کعبہ کی حضرت ابراہیم ؑ سے نسبت پر فخر کرتے تھے ۔ ابوالانبیاء کی سیرت کا سب سے منفرد پہلو بت شکنی ہے ۔ خانۂ کعبہ میں وقتاً فوقتاً بتوں کو لاکر نصب کرنے کی تاریخ زبان زدِ عام تھی۔ اس لیے وہ تو ایک مسجد کے بت خانہ بنادیئے جانے کے بعد بتوں سے پاک کرنے کا مقدس عمل تھا ۔ آیا صوفیہ کے بارے میں یہ بات کہیں نہیں ملتی کہ وہاں کوئی مسجد تھی بلکہ یہی پتہ چلتا ہے کہ وہاں ایک چھوٹا کلیسا تھا جس کو آگ لگ گئی تو بڑا کلیسا تعمیر کیا گیا۔ اس کے حوالے سے جو غلط عقائد مشہور تھے کہ اس پر کوئی حملہ نہیں کرسکے گا اور ایک فرشتہ آسمان سے آکر کسی غریب کو بادشاہ بنا دے گا سلطان فاتح کی فتح نے غلط ثابت کردئیے تھے۔ اس لیے ان عقائد کے ابطال کے لیے اسے مسجد بنانا ضروری نہیں تھا۔ شکست کے بعد ہر سلطنت کی عظمت و سطوت کا ازخود خاتمہ ہوجاتا اس لیے عبادتگاہ پر قبضے کا جواز نہیں بنتا لیکن اس کے مالکین کا قیمتاً دست بردار ہوجانا عقلی دلیل ہے اس لیے اسی پر اکتفاء کرکے شواہد پیش کرنے چاہئیں ۔ اس کے لیے دستاویزات کے تراجم کی فراہمی پر محنت ہونی چاہیے۔

یہ تو اس تنازع کا قانونی پہلو ہے لیکن اس کے اخلاقی پہلو کی رہنمائی ہمیں سلطان محمد فاتح کے بجائے حضرت عمر ؓ کے یہاں ملتی ہے ۔ مسجد عمرکی تاریخ وکی پیڈیا میں اس طرح نقل کی گئی ہے: ’’ 637ء میں مسلم افواج کییروشلم کی فتح کے وقت سوفرونیئس نے شرط رکھی کہ شہر کو صرف مسلمانوں کے خلیفہ عمر بن خطاب کے حوالے کیا جائے گا۔ چنانچہ خلیفہ وقت نے یروشلم کا سفر کیا۔ حضرت عمر ؓنے سوفرونیئس کے ساتھ شہر کا دورہ کیا۔ کلیسائے مقبرہ مقدس کے دورہ کے دوران نماز کا وقت آ گیا اور سوفرونیئس نے حضرت عمر ؓ کو کلیسا میں نماز پڑھنے کی دعوت دی لیکن حضرت عمرؓ نے کلیسا میں نماز پڑھنے کی بجائے باہر آ کر نماز پڑھی اور جو وجہ بیان فرمائی اس میں اخلاقی پہلو مضمر ہے ۔
 
خلیفۂ ثانی حضرت عمر ؓ نے فرمایا ’’تاکہ مستقبل میں مسلمان اسے عذر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کلیسا کو مسجد کے لیے استعمال نہ کریں ۔‘‘وکی پیڈیا میں لکھا ہے کہ خلیفہ کی دانشمندی اور دوراندیشی کو دیکھتے ہوئے کلیسا کی چابیاں حضرت عمرؓ کو پیش کی گئیں۔ اس پیشکش کو قبول کرنے کے بعد چابیاں مدینہسے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کو دے دی گئیں اور انہیں کلیسا کو کھولنے اور بند کرنے کا حکم دیاگیا، آج تک بھی کلیسا کی چابیاں اسی مسلمان خاندان کے پاس ہیں۔ یہ واقعہ ممالک کے بجائے دلوں کو فتح کرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے اور مستقبل کے اندیشوں سے ہوشیار رہنے کر پیش بندی کا درس دیتا ہے ۔ وکی پیڈیا مزید لکھتا ہے :1193ء میں اس واقعہ کییاد میں صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الافضل بن صلاح الدین نے ایک مسجد تعمیر کروائی جس کا نام مسجد عمر ہے۔ بعد ازاں عثمانی سلطان عبد المجید اول نے اپنے دور میں اس کی تزئین و آرائش بھی کی۔

ابوظبی میں شارع جوازات کے قریب دو مساجد ہیں۔ ایک اہلسنت کی اور دوسری اہل تشیع کی۔ اہلسنت کی مسجد بہت بڑی ہے ۔ اس کی بابت ایک دوست نے بتایا کہ یہ مسجد پہلے بہت چھوٹی تھی اور اس کے سامنے والی اہل تشیع کی مسجد اس سے بھی چھوٹی تھی۔ اہل تشیع نے جب اپنی مسجد کی توسیع کاکام شروع کیا تو اہل سنت نے اعتراض کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قدر مختصر آبادی کے لیے ایسی بڑی مسجد کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے انہیں منع کیا جائے۔ حکومت نے اس تجویز کو مسترد کردیا کیونکہ اگر کوئی بڑی مسجد بنانا چاہتے ہو تو کسی اور اعتراض کا حق نہیں ہے۔ اس کے جواب میں بغل والی سنی مسجد کی بھی توسیع عمل میں آئی اور وہ اس سے بڑی بنائی گئی ۔ اس طرح کوئی تنازع ٹل گیا لیکن اگر مسجد کی توسیع کو روک دیا جاتا تو دونوں فرقوں کے درمیان ایک ایسی کھائی حائل ہو جاتی جس کا پاٹا جانا مشکل ہوتا ۔

سلطان محمد فاتح بھی اگر کلیسا کوعارضی طور پر استعمال کرنے کے بعد قریب میں شاندار مسجد تعمیر کردیتے اور نمازوں کا سلسلہ نئی مسجد میں منتقل ہوجاتا تو شاید آج یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ۔ سلطان محمد فاتح کے خلاف وہ ردعمل بھی نہیں ہوتا جو مصطفیٰ کمال اتاترک کے لیے مخصوص ہے، لیکن حضرت عمرؓ کی فراست ہر کسی کو میسر نہیں آتی۔ ہندوستان میں عیسائیوں کی تعداد بہت کم ہے اور ہندو احیاء پرست اس کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرکے کچھ دنوں بعد خاموش ہوجائیں گے لیکن یوروپ اور امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اس سے مسائل ہوں گے ۔ ان لوگوں نے بڑی محنت سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائے جانے والے زہر یلے اثرات کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ دعوتی ذمہ داری کو ادا کرنے کی خاطر عیسائیوں کے ساتھ فاصلہ کم سے کم کرنے کے خواہاں ہیں ۔ ایسے میں وہ جن مشکلات سے دوچار ہوں گے اور ان پر کیسے قابو پائیں گے یہ تو وہی جانتے ہیں ۔
 
اس تنازع نے یہ سبق ضرور دیا ہے کہ بین الاقوامی اہمیت کے حامل فیصلے کرنے سے قبل اس کے عالمی اثرات کا بھرپور جائزہ لینا اور اس کے منفی اثرات کی تدارک کا قبل ازوقت سامان کرنا عصرِ حاضر کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی ترقی نے دنیا ایک عالمی گاوں بنا دیا ہے۔ اس میں لوگوں کا ایک دوسرے سے متاثر نہ ہونا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ آیا صوفیہ مسجد کی بازیابی سے صدر رجب طیب اردوان نے یہ پیغام تو دے دیا ہے کہ ترکی میں اب مصطفیٰ کمال اتاترک کی دین بیزاری مغلوب ہوچکی ہے ۔مملکت ترکی اب ایک دین پسند ملک ہے لیکن اس پیغام رسانی کے لیے کسی اور علامت کا استعمال بھی ہوسکتا تھا اور اگر یہی ضروری تھا تو اس کی مضمرات پر غوروخوض کرکے اس کی ضروری تیاری لازمی تھی تاکہ اس کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے والوں کو موقع نہیں ملتا اور اس کی تدارک کرنے والوں کے پاس ٹھوس شواہد اورضروری معلوماتموجود ہوتی جس سے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں مدد ملتی بلکہ پیشگی سعی کی جاتی۔ اگر ایسا ہوتا آیا صوفیا مسجد کی بازیابی مزید خوشی و مسرت کا باعث بنتی۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1231969 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.