‎کیا صرف بیٹیوں ہی کے نصیب پُھوٹتے ہیں؟

ایک رسم سی بن گئی ہے کہ جب کسی لڑکی کی بات ہو تو اسے نصیب اچھے ہونے کی دعا دی جاتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کو اگلوں کے بیٹوں اور ان کے والدین پر اعتماد نہیں ہوتا ۔ کیونکہ بنیادی طور پر اس دعا کا تعلق لڑکی کے معاشی حالات اور صحت و سلامتی سے نہیں بلکہ براہ راست ، اس کی زندگی میں آنے والے نئے رشتوں اور ان کے رویوں پر شکوک و شبہات سے ہوتا ہے ۔ یہ دعا اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی بھی لڑکا اور اس کے گھر والے اس قابل نہیں ہوتے کہ ان کے بارے میں کسی خوش گمانی یا خوش فہمی کو اپنے ذہن میں جگہ دی جائے ۔ قسمت سے اچھے نکل گئے تو ٹھیک ورنہ وہی ہوتا ہے جس کا ڈر تھا ۔ اس میں تو واقعی کوئی شک ہی نہیں کہ بہت کم لڑکیاں اتنی خوش نصیب ہوتی ہیں کہ انہیں شادی کے بعد سسرال میں اور خود اپنے شوہر کے ساتھ مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور زندگی میں صرف سکھ ہی سکھ ہو ۔ ورنہ تو اکثریت کو ازدواجی زندگی کے کچھ ہی عرصے بعد تلخیوں باہمی چپقلشوں ایکدوسرے سے سنگین اختلافات اور شکایات کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے ۔ اسی وجہ سے لوگوں کی زبانوں پر یہ مقبول عام جملہ بھی بکثرت نظر آتا ہے کہ بیٹیوں سے نہیں ان کے نصیب سے ڈر لگتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف بیٹیوں ہی کے نصیب پھوٹتے ہیں؟ کیا اکثر ہی بیٹوں کا خانہ خراب نہیں ہوتا شادی کے بعد؟
بہت نیک سلجھے ہوئے سمجھدار اور بااخلاق لڑکوں کی شادی ایک ایسی لڑکی سے ہو جاتی ہے جسے اپنے میکے سے صرف زبان درازی کام چوری بد اخلاقی اور شوہر سمیت پوری سسرال کو کسی خاطر میں نا لانے کی تربیت ملی ہوتی ہے ۔ اکثر ہی لڑکیاں ایک نمبر کی پھوہڑ کام چور ہڈ حرام چٹوری اور ہر اپنے مطلب کی پوری ہوتی ہیں اور اگر جو سسرال بھی ٹکر ہی کی ملی ہے تو پھر خوب جوتیوں میں دال بٹتی ہے اور کبھی کبھی نتیجہ طلاق ہی کی صورت میں برامد ہوتا ہے ۔ اگر وہ الگ گھر میں بھی چلی جائیں تو شوہر کا جیون اجیرن کیے رکھتی ہیں انہیں نا رشتوں کا احترام اور نا ہی بچوں کی تربیت سے کوئی سروکار ۔ اور اکثر ہی ایسے حالات میں مرد ہی قربانی دے رہا ہوتا ہے گھر اور بچوں کو در بدر ہونے سے بچانے کے لیے وہ ایک ناکارہ عورت کی سب خامیوں قباحتوں کو خندہ پیشانی سے جھیلتے ہوئے عمر بِتا دیتا ہے ۔
اور کبھی کبھی بات لڑکی کی غیر ذمہ داری کام چوری بد سلیقگی اور معاملات میں غیر سنجیدگی تک ہی محدود نہیں ہوتی ۔ جس طرح کسی بھی نیک شریف اور باکردار لڑکی کی شادی کسی نفسیاتی مریض یا بدکردار شخص سے ہو جانا ایک بہت بڑا المیہ ہوتا ہے بالکل اسی طرح کسی نیک صالح اور صاحب کردار لڑکے کی شادی کسی کرپٹ چالو لڑکی سے ہو جانا بھی کم بڑا ظلم نہیں ہوتا ۔ اور پھر ایسی لڑکیاں جنہوں نے خود اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہو وہ بھلا شادی کے بعد اپنے شوہر اور سسرال کی ناموس کا کیا پاس رکھیں گی ۔ وہ شادی کے بعد بھی نہیں سدھرتیں اور جان بوجھ کر ایسا ماحول بنا دیتی ہیں جو پھر بالآخر طلاق پر ہی منتج ہوتا ہے اور سارا الزام و دشنام بھی شوہر ہی کے سر ۔ ایک شریف اور عزت دار لڑکے کو کس بات کی سزا ملتی ہے اس کا کیا قصور تھا کہ ایسی لڑکی اس کے حصے میں آئی؟ بات اگر نصیبوں سے ڈرنے کی ہو تو پھر بیٹے اس خوف سے ماوراء کیوں؟ ان کے لیے کیوں نہیں کہا جاتا کہ اللہ نصیب اچھے کرے ۔ وہ بھی دعا کے اتنے ہی مستحق ہیں جتنی کہ بیٹیاں ۔ رعنا تبسم پاشا)

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 230 Articles with 1856723 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.