معاشرے سے جرائم کے خاتمے قانون کی بالادستی خاص طور پر
امن کے قیام کے لئے پولیس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے ، وقت کے
تقاضوں کے مطابق اس ادارے کو مناسب آزادی حاصل نہیں ہو سکی جو کسی بھی
جمہوری اور فلاحی معاشرے کی پہچان سمجھی جاتی ہے،میرٹ کی بالادستی اور
تربیت کی مناسب سہولتیں نہ ہونے کے سبب وطن عزیز پاکستان میں 73سال سے
محکمہ پولیس اور عوام کے درمیان تعلقات کی خلیج کم نہ ہوسکی،عوام اور پولیس
کے درمیان ہم آہنگی تو دور کی بات رابطہ تک مشکل نظر آتا ہے ، سائنس اور
ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی پولیس عوام کیلئے خوف کی علامت ہے ، سابقہ
حکومتوں نے پولیس کے سسٹم میں بہت سی اصلاحات کیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ
رویوں میں تبدیلی صرف شہروں میں کسی حد تک ہی ممکن ہو سکی ، دیہاتوں ،
قصبات ، گاؤں اور چھوٹے شہروں میں پولیس کا خوف عام بندے کے دل سے نہ نکل
سکا ، غریب کو" اُوئے "اور مالدارکو" آپ "سے پکارا جانا محکمہ پولیس میں
عام سی بات ہے ،اس وقت تھانوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کافی حد تک
شروع ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود چور ، ڈاکوکی بجائے عام آدمی کے لئے پولیس
خوف کا نام کیوں ہے؟ اس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہوگا لیکن اگر پولیس کے
کام میں حقیقی طور پر سیاسی مداخلت بند ہو جائے ، اس محکمہ کے ملازمین کو
قانون کے مطابق تمام سہولتیں فراہم کر دی جائیں تو محکمہ پولیس عوام کی
دوستی اور حفاظت کا فرض ویسا ہی ادا کر سکتا ہے جو ترقی یافتہ ممالک کی
پولیس سر انجام دیتی ہے یا جسکے بارے پڑھا اور لکھا جاتا ہے ، گزشتہ روز
بہت سے سوالات ذہن میں لئے راقم الحروف (محمد مظہررشید چودھری )نے ایس پی
انوسٹی گیشن اوکاڑہ شمس الحق درانی نے سے خصوصی گفتگو کی ، آپ کو اﷲ تعالی
نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ،درجنوں سائلوں اور ماتحت پولیس افسران سے
بیک وقت گفتگو کرنے کا فن جانتے ہیں ، ہمارے ہاں عام طور پر یہ تصور کیا
جاتا ہے کہ ایک سخت گیر پولیس آفیسر ہی اپنے علاقہ سے جرائم کے خاتمہ میں
بہتر کردار ادا کرسکتا ہے شمس الحق درانی سماج دشمن عناصر اور محکمہ پولیس
کے اُن ملازمین کے لئے انتہائی سخت گیر ہیں جو اپنے عہدے کا غلط استعمال
کرتے ہیں ، لیکن مخلص ،عوام دوست ، خاص طور پر سائلین کی خدمت میں پیش پیش
ماتحت پولیس افسران اور جوانوں کی فلاح اور بہبود کے لئے ہمیشہ سرگرم رہتے
ہیں ، پولیس سٹاف کے بچوں کی تعلیم کے لئے فنڈز کی فراہمی ،سائلین کے مسائل
سنتے ہوئے آپ ایک ہمدرد دل انسان نظر آتے ہیں ، میری پہلی ملاقات ان سے
ہوئی تو اُنھیں ایک منفرد شخصیت کا مالک انسان پایا ،حساس انتظامی عہدے پر
فائز ایمانداری، جذبہ فرض شناسی اور معاشرتی مسائل کے حل کا جذبہ رکھنے
والی شخصیت ہیں ،آپ جیسے پولیس افسران یقینا عوام اور پولیس کے درمیان خلیج
کو کم کرنے میں اپنا کردار احسن انداز میں نبھا رہے ہیں آج کا کالم سانچ"
تفتیش "پر ایس پی انوسٹی گیشن شمس الحق درانی سے ہونے والی گفتگو پر مشتمل
ہے ،ایس پی انوسٹی گیشن شمس الحق درانی نے راقم الحروف کے سوال کہ موجودہ
وقت میں پولیس کی تفتیش کے طریقہ میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں پرانہوں نے کہا
کہ روایتی طریقہ تفتیش کے ساتھ جدید سائنسی طریقوں کے استعما ل سے جرائم
پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں بڑی مدد ملی ہے ، محکمہ پولیس میں
تفتیش کا شعبہ نہایت اہمیت کا حامل ہے،اچھے تفتیشی افسران تمام مقدمات کے
ہر پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوئے باریک بینی سے کیس کی تحقیقات کرتے ہیں قصور
وار کو سخت سزا دلانے کیلئے اپنی پوری توانائیاں بروئے کار لاتے ہیں ،
فورنزک سائنس لیبارٹری کی مدد سے انوسٹی گیشن کے عمل کو مزید بہتر کرنے میں
بڑی مدد ملی ہے ، کریمینل جسٹس سسٹم کا دارومدار پولیس کی معیاری انوسٹی
گیشن پرہے، دہشت گرد وں کے خلاف کی جانے والی کامیاب کارروائیوں میں پولیس
کا رول انتہائی اہمیت کا حامل رہاہے دنیا بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا
بھر پور استعمال ہو رہا ہے محکمہ پولیس میں دور حاضر کی جدید ترین
ٹیکنالوجی کو انوسٹی گیشن میں بروئے کار لانے اور جرائم کو کنٹرول کرنے
کیلئے تفتیشی افسران کے ریفریش کورسز انتہائی اہمیت کے حامل ہیں تفتیش کے
بغیرمحکمہ پولیس کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتاانصاف پر مبنی تفتیش سے ہی
منصفانہ معاشرے کا قیام ممکن ہوسکتاہے جس کے لئے ضلع بھر میں موجود تھانوں
کے تفتیشی افسران کو خصوصی ہدایات جاری کی ہیں ۔ ایس پی انوسٹی گیشن اوکاڑہ
شمس الحق درانی نے مزیدکہا کہ پولیس پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے
تفتیش کا عمل انتہائی شفاف رکھا جانا ضروری ہے تفتیش میں جدید ٹیکنالوجی کو
صحیح طریقہ سے بروئے کار لاکر ملزمان کی گرفتاری اور کیفر کردار سزا دلوائی
جاسکتی ہے ،کمیونٹی پولیسنگ کا کردار بڑھانا وقت کی ضرورت ہے،جس کے لئے ہم
بھر پور کوشش کر رہے ہیں ،مظلوم کی مدد اور ظالم کو اسکے انجام تک پہنچانے
کے لئے انوسٹی گیشن میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جا نا
چاہیے تاکہ معیاری تفتیش کی بنا پر عدالتوں سے ملزموں کو سزا مل سکے ، ظالم
کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنانے پر تفتیشی افسران پر بڑی ذمہ داری عائد
ہوتی ہے ، تفتیشی افسران اﷲ تعالی کی خوشنودی اور اپنے فرائض کی
بہترادائیگی کے لئے کسی طاقت ور کے اثر کو خاطر میں نہ لائیں شعبہ صحافت سے
وابستہ افراد اور پولیس ملکر معاشرے کے مجبور طبقات کوباثر افراد کی چیرہ
دستیوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ، شمس الحق درانی نے کہا کہ پولیس فورس کو
جدید خطوط پر استوارکرنے کیلئے موجودہ آئی جی پنجاب شعیب دستگیر، ریجنل
پولیس آفیسر ہمایوں بشیر تارڈ ،ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اوکاڑہ عمر سعید ملک کی
کاوشیں قابل تعریف ہیں ٭
|