والدین کے بڑھاپے میں جوان بیٹوں کی آزمائش

ایک بڑی مشہور و مقبول عام کہانی ہے جس کے مطابق ایک چھوٹا ننھا بچہ جب نیا نیا بولنا شروع ہوتا ہے اور ایک روز کسی پرندے کو دیکھ کر اپنی ماں یا باپ سے دریافت کرتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ تو وہ اس کے اسی ایک ہی سوال کے بار بار دوہرانے پر ہر بار بہت خوشی سے اس کا جواب بتاتے ہیں ۔ بچہ بیس بار پوچھتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ تو ماں یا باپ بیس بار اسے بتاتا ہے کہ وہ مینا ہے یا کوا ہے ۔ پھر بچہ بڑا ہو جاتا ہے ماں باپ بوڑھے ہو جاتے ہیں اب ان کو اپنی اس مہربانی کا بدلہ وصول کرنے کا خیال آتا ہے ۔ وہ بھی اپنی اولاد سے کوئی سوال کرتے ہیں مثلاً آج کیا دن ہے؟ بچہ جواب دیتا ہے کہ فلاں دن ہے ۔ مگر بار بار پوچھے جاتے ہیں آخرکار بچہ چڑ جاتا ہے اور جھنجھلا کے کہتا ہے آخر کتنی بار بتاؤں کہ آج فلاں دن ہے؟ اور یہی ان کا مقصد بھی ہوتا ہے لہٰذا ماں یا پھر باپ اٹھ کر جاتا ہے اور اپنی ڈائری نکال کر لاتا ہے اور اسے وہ صفحہ دکھاتا ہے جس پر پچیس برس پہلے کی روداد لکھی ہوتی ہے کہ کس طرح بچے نے بیس بار پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ اور بیس بار باپ نے جواب دیا کہ وہ کوا ہے ۔ پھر وہ بچہ جو اب جوان ہو چکا ہے اپنی ترش روئی پر سخت نادم و شرمسار و اشکبار ہوتا ہے ۔ اس کہانی پر تمثیلی خاکے بھی بنائے گئے ہیں یعنی وڈیوز وغیرہ ، کسی میں ماں کی ممتا دکھائی جاتی ہے تو کسی میں باپ کی بپتا ۔ پھر لوگ اگر کہانی کو تحریری شکل میں پڑھتے ہیں تو دل ہی دل میں ایسی ناہنجار اولاد پر تف بھیجتے ہیں اور اگر اسے بصری شکل میں دیکھتے ہیں تو اس نابکار کے ساتھ ساتھ خود بھی ٹسوے بہاتے ہیں ۔ واللہ عجب ماحول بن جاتا ہے غم و اندوہ کے دور دورے کا ۔
‎ایک بچے کا سیکھنا اس کی جبلت ہے اور سوال کرنا اس کی سرشت میں شامل ہے ۔ یہ ایک حادثاتی نہیں بلکہ باقاعدہ ایک پروگرام ہوتا ہے جو قدرت اس کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے اندر ڈال دیتی ہے اور وہ اسے ساتھ لے کر دنیا میں آتا ہے ۔ لہٰذا اگر بچہ ایک ہی بات بار بار پوچھ رہا ہے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے اور ماں باپ اگر ہر بار جواب دے رہے ہیں تو کوئی احسان نہیں کر رہے ۔ یہ ان کا فرض ہے پھر اپنے اس فرض کی ادائیگی کو ایک احسان متصور کرتے ہوئے وہ اپنے بڑھاپے میں آخر کیوں اس واقعے کی بنیاد پر اپنی اولاد سے اسی صبر کی توقع اور اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں؟ بچے نے جب بار بار سوال کیا تھا تو ماں باپ کو زچ کرنے کی نیت سے نہیں کیا تھا اسے اس بات کی سمجھ ہی نہیں تھی ۔ مگر آپ جو ایسا کر رہے ہیں تو جانتے بوجھتے اسے ستانے اور آزمانے کے لیے کر رہے ہیں آخر کیوں؟ آپ اس کی فرمانبرداری یا سعادتمندی کو اپنی نیت کے کھوٹ کی کسوٹی پر کیوں پرکھ رہے ہیں ماضی کے ایک واقعے کو معیار بنا کر اسے جانچ رہے ہیں جب وہ شعور ہی نہیں رکھتا تھا ۔ اپنی مہربانیوں اور احسانات کا احساس دلانے اور ان کا صلہ وصول کرنے کا یہ کون سا پیمانہ ہے کہ پچیس برس پہلے کے ایک بالکل فطری اور نارمل سے واقعے کو جواز بناتے ہوئے جوان اولاد کو جان بوجھ کر جھنجھلانے اور چڑ جانے پر مجبور کر دیا جائے جبکہ یہ بھی عین فطری رویہ ہے ۔ حالانکہ بعد میں کتنی ہی بار آپ نے اسے ڈانٹا ڈپٹا بھی ہو گا مارا پیٹا بھی ہو گا کسی ضد یا تکرار پر کسی خطا پر اس کی سختی سے خبر بھی لی ہو گی جانے انجانے اس کی طرح طرح سے دل شکنی بھی کی ہو گی اس پر اپنے ادہورے خوابوں اور ناکامیوں کا بوجھ لاد کر اپنی مرضی مسلط کر کے اس کی ذات اور خواہشات کی نفی بھی کی ہو گی ۔ وہ تو سب آپ بھول گئے یاد ہے تو صرف یہ کہ اس نے بیس بار ہمارا بھیجہ چاٹا تھا جبکہ وہ نا سمجھ تھا ۔ اور آپ پوری سمجھ بوجھ رکھتے ہوئے اسے تپا رہے ہیں تاکہ بعد میں اسے شرمندہ کر سکیں ۔ یہی صورتحال بیٹی کے بچپن میں بھی پیش آئی ہو گی کبھی اسے بھی آزمانے کا خیال آیا؟ یا صرف بیٹا ہی بڑا ہو کر سوتیلا ہو جاتا ہے؟ اسے آزمانے کے اور بھی بہت طریقے ہیں مگر بہت سے والدین ٹھیک ٹھاک قسم کے بلیک میلر ہوتے ہیں اور اولاد کے جذبات سے کھیلنے کے ماہر ہوتے ہیں ۔ سب تو نہیں پھر بھی اکثر ہی اولاد اپنے ماں باپ کے فرائض کا قرض سود سمیت واپس کرتی ہے ۔ وہ والدین کی فرمانبرداری میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ خدا رسول کے فرمان کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ دیسی اولادیں خاص طور پر پردیسی مشرقی اولادیں تو خدا سے بھی اتنا نہیں ڈرتیں جتنا وہ اپنے والدین سے ڈرتی ہیں اور ان کی جائز و ناجائز خوشنودی کے حصول کی خاطر اپنی دنیا و آخرت دونوں کو داؤ پر لگا دیتی ہیں ۔ رعنا تبسم پاشا)

 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 225 Articles with 1690011 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.