مدرسہ، چندہ اور لاک ڈاؤن کا فائدہ
(Sadique Raza Misbahi, India)
چندہ کسی بھی بحران سے اُبھرنے کے لیے
کیاجاتاہےاس لیے چندے کی حیثیت استثنائی،وقتی اورجزوی ہوتی ہے مگربدقسمتی
سے اسے دائمی سمجھ لیاگیااوریوں چندہ ،ایک کاروبارکی شکل
اختیارکرگیااورمعاشرہ بے شمارمسائل کی زدمیں آگیا
مدارسِ اسلامیہ دین کے قلعے ہیںاور ان کے ذمے داران، قلعے دار۔اس
لیےاگرقلعے کوکسی بھی طرح کانقصان پہنچتا ہے تو سب سے زیادہ فکر مندی قلعے
دارکوہوتی ہے اوراس نقصان کاذمے داربھی وہی ٹھہرایاجاتاہےکیوںکہ اگراس
نےوقت سے پہلے ہی احتیاطی اقدامات کرلیے ہوتےتوشایدیہ حادثہ ہی رونمانہ
ہوتا۔فطری بات ہےکہ کوئی بھی امیر،صدر،ناظم،سربراہ ،مہتمم(یااسے کوئی
اوربھی نام دے لیں)جب ادارے کی فتوحات کواپنی فتوحات سمجھتاہے اوردوسرے لوگ
بھی یہی سمجھتے ہیںاوران فتوحات وکمالات کو موصوف کی کلاہِ افتخارمیں سجاتے
ہیںتواخلاقی اوراصولی طورپرادارے کی شکستگی ،بدحالی،بحران،ناکامی اورہرطرح
کے مسائل کابھی اسی کو ذمے دار ٹھہرانا چاہیے اور اسے خودبھی یہ ذمے داری
قبول کرنی چاہیے ۔یہ نہیں ہوسکتاکہ جب ہوا موافق ہو تو سارا کریڈ یٹ اپنے
نام کرلیںاورجب ہوامخالف ہوتواسے عوام کے سرتھوپ دیں۔یہ اصول اوراخلاق
دونوں کے خلاف ہے اورامانت ودیانت کے بھی۔کامیابی یاناکامی
دونوںصورتوںکاذمے دار وہی ہےاسی لیے بازپرس اسی سے ہوگی۔ذمے داری، سربراہی
، امارت،صدارت اور نظامت کامطلب ہی یہی ہےکہ کسی بھی ادارے کواچھی طرح
چلانا،اس کی مشکلات حل کرنا،ہرطرح کے مسائل کامقابلہ کرنااورممکنہ خطرات کے
پیش نظرمستقبل کے لیے پلاننگ کرنا تاکہ کسی بھی ہنگامی دوراوربحرانی کیفیت
میںادارے کی بنیادیں صحیح وسالم کھڑی رہیںاورمسائل اس سے ٹکراکرواپس چلے
جائیں۔یہ اصول سامنے رکھیے اورلاک ڈائون کی وجہ سے مدارس پرآئے معاشی
بحران کی وجوہات اور ذمے داران کی شکایات کاجائزہ لیجیےتوآپ یہ سوچنے
پرمجبورہوجائیں گےکہ مہتمم ،صدر،امیر،سربراہ ،ناظم صاحب ادارے / کمپنی
کوچلانے کی اہلیت رکھتے بھی ہیں یانہیں۔آخران حضرات نےاپنی ’’اہلیت‘‘کی
ڈگری کہاں سے حاصل کی اورمدارس اس لاک ڈائون کے ہنگامی دورسے ابھرنے میں
ناکام کیوں ثابت ہوئے،آئیے اس پرمل کرسوچتے ہیںاورکسی نتیجے تک پہنچنے کی
کوشش کرتے ہیں۔
ہندوستان میں مدارس کی تاریخ کو ہم دو حصوں میںتقسیم کر سکتے ہیں ۔آزادی
سے پہلے اورآزادی کے بعد۔تقسیم ہند سے قبل یعنی مسلم حکمرانوں کے دور میں
مدارس ، خانقاہیں اوراہل علم کی ضرورتیں حکومت پوری کرتی تھی لیکن جب
انگریزملک پرقابض ہوگئے تویہاں کی ریاستوں اورجاگیرداروں نے یہ ذمے داری
اٹھالی۔بہت سے مقامات پر ریاستو ں نے اپنے علاقے کے مدارس کوگودلے لیا مگر
۱۹۴۷میں تاریخ نے اتنی زورسے پلٹاکھایاکہ مسلمانوں کوبے شمارمحاذوںپرشکست
خوردگی کاسامناکرناپڑا۔ ریاستوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اورزمین داروں اور
جاگیر داروں کے بخیے اُدھڑ گئےجس کالازمی نتیجہ یہ ہواکہ مدارس کے لیے عوام
کے چندوںاوراہل ثروت کی خصوصی عنایتوں کی طرف دیکھنا مجبوری بن گیا
۔یوںمدارس خود بخود عوامی چندے کی دلدل میں دھنستے چلے گئے اورپھر ایسے
پھنسے کہ ُابھرنہ سکے۔ ہندوستان کے شرق سے غرب تک ہر چھوٹے بڑے مدرسے نے
خودکوعوام کے چندے پر منحصر کر لیا اور اس بہتی گنگامیں بہت سے ’’تقدس مآب
کاروباری‘‘حضرات بھی کود پڑےجس نے اس چندے کودھندے اورکاروبارکی شکل دے
دی۔ہمارے دورتک آتے آتے صورت حال یوں ہوگئی کہ جو جتنا زیادہ چندہ لائے
گااسی کے مطابق اس کاکمیشن بینک کھاتے کاحجم بڑھاتاچلاجائے گا۔کمیشن کا یہ
زور اتنا بڑھا کہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ فیصد تک جاپہنچابلکہ کہیں کہیں توستر
ستر فیصد تک ۔اس کا بھیانک انجام تو ایک دن ہونا ہی تھاچنانچہ ایک دن
کوروناآپہنچااورکوروناکے لاک ڈائون نے سب کی بنیادیں ہلاکررکھ دیں۔ لاک
ڈائون نے مدارس کے اربابِ حل وعقدکویہ اچھی طرح باورکرادیاکہ مدارس کی
معیشت دراصل کچی ڈور سے بندھی تھی۔ جب یہ ڈورٹوٹی تو یہ معیشت اپنی بنیادوں
سمیت نیچے آرہی ۔مدارس کا اربوںروپے کا نقصان ہوااوراس نے چھوٹے چھوٹےبلکہ
متوسط درجے کے مدارس کی بھی کمرتوڑکررکھ دی ۔
حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے بڑے حضرات کبھی اس خیال کوعملی جامہ نہ
پہناسکے کہ مدارس کو عوامی چندوں پر منحصر کرنے کے بجائے خود کفیل
بناناچاہیےمگر بھلاہو کورونا کا کہ اس کے ایک جھٹکے نے انہیں یہ راہ سجھادی
۔راہ توسُجھادی ہے اب اس پرچلناان کاکام ہے ۔سوچنایہ ہے کہ اس راہ پران کی
چلت پھرت ہوگی بھی یانہیں۔ملک میں بہت شور برپا ہے کہ کورونانے مدارس کے
اعصاب پربری طرح وارکردیاہے لیکن کیاواقعی ایساہے یایہ کوئی اشارۂ غیبی ہے
اورہم اسے سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ہمیں سمجھناچاہیے کہ مدارس کے لیے یہ ایک
عبوری دور ہے،یہ دوربھی گزرجائے گا البتہ اگراس پرغورکریں تواندازہ ہوگاکہ
اللہ نے اس لاک ڈائون کے ذریعے مسلمانوں خاص طورپراہل مدارس کواپنی مشکلات
پرقابوپانے کاایک بہترین دائمی حل کاپتہ بتادیاہے اور مدارس کے غیرعملی
طریقہ کارسے عملی طریقہ کارکی طرف ہماری رہ نمائی کی ہے ۔اللہ کے ہرکام میں
حکمت ہوتی ہے بس دیکھنے والی آنکھ ، سوچنے والادماغ اورسننے والاکان
ہوناچاہیے ۔ہم اسے اگرخدائی پیغام ،تنبیہ یااشارہ سمجھ لیں تویہ مدارس کے
ہی حق میں ہے ۔لاک ڈائون سے وقتی طورپرتوایسالگتاہے کہ مدارس کوواقعی خسارہ
برداشت کرناپڑامگرمیں اسے قطعی بھی نقصان نہیں سمجھتاکیوںکہ یہ سراسرخیرکے
پہلولیے ہمارے پاس آیاہےاور اس نے ہمیںایک ایسی راہ دکھادی جو واقعی مدارس
کی راہ ہے اورمدارس کواسی پرچلناچاہیے ۔ لاک ڈاون نےہمیں بھولاہواسبق
یاددلایاکہ مدارس کو خود کفیل بناناہی ان کااصل حق ہےاورعوامی چندے پران کا
انحصار مدارس کی توہین ہے ۔ ہمیںسوچناچاہیے کہ ہم انہیں محض عوامی
چندوںپرلٹکاکراپنے دین کی توہین تونہیں کررہے۔؟ مدارس کے جس نقصان پرہنگامہ
برپاہے ۔ہم اسے اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھ کر اپنے ردعمل کااظہارکررہے
ہیں۔ہم اپنے اندرکی آنکھ استعمال نہیں کررہےاورکریں بھی کیسے ۔ ہم ٹھہرے
ظاہربیں لوگ ۔ہماری بصیرت کی آنکھ سے اللہ نے روشنی چھین لی ہےاس لیے ہمیں
پردے کے پیچھے کے حقائق نظرنہیں آتے۔ہم بس سامنے کی چیزوں پر چیخ و پکار
کر کے مطمئن بیٹھ جاتے ہیں۔واقعی ہم بڑی عجب قوم ہیں۔اس طرح کے ہنگامی
حالات میں ہم سب کی ایسی مت ماری جاتی ہے کہ منظردیدنی ہوتاہے۔
مدارس کوخودکفیل بنانے کاایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ چندے کی رقوم کاجو
نصف حصہ کمیشن کی شکل میں سفرا کے مابین تقسیم کیاجاتاہے ،وہ مسئلہ ہی جڑسے
ختم ہوجائے گا ۔ یہ خود مختاری اور خود کفیلی مختلف طریقوں سے ہوسکتی
ہے۔ارباب دانش اس پرغورکرسکتے ہیںمثلاً اس کی ایک صورت یہ ہے کہ مدارس کے
اپنے باغات ہوں ،کھیت ہوں ،مارکیٹس ہوں ، شاپنگ مالس ہوں یااس طرح کی دیگر
چیزیںہوںجن سے سالانہ یاماہانہ مستقل آمدنی ہوتی رہے۔اب چوں کہ مسلمانوں
کے مجموعی حالات پہلےسے بہت بہترہیںاس لیے مستطیع طلبہ سے فیس وصول کی
جاسکتی ہے یاطلبہ کی حسب استطاعت فیس کاکچھ فیصدلیاجاسکتاہے۔مدارس
کواسکولوںکی طرح فیس اورڈونیشن پرچلایاجاسکتاہے۔مستقل آمدنی کے لیے سرمایہ
داروںکوتیارکیاجاسکتاہے۔وہ خوداپنے طورپریامشترکہ طور پر املاک خریدکرمدارس
کوعطیہ کرسکتے ہیں۔اس کے ذریعے مدارس اپنے پیروں پرکھڑے ہو جائیں گےاورچندے
کےآزارسے نجات حاصل کرلیںگے ۔ ظاہر ہے یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اگر عزم
پختہ ہو تو مشکلات کی صلابتیں ریزہ ریزہ ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے ۔
لاک ڈائون کاایک اور فائدہ یہ ہوا کہ جو مدارس کسی کام کے نہیں یا جو محض
کاغذوں اور رسیدوں پر چلتے ہیں ان کا کاروبار بند ہو گیااورسچی بات یہ ہے
کہ اچھاہی ہوا۔ غیر ضروری اورکاغذی مدارس کام کرنے والے مدارس کو بہت سخت
نقصان پہنچاتے ہیں۔لوگ رسیدیں اوررودادیں چھپوا کر ہر سال کروڑہاکروڑکاچندہ
کرتے ہیںاوریوں وہ اصل حق دار مدارس کاحق مارتے ہیں۔میرے اس خیال سے آپ
متفق ہوں گے یانہیں مجھے نہیں معلوم، البتہ میںمدارس کی اس بھیڑمیں نصف
تعدادکوغیرضروری سمجھتاہوںکہ اگر یہ نہ ہوتے تو بہترہوتا ۔ان کی موجودگی
معاشرے سے زیادہ ان کے ذمے داروںکوفائدہ پہنچارہی ہےاورقوم کاایک بہت
بڑاسرمایہ ضائع کررہی ہے۔ نیزیہ اصل حقدارمدارس کاچندہ بھی غصب کررہی
ہے۔ہمارا آپ کا عام مشاہدہ ہے کہ کسی مدرسے کے کسی استاذ کا مہتمم یا
پرنسپل سے جھگڑا ہوا تو جناب نے اپنا الگ مدرسہ قائم کرلیا اور اپنے حلقے
کی عوام کے چندے کا رخ اپنے نوزائیدہ مدرسے کی طرف کرالیا ۔یہ بھی ہوتاہے
کہ جناب نے اخلاص کے جذبے یاکسی اورجذبےکے تحت اپنی ذاتی رقم سے مدرسے کے
لیے زمین وغیرہ خریدی اورپھرچندہ کرکے اس پرعالی شان عمارت تعمیرکردی ۔اس
طرح کے مدارس عام طورپرعوامی سے زائدہ موروثی اورشخصی ثابت ہوتے ہیں ۔ان
میں سے نہ جانے کتنے مہتمم کروڑوں کی املاک کے مالک بن بیٹھے ہیں۔
یہ ہماری مذہبی تاریخ کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ چندے کی اس روایت نے مدرسے
قائم کرنا معمول اورکھیل بنادیاہے۔دنیاکے ہرچھوٹے بڑے کھیل کے کچھ نہ کچھ
اصول اورضابطے ہوتے ہیںمگریہ دنیاکاایساانوکھا’’مذہبی کھیل‘‘ہےجس کاکوئی
اصول نہیں۔کوئی بھی آتاہےاوراس ’’کھیل ‘‘میں شامل ہوجاتاہے ۔بس مشرع
ہوناشرط ہے۔اس کھیل نے جگہ جگہ مدارس کے نام پردوکانیں کھلوادیںکیوںکہ اپنی
ذاتی جیب سے توکچھ لگانا نہیں پڑتا بلکہ ساراپیسہ عوام کی ہی جیب سے آتا
ہےاوربہت آسانی سے مہتم کاعہدہ بھی ہاتھ لگ جاتاہے ۔اپنی محنت کی کمائی
کاپیسہ صرف ہو تو کچھ احساس بھی ہولیکن جب معاملہ مالِ مفت دل بے رحم
والاہوتواحساس کیسے پیداہوگااوریوں بھی اصل مدارس اورمستحقین کاحق مارنے
والے کے احساس وضمیردونوںہی مردہ ہوجاتے ہیںچاہے بظاہرداڑھی کتنی ہی نورانی
ہو،ٹوپی کتنی ہی چمک داراورلباس کتناہی اُجلا۔دوسراغیرمعمولی المیہ یہ
ہواکہ ایک ایک شہراورقصبے میں کئی کئی مدارس قائم ہوگئے اورجہاں مدارس کی
ضرورت تھی اس طرف کسی نے بھی توجہ نہ دی ۔حالاںکہ آج بھی ہندوستان میں کئی
مقامات ایسے مل جائیں گے جہا ں مدارس ومکاتب کی اشدضرورت ہے لیکن کوئی
ادھرکارخ نہیں کرناچاہتا۔ظاہرہےبنجرزمینوں کوکون عقل مندسیراب
کرناچاہےگا۔چندے کے اس پورے دھندے پرآپ غور کریںتویہ کہنابجاہوگاکہ آزادی
کے بعد ہندوستانی مدارس کی تاریخ دراصل اہل ثروت کے خصوصی تعاون اور عوامی
چندے کی تاریخ ہے،ایسی تاریخ کہ دونوں کا تصورایک دوسرے کے بغیرممکن نہیں ۔
اگرمدارس کامطالعہ خاص اس نقطہ نظرسے کیاجائے توہمارے زوال کے بے شماراسباب
میں سے کسی اہم سبب کاسراغ یہا ںبھی مل سکتاہے۔واقعہ یہ ہے کہ یہ کم پڑھے
لکھے عوام کی مذہبی حمیت اور دینی جذبہ ہی ہے جس نے ایک طرف مستحق مدارس کی
رگوں کوخشک ہونے سے بچایااوردوسری طرف غیرارادی طورپربے شمار ’’دوکان
داروں‘‘کا’’کاروبار‘‘مستحکم کردیا۔
اس عوامی چندے کاایک اہم پہلواوراس کاپس منظربھی ذہن میں رکھناضروری ہے کہ
جب مدارس پرمعاشی بحران منڈلانے لگاتواس بحران سے نکالنے کے لیے علمانے
زکوٰۃ و فطرے کی رقوم، جودراصل غریبوں کاحق تھا ،کو حیلۂ شرعیہ کے ذریعے
مدارس کے لیے جائزقراردے دیا۔یقیناًیہ ایک اجتہادی اقدا م تھااوراگربروقت
اس طرف توجہ نہ دی گئی ہوتی توملت اسلامیہ ہند آج جس پوزیشن میں
ہیں،شایدنہ ہوتی ۔اس وقت کے ذمے داروںکایہ بہت بڑاکارنامہ ہے کہ انہوںنے کم
ازکم مدارس کے وجودکوجیسے تیسے برقرار رکھا،لیکن ٹھہریے اس سکے کا دوسرا رخ
دیکھیے۔یہ رخ اتناہولناک ہے کہ ا س نے پورے معاشرے
پراپناگہرااثرچھوڑاہےاوراس نے مسلمانوں کی دینی ،مذہبی وسماجی ضرورتوں
پرگہری ضرب لگائی ہے۔ہوایوں کہ اس شرعی حیلے نےاہل مدارس پرہمیشہ کے لیے
چندے کا دروازہ کھول دیا۔زکوٰۃ وفطرے کی جورقم اللہ کی طرف سے غریبوں اور
معاشی طورپرکمزوروں کے لیے مخصوص کردی گئی تھی ،اس کااکثروبیشترحصہ مدارس
کے کھاتے میں چلاگیااوریوں بے چارے غریب مسلمان مسائل ومصائب کی گہری
کھائیں میں گرتے چلے گئے ۔بعدکے علمانے اس سمت غورہی نہ کیاکہ اگر چندے کی
روایت یوں ہی قائم رہی توا س کے معاشرے پرکیااثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔آج
مالدارحضرات مدارس کوچندہ تودیتے ہیںمگراپنے بچوںکووہاں تعلیم کے لیے نہیں
بھیجتے ۔وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے زکوٰۃ وفطرے کی رقم پرپلیں ۔مدارس میں
بمشکل دوتین فیصدمالداروں کے بچے پڑھتے ہوں گے ، وہ بھی ایسے بچے جن
کامذہبی خاندانی پس منظرہوگا۔معاشرے کی اس کربناک صورت حال کے پیش نظرہمیں
یہ تسلیم کرناہوگاکہ شرعی حیلے کے ذریعے زکوٰۃ و فطرے کی رقوم کومدارس
کےلیے جوازکافتویٰ ایک اجتہادی اوروقتی حکم تھااوریوں بھی اجتہادوقتی ہی
ہوتاہے ،دائمی نہیں ۔اُس دورکے حالات اوراِس دورکے حالات میں نمایاں فرق
ہے۔آج کے تناظرمیں چندے کے نقصانات کے پس منظرمیں دوبارہ اس مسئلے
پرغورکرناچاہیےورنہ حیلہ شرعی کی آڑمیں مدارس کے نام پر جوکروڑہا کروڑ کا
کاروبار ہورہا ہے اس پرکبھی بندنہیں لگ سکے گا،غریبوں کاحق یوں ہی
ماراجاتارہے گااورمسلم معاشرے کی ضروریات کبھی پوری نہیں ہوسکیں گی۔ہم اپنے
زوال پرلمبی چوڑیں بحثیں ،تقریریں اورتحریریں توبہت پیش کرتے ہیںمگراس
پہلوکی طرف توجہ کیوں نہیں دیتےجوہمارے بہت سارے مسائل کاحل ہے۔
اگرہمارے علماومشائخ نے شروع سے ہی مدارس کو خود کفیل بنانے کی طرف توجہ دی
ہوتی اورعوام کی ذہن سازی کی ہوتی تو آج انھیں ہرسال مالداروں کی چاپلوسی
نہ کرنی پڑتی اورنہ ہی مدارس کےسفیروں کو ان کی دھتکار سننے کو ملتی۔یہ بھی
حقیقت ہے کہ ذمے دارانِ مدارس کوکبھی کبھی اپنے خاص معاونین کی جانب سےبہت
سی غیر مناسب باتیں برداشت کرنی پڑتی ہیںاوریہ حضرات ان باتوںکی برداشت
کو’’حکمت ومصلحت‘‘کے خانے میں ڈال دیتے ہیں ۔ظاہرہے مالداروںکے ’’ محتاج‘‘
مدارس کے مہتمم صاحبان کے لیے ’’حکمت ومصلحت ‘‘ کی تاویل بھی ’’وقت کی
ضرورت ‘‘ہےورنہ مالداروںکے چندے رخ کسی اورطرف بھی مڑسکتاہے۔لوٹ پھیرکرسوال
پھربھی وہیں کاوہیں ہےکہ آخر یہ محتاجی کیوں ہے ؟کیا اس کا اب کوئی عملی
جواب مل سکے گا۔کیا لاک ڈاون نے ہماری توجہات کو انگیزنہیں کیا؟یا لاک
ڈائون سے بھی کسی بڑے خطرے کاانتظارہےجومنہ کھولے ہماری ہی طرف قدم بڑھانے
والا ہے ۔ کیا ہم اس وقت جاگیں گے جب ایڈڈ مدارس کو حکومت سے ملنے والی
مراعات بند ہو جائیں گی اوراساتذہ وملازمین کی تنخواہیں رو ک دی جائیں گی۔؟
اسلامی تاریخ کامطالعہ ہمیں بتاتاہےکہ اسلام میں چندے کی روایت کبھی نہیں
رہی ۔چندہ اس وقت کیاگیاجب بعض مواقع پرہنگامی حالات پیش آئے ۔عہدرسالت
میں بھی اس طرح کاہنگامی دورآیاچنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک
حکم پرصحابہ کرام نے اس ہنگامی صورت سے نمٹنے کے لیے دولت کے
انبارلگادیےمگربراہوہماری سہل پسندی کا،ہم نے اس ہنگامی اوراستثنائی نوعیت
کی صورت حال کودائمی سمجھ کراپنالیا۔یہ بڑی ہولناک غلطی تھی جوہم سے
سرزدہوئی ۔چندہ کرنایقیناًسنت ہےمگراس کی حیثیت استثنائی ،جزوی اورہنگامی
ہے ، دائمی اورکلی نہیں۔اس سنت کوہم نے دائمی سمجھ کرنافذتوکردیامگراس کے
نقصانات کوکنٹرول کرناہمارے بس سے باہرہوگیا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ چندے
کے اس نظام نے توکل علی اللہ کے تصورپربڑاکاری وارکیاہے۔میں نے
اتنابڑادعویٰ کیوں کیا،آئیے اسے سمجھنے کے لیے اپنی زندگی کی معمولی
معمولی چیزوںپرغورکریںمثلاًاگرآپ کسی جگہ کاسفرکرناچاہتے ہیں تو پہلے
زادِراہ کا انتظام کرتے ہیں۔آپ کسی بھی طرح کے ممکنہ مصائب سے مقابلےکے
لیےاحتیاطی طورپرکچھ رقوم ضروربینک کے کھاتے میں محفوظ رکھتے ہیںتاکہ وہ
برے وقت پرآپ اور آپ کے اہل خانہ کے کام آسکیں ۔اگرآپ کوئی
کاروبارکرناچاہتے ہیںتواس کے لیے پیسے کی فراہمی پرغورکرتے ہیں۔آپ شادی
یانکاح کرتے ہیںتواس کے لیے پہلے سے ہی حسب استطاعت انتظام کرتے ہیں۔وغیرہ
وغیرہ ۔ایساتونہیں کرتے ناںکہ بغیرزادِراہ کے سفرشروع کردیں،بغیرپیسے کے ہی
کاروبارمیں اترجائیں،بغیرانتظام کیے کسی کام میں کود پڑیں ۔ ایساکیوں کرتے
ہیں۔؟اس لیے کرتے ہیں کہ کام کرنے کاطریقہ یہی ہے ،یہی فطرت نے ہمیں سکھایا
ہے اوراسی کانام خداپرتوکل ہےکہ پہلے اپنی طرف سے پوری کوشش کرلی جائے اس
کے بعدنتائج اللہ پرچھوڑدیے جائیں۔دنیاکاکوئی بھی انسان ایسانہیں کرتاکہ
بغیرکسی سابقہ تیاری کے میدان میں اترجائے اورپھربعدمیںدوسروں کی طرف ہاتھ
پھیلائے اور المدد المدد پکارے۔اگرکوئی ایساکرتاہے توآپ اسے بیوقوف کے
سوااورکیاکہیں گے۔اب آپ مدارس کےذمے داروں کودیکھیے۔ان میں سے کتنے ہیں
جنہوںنے مدرسہ کھولنے سے پہلے ہی منصوبہ بندی کی ہوتی ہے؟شایدایک فیصدبھی
نہیں۔یہ حضرات مدرسہ پہلے کھولتے ہیںاوراس کی ضروریات کی تکمیل کے لیے
بعدمیں سوچتے ہیں۔اس کی ضروریات کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے
ہیں،رسیدیں شائع کرادیتے ہیںاورعوام سے امیدرکھتے ہیں کہ وہ ضرورت پوری
کریں۔یاللعجب۔مجھے یہ کہنے میں شدیدتکلیف ہورہی ہے کہ زیادہ ترمدارس کے
مہتمم،امیر،صدروغیرہ نان سینس واقع ہوئے ہیں۔ان بے چاروں کوپتہ ہی نہیں کہ
اداروں کوچلایاکیسے جاتاہے۔آپ اگرمدارس کے اخراجات پران سے سوال کریں
توجھٹ سے بڑے خشوع وخضوع سے بول پڑیں گے۔’’اللہ پرتوکل کرکے کام شروع
کردیاہے‘‘،اللہ کاکام ہورہاہے تووہی انتظام کرے گا۔‘‘وغیرہ وغیرہ ۔ان سے
پوچھاجاناچاہیے کہ آپ نے اپنے منصوبے کے لیے کتنی تیاری کی ہے؟ اللہ اسی
وقت اپنے بندے کی مددکرتاہےجب بندہ پہلے اپنی مددکرکے خودکومستحق ثابت
کرتاہےبصورت دیگراللہ کی کوئی مددنہیں آتی۔یادرکھناچاہیے کہ کسی کام کے
لیے محض اخلاص ہوناکافی نہیں،اس کے لیے حکمت عملی اورمنصوبہ بندی کی رفاقت
بھی ضروری ہے۔محض اخلاص کے بل پرکچھ ہواہے اورنہ ہو سکتا ہے ۔ اہلیان مدارس
کی روش نے شعوری یاغیرشعوری طورپرتوکل کے تصورکوجس طرح نقصان پہنچایاہے ،وہ
آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔جرم توجرم ہے چاہے شعوری ہویاغیرشعوری۔
یقیناً یہ دورِزوال ہے اورزوال بڑے چھوٹے ،عوام وخواص سبھی پرآتاہے،اس سے
کوئی بچ نہیں پاتا۔اس دور زوال میں ہمارے دانش وروں اور مفکروںکوسمجھ نہیں
آ رہی کہ مسلمانوں سے مختلف الجہات مسائل سے کیسے جان چھڑائی جائے
۔دورِزوال میں قائدین کی قیادت بھی کنارے رکھی رہ جاتی ہے اورزمانہ
ٹھوکرمارکرآگے نکل جاتا ہے ۔ دور زوال میں مشورے توبہت پیش کیے جاتے
ہیںاورمنصوبے بھی بہت بنائےجاتے ہیں مگروہ زمین پرکبھی نہیں اترپاتےکیوں کہ
شہ دماغوں کواپنے سواکسی کا منصوبہ اورمشورہ اچھا نہیں لگتا۔ظاہرہے چھوٹوں
اورجونیئروںکومنہ نہیں لگایاجاتا۔اللہ کے کرم سے ہمارےبڑے خودبہت عالی ذہن
اورشہ دماغ ہیں۔اسی اعلیٰ ذہنی اورشہ دماغی کانتیجہ ہےکہ نالے ، نوحے
،مرثیے،شکوے،منصوبے،تجاویز،نعرےسب کتابوںاورمجلسوں تک محدود ہیں ۔مجلس ختم
،سب کچھ ختم اورسب اپنی اپنی زندگی میں مگن۔یہاں سوال یہ ہے کہ بلندبانگ
دعووں کے اس دورمیںکیاکہیں سے امیدکی کوئی کرن بھی دکھائی دے رہی
ہے؟یقیناًصاف دکھائی دے رہی ہے۔اس گئے گزرے دورمیں بھی بہت سارے مخلصین اس
سمت میں سوچتے ہیں اورکڑھتے ہیںمگربے چارے کچھ کرنہیں سکتے کیو ںکہ وہ سسٹم
سے ٹکرانے کی ہمت نہیں رکھتے۔دراصل سسٹم سے دیوانے ٹکراتے ہیں،فرزانے
نہیں۔فرزانے لیت و لعل میں پڑجاتے ہیں،حکمت ومصلحت کی اوٹ میں اپنی جان
بچالیتے ہیںمگردیوانے تودیوانے ہوتے ہیںاورتبدیلی یہی دیوانے لاتے
ہیں۔دنیامیں آج تک جہاں کہیں بھی کوئی تبدیلی آئی ہے،انہیں دیونوںکے
ذریعے آئی ہے۔اہل عقل محض تماشائی بنے رہے اورایک دن چل بسے۔
اس پوری گفتگوکالب لباب یہی ہے کہ خدارا لاک ڈائون کےاس خدائی پیغام
کوسمجھیں۔اگرنہیں سمجھتے تونہ سمجھیں ، اپنی بلاسے۔ہم مدارس قائم کرکے
خداپراحسان نہیں کر رہے بلکہ خودپراحسان کررہے ہیں۔اللہ کواپنے دین کاکام
لیناہےوہ دشمنوںسے بھی لے لیگا۔وہ کوئی دوسری قوم لے آئے گا، وہ ہماری جگہ
دوسرے افرادکوبراجمان کر دے گا ، اوریہ یقیناًہوکررہے گاکیو ں کہ یہ
توخدائی قانون ہے ،جوکبھی بدل نہیں سکتا۔ذراپیچھے مڑکردیکھیے،اس خدائی
قانون کی تعبیربن کرسسٹم سے ٹکرانے کی ہمت لیے دیوانے چلے آ رہے ہیں۔صبح
نوقریب ہے ۔بہت جلد،ان شاء اللہ ۔
|
|