پاکستان میں قومی زبان اردو کا نفاذ کب ہوگا؟

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں قومی زبان اردو کے علاوہ بھی بہت سی علاقائی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں یہ تمام زبانیں ہمارا قومی اور ملی ررثہ ہیں اور ان کی حفاظت ہر پاکستانی کا فرض ہے بانی پاکستان بھی اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دے چکے ہیں لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ آج تک برسر اقتدار آنے والی حکومتیں اردو کو وہ مقام نہیں دے سکیں جو دینا چاہیئے تھاآج بھی ہم قومی زبان اردو کے نفاذ کے لئے سڑکوں پر ہیں قومی زبان کی ترویج اور نفاذ کے لئے بہت سی جماعتیں پاکستان میں کام کر رہی ہیں ان میں سے لاہور کی ایک جماعت قومی مرکز پاکستان جس کے سربراہ ہمارے دوست محترم حامد انوار صاحب ہیں جو اردو کے نفاذ کے لئے ہر وقت تیار ہیں آج بھی پنجاب اسمبلی کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ لگایا جا رہا ہے تا کہ ہمارے حکمرانوں تک یہ بات پہنچ جائے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے نا کہ انگریزی ہے اصل کہانی یہ ہے کہ ہمارے حکمران انگریزی کی پیداوار ہیں اور وہ ملک میں انگریزی کا نٖفاذ چاہتے ہیں جیسا کہ ابھی وزیر تعلیم بھی پرائمری سے ایف اے تک انگریزی پڑھانے کو لازمی قرار دے رہے ہیں یا میڈیا کے مطابق پورا نصاب انگلش میں کرنے کے خواہاں ہیں تو انہیں سمجھنا چاہیئے کہ ملک میں زیادہ تر لوگ اردو زبان کو باسانی سمجھ اور بول سکتے ہیں اگر انہیں سائنس بھی اردو میں پڑھائی جائے گی تو ان کے لئے سمجھنا آسان ہو جائے گا لیکن انگلش میں سائنس کا سمجھنا ہمارے طلبا کے لئے مشکل ہے ایک تو وہ ہماری زبان نہیں ہے دوسرا ہم پر زبردستی مسلط کی جارہی ہے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں اور ملک میں قومی زبان اردو کو فروغ دیں ذریعہ تعلیم اردو میں ہو تا کہ طلبا کے لئے پڑھنا اور سمجھنا آسان ہو ہماری آبادی کا زیادہ حصہ گاؤں پر مشتمل ہے گاؤں میں انگریزی کم بولی اور سمجھی جاتی ہے اس لئے ہمیں ان کو مد نظر رکھ کر اپنی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے ہمیں انگریزی زبان سے انکار نہیں اس کو زبان کے طور پر سیکھنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اس کو ہمارے طلبا و طالبات پر مسلط کر دینا بھی ٹھیک نہیں ہے۔اسے اختیاری مضمون کے طور پر پڑھا جائے تو بہتر ہو گا جو انگریزی پڑھنا چاہتے ہیں وہ اسے ضرور پڑھیں لیکن سب کو انگریزی تعلیم دینا ضروری نہیں ہے ابھی تک ہم ترقی کی منزلیں طے نہیں کر سکے ابھی تک ہمیں اپنا راستہ معلوم نہیں ہے ابھی تک ہم اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں خدارا ملک کی ترقی قومی زبان اردو کے نفاذ میں ہے اس ملک میں فوری اردو کا نفاذ کیا جائے تا کہ ہر کسی کو آگے بڑھنے کا موقع مل سکے زبان کوئی بھی بری نہیں ہوتی لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر زبردستی غیر ملکی زبان کا نفاذ نہ کیا جائے ہمیں اپنی قومی زبان اردو میں تعلیم دی جائے ہمارے اداروں میں تمام خط و کتابت قومی زبان اردو میں ہو تاکہ ہر کوئی لکھی ہوئی تحریر کو پڑھ سکے اور سمجھ سکے کہ اس میں کیا لکھا ہے لیکن انگریزی میں لکھا ہوا ہر کوئی نہیں پڑھ سکتا ۔ہمیں اپنی قومی زبان کا تحفظ کرنا ہے تا کہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن ہو ۔انگریز یہاں سے جا چکا ہے لیکن بد قسمتی سے ذہنی غلام اب بھی ان کی تقلید کرتے دکھائی دیتے ہیں کتنے عرصے سے انگریزی زبان تعلیمی اداروں میں پڑھائی جا رہی ہے اب تک ہمیں کاکیا فائدہ ہوا کیا ہم نے سائنس میں ترقی کر لی ہے کیا ملک میں صنعتوں کا جال بچھ گیا ہے کیا ملک سے بے روز گاری ختم ہو گئی ہے کیا ملک خوشحال ہو گیا ہے کیا ہم نے غیر ملکی قرضے لینے بند کر دیے ہیں مجھے نہیں لگتا کہ ملک میں کوئی ترقی ہوئی ہے قومی زبان کا نفاذ ہماری ضرورت ہے تعلیمی اداروں میں اردو میں تعلیم کی ترویج ضروری ہے اور یہی ترقی کی ضامن ہے انگریزی زبان بھی دوسری زبانوں کی طرح ایک زبان ہے اسے سیکھنا چاہیئے کیونکہ اسے انٹرنیشل زبان کا درجہ حاصل ہے اس لئے جو لوگ باہر کے ممالک میں جا کر کام کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے علیحدہ سے انگریزی میں کورسز ہونے چاہیں تا کہ وہ اس زبان کو سیکھ کر باہر جا سکیں اور انہیں کسی قسم کی مشکلات پیش نہ آئیں میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو کم پڑھے لکھے ہیں لیکن برطانیہ میں رہ کر ان کی انگریزی بہت اچھی ہو گئی ہے ہمارے ہاں تو جو انگریزی فرفر بولے وہی ذہین و فطین سمجھا جا تا ہے اسے تعلیم یافتہ ہونے کا درجہ دیا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اب ایک ان پڑھ آدمی برطانیہ میں رہ کر انگریزی سیکھ جاتا ہے جب وہ اپنے ملک آتا ہے تو فر فر انگریزی بولتا ہے ہمارا ایم اے انگلش بھی ایسی انگریزی نہیں بول سکتا تو کیا ہم اسے تعلیم یافتہ سمجھ لیں تو ایسا ہر گز نہیں ہے اردو زبان کا نفاز ناگزیر ہو چکا ہے اب اسے تعلیمی اداروں کے علاوہ ملکی اداروں میں بھی نافذ کر دیا جائے اس میں مزید حیلہ و حجت سے کام نہ لیا جائے ہم نے ملک کا بہت نقصان کر لیا جو بھی حکومت آتی ہے وہ اپنا تعلیمی ایجنڈا لے کر آتی ہے اب تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے جس پر عمل کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے کب تک ہم بھیک مانگ کر گذارہ کرتے رہیں گے آنے والی نسلوں کو ہم قرضوں سے کب نجات دلا سکیں گے اب وقت ہے کہ ہم سوچیں ہمیں دوسروں کی غلامی سے نکلنے کے لئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے اوراس کا واحد ذریعہ اردو قومی زبان ہے اس کے نفاذ کے لئے ہر پاکستانی ہم آواز ہے ۔
 

H/Dr Ch Tanweer Sarwar
About the Author: H/Dr Ch Tanweer Sarwar Read More Articles by H/Dr Ch Tanweer Sarwar: 320 Articles with 1924860 views I am homeo physician,writer,author,graphic designer and poet.I have written five computer books.I like also read islamic books.I love recite Quran dai.. View More