خبردیکھی ۔۔پہلے تویقین ہی نہیں آیا۔۔۔ کیا ایسا
ممکن ہے۔۔ ۔پولیس عوام کی مددگار اور ہمدرد کیسے ہوگئی۔۔۔۔بے بس و مجبور
لوگوں کی سرعام جیبیں کاٹنے والی ہماری پولیس کب سے لوگوں کے ساتھ ہمدردیاں
جتانے لگ گئی۔۔۔۔ لوگوں سے مال بٹورنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے ،
تھانوں میں عزت دار لوگوں کو ذلیل کر کے بدمعاشوں رسہ گیروں کو معتبر
بنادینے والی جادوگرپولیس اور انسانیت دوستی کی باتوں کا آپس میں تعلق ہی
کیا ہے ۔۔۔۔ پتھر جیسے پولیس افسران اور انکے ماتحت جن کے دل جعلی مقابلوں
میں بے گناہوں کو مار تے وقت کبھی نہیں پسیجتے ۔۔۔۔ جن کے ضمیر منشیات ،جسم
فروشی اور جوئے کے اڈوں کی سر پرستی کرتے ہوئے کبھی انہیں ملامت نہیں کرتے
وہ پولیس والے لوگوں کے دکھ درد کب سے بانٹنے لگ گئے ۔۔حیرت کا سمندر ہے
اور میں ہوں ۔۔۔۔ اور بات بھی محض زبانی کلامی ہمدردی تک ہی محدود نہیں رہی
بلکہ یہاں تو پولیس والے اپنی ذاتی جیب سے ایک مجبور خاندان کی مدد کرتے
نظر آئے ، کم ازکم میرے لئے پولیس والوں سے اس رویے کی توقع ناممکنات میں
سے ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہوا ہے ۔۔۔۔ تھانہ سول لائن کے علاقے میں ڈکیتی
کی ناکام کوشش کرنے والے فاقہ کش خاندان کے ساتھ حسن سلوک کی منفرد مثال
قائم کرنے پر ڈی ایس پی سول لائن عمرا ن عباس چدھڑ میڈیا کی توجہ کا مرکز
اور خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے عمل سے پولیس کا ایک بالکل
مختلف اور نیا چہرہ پیش کر کے ثابت کردیا کہ پولیس جیسے محکمے میں بھی درد
دل رکھنے والے افسران کی کمی نہیں ہے ،، عمرا ن عباس چدھڑ اور انکے ماتحت
عملے نے پولیس کے بارے میں لکھنے کے اس بیس سالہ سفر میں پہلی بار مجھے غلط
ثابت کیا ہے ورنہ تو پولیس کی طرف سے شاذونادرہی ٹھنڈی کبھی ٹھنڈی ہوا آتی
ہے ۔۔۔۔ ڈی ایس پی سول لائن عمران عباس چدھڑ جو ڈکیت گینگز کی گرفتاری میں
اپنا ثانی نہیں رکھتے اور اس وقت بطور ڈی ایس پی سول لائن فرائض انجام دے
رہے ہیں ،چند روز قبل انہوں نے تھانہ سول لائن کے علاقے میں ڈکیتی کی ناکام
کوشش میں گرفتار ہو نے والے ایک شخص اور اسکے خاندان کے ساتھ ہمدردی اور
حسن سلوک کی وہ مثال قائم کی ہے جس کی عام حالات میں پولیس ڈیپارٹمنٹ سے
توقع رکھنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے تھانوں میں عوام کے ساتھ ہونے والے
غیر انسانی سلوک اور پولیس والوں کی رشوت خوری اور بدکلامی کی لت نے پولیس
بارے عوام کے ذہنوں میں منفی تاثر کو اسقدر پختہ کر دیا ہے کہ پولیس سے
انسانی بنیادوں پرکسی ہمدردی کی تو امید ہی نہیں رکھی جاسکتی لیکن یہاں تو
جیسے سب کچھ الٹ ہو گیا اور پولیس والوں کے روایتی کردار کے بالکل برعکس ڈی
ایس پی عمران عباس چدھڑ اور انکے ماتحت اہلکار دیکھتے ہی دیکھتے اس فاقوں
کے مارے خاندان کے ہمدرد بن کر رہ گئے جو بھوکا ہی نہیں بلکہ مالک مکان کی
طرف سے گھر خالی کرانے کے خوف میں بھی مبتلا تھا ، یہ کہانی اپنی نوعیت کی
وہ منفرد داستان ہے جسے لکھتے ہوئے مجھے بارہا احساس ہوا ہے کہ کہیں یہ
خواب تو نہیں ۔۔ لیکن بہر حال یہ حقیقت ہے۔۔۔ اس کہانی کا مرکزی کردار دہی
بھلے کی ریڑھی لگانے والاعثمان علی ہے جسے ’’اشرافیہ کے‘‘ لاک ڈاؤن نے بے
روزگار کیا لیکن اسے حکومت کے کسی ’’احساس پروگرام ‘‘کے بارہ ہزار توکیا
بارہ آنے تک موصول نہیں ہوئے اسکے سر پر تین ماہ کا کرایہ چڑھ گیا اور مالک
مکان گھر خالی کرنے کی وارننگ دینے لگا۔۔حالات قابو سے باہر ہوتے چلے گئے
۔۔گھر میں بھوک ناچنے لگی ۔۔۔پھر3 روزسے بھوکے بچوں کی بھوک مٹانے کے لئے
کوئی ووست کوئی رشتے دار اور کوئی ہمسایہ اسکا مددگار نہ بنا تو اس نے
مجبور ہو کر نقلی پستول سے ایک گھر میں ڈکیتی کی کوشش کی اور اس کوشش میں
وہ ناتجربہ کار ڈکیت گرفتار ہو گیا۔۔۔۔اس پرستم یہ کہ وہ محلے والے جنہیں
اسکے بھوکے بچوں کے رونے بلکنے کا علم تو نہ ہوسکا۔۔ اسکی واردات کی خبر کے
بعد تو فوراََ جمع ہو گئے اور انہوں نے حسب توفیق اسے پیٹنے میں اپنا حصہ
ڈالنا ضروری سمجھاجس کے بعد اسے حوالہ ء پولیس کردیاگیا ۔۔گرفتاری کے بعد
اسکاجیل میں سڑنا بلکہ وہاں سے ایک عادی مجرم بن کر باہر آنا یقینی تھا
کیونکہ جیل وہ جگہ ہے جہاں لوگ سدھرتے نہیں بلکہ جرم کی پختہ تربیت اور
ذہنیت لے کر باہر آتے ہیں ،اسی دوران ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ نے ملزم
عثمان کی بیوی اور بچوں کو تھانے میں روتے بلکتے دیکھا جو اصرار کررہے تھے
کہ انکو بھی جیل بھیج دیں کم ازکم دو قت کی روٹی تو میسر آئے گی ۔۔۔ انکا
دل پسیج گیا انہوں نے اسکی مدد کا فیصلہ کیا اور تھانے کے عملے کے ساتھ مل
کر چندہ اکٹھا کر کے اس خاندان کی راشن خریدنے اور دیگر ضروریات پوری کرنے
میں مد د کی اور تھانے میں پولیس کا ایک نیا اور مختلف چہرہ پیش کیا جس پر
سب حیرت زدہ رہ گئے ۔۔۔تھانے کے ہلکاروں نے اپنے سینئر ز کی ہدایت پر عمل
کرتے ہوئے ذاتی جیب سے عثمان علی اور اسکے خاندان کی مدد کی ڈی ایس پی
عمران عباس چدھڑ نے ضروری قانونی کاروائی کے بعد ملزم کی ضمانت پر رہائی
ممکن بنائی اور اسکے لئے روزگار کا بھی انتظام کرا دیا ہے مالک مکان کے
کرایے کے بوجھ تلے دبے عثمان علی اور اسکے بیوی بچوں کی مدد کر کے ایک قابل
تقلید مثال قائم کرنے والے ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ کا کہنا ہے کہ’’
ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کی دو بڑی وجوہات ہیں جن میں غربت پہلے
اور جہالت دوسرے نمبر پر ہے جو لوگ عادی مجرم نہیں ہیں اور اپنی کسی مجبوری
کی وجہ سے پہلی بار ایسا قدم اٹھاتے ہیں انہیں دوبارہ قانون کے دھارے میں
لاکر نارمل زندگی گزارنے اور اپنی اصلاح کا موقع ملنا چاہئے یہی انسانی
اقدار کا بھی تقاضا ہے کیونکہ جیل کی اکیڈمی کسی مجرم کی اصلاح کاکام نہیں
کر سکتی وہاں لوگ جرائم کی پختہ ذہنیت لے کر باہر آتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے
لئے جرائم کی دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں عثمان علی کی بیوی اور بچوں کے
واویلے کے بعد میں نے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ وہ واقعی مجبور خاندان ہے
اسکی بیوی اور بچوں نے جب کہا کہ ہمیں بھی جیل میں رکھ بھیج دیں کم ازکم دو
وقت کی روٹی تو مل سکے گی تو تھانے کے عملے سے رہا نہیں گیا اور سب نے انکی
مدد کی میں سمجھتا ہوں کہ جرائم کے خاتمے اور معاشرے کے سدھار کے لئے صرف
قانون کا ڈنڈا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اسکے لئے ہم سب کو اجتماعی کوششوں کی
ضرورت درکار ہے ‘‘
عمران عباس چدھڑ کا یہ فعل نہ صرف پولیس کی ساکھ بہتر کرنے میں معاون ثابت
ہو سکتا ہے بلکہ یہ دوستانہ رویہ مسلسل جاری رہا توپولیس پرلوگوں کے اعتماد
کو بحال کرنے میں بھی کافی مدد ملے گی، سی پی او گوجرانوالہ مبارکباد کے
مستحق ہیں کہ انکے ماتحت افسران نے انکی آواز نہ صرف سنی اور سمجھی ہے بلکہ
اس پر عمل کرنے کی بھی کوششوں کو آغاز کر دیا ہے یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ
جہاں جرائم کی سر پرستی اور معاونت کرنے والے پولیس والے ہر تھانے منظر آتے
ہیں وہیں انکے پاس عمران عباس چدھڑ جیسے قابل ہمدرد اور انسانیت دوست
افسران موجود ہیں جو فرض شناسی اور پروفیشنل ساتھ ساتھ درد دل کی دولت سے
بھی مالا مال ہیں ، عمران عباس چدھڑ نے جو مثال قائم کی ہے وہ یقینی طور پر
ہر پولیس آفیسر کے لئے قابل تقلید ہے اور اس سے ایسے تمام پولیس اہلکاروں
کو بھی اپنی اصلاح اور انسانیت دوستی کادرس ملتا ہے ،ڈی ایس پی کی زندگی کی
ساری کامیابیاں اور مشکل کیسز کو انجام تک پہنچانے کی مہارت اورپروفیشنل
ازم ایک طرف لیکن انہوں نے ایک مجبور و فاقہ کش خاندان کے ساتھ حسن سلوک
اور انکے لئے اصلاحی کردار کی جواعلیٰ مثال قائم کی ہے گوجرانوالہ کی
فضائیں مدتوں اس سے مہکتی رہیں گی اور یہ عمل انکی سابقہ ساری کارکردگی سے
بھی کہیں بہتر ہے ۔۔۔ میڈیا نے ڈی ایس پی عمران عبا س چدھڑ اور انکے ماتحت
عملے کی حوصلہ افزائی میں بخل نہیں دکھایا ، اعلیٰ افسران کو بھی انکی
حوصلہ افزائی کے لئے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔۔۔تاکہ ساری پولیس فورس کو
یہ پیغام جائے کہ انسانیت دوستی انکے لئے سب سے افضل ہے ۔۔۔۔ یہاں عثمان
علی کے بلکتے بچوں کی بھوک سے ہمسایوں اور دیگر اہل محلہ کا بے خبر رہنا
بھی بہت سے سوالات چھوڑ جاتا ہے افسوس کہ ہم اپنی زندگی کی رنگینیوں اور اﷲ
کی دی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ ہمیں آس
پڑوس تک کی بھی خبر نہیں ہوتی ۔۔۔ گلی محلوں میں تھوک کے حساب سے موجود
عوامی خادم جنہیں دن رات سوشل میڈیا پراپنی تشہیر سے فرصت نہیں ملتی ایسے
مجبور لوگوں کی مدد کرنے کے وقت آخر کہاں چلے جاتے ہیں،این جی اوز ، مذہبی
و سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے وارڈز میں ضرورت
مندوں کی فہرستیں مرتب کر کے انکی امداد کو یقینی بنائیں ، تشہیری مہم سے
ہٹ کر اگر حقیقت میں ہم سب اﷲ کے دیئے ہوئے وسیع رزق میں سے چندنوالے فاقہ
کشوں مجبوروں اور حالات کے ماروں کوکھلانے کا اہتمام کر سکیں تو معاشرے سے
جرائم بھی کم ہوں گے اور اس سے ہمارا رزق بھی مزیدبڑھے گا کم نہیں ہو گا،
|