شیخ الاسلام حضرت مدنی کے شاگرد مولانا محمد عمر مجاہد
پوری مدظلہ
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب ۃ ہمارے بعد اند ھیرا نہیں اجالا ہے (ظہیر
کاشمیری)
حضرت مولانا محمد عمر مجاہد پوری سا بق نائب مہتمم جا معہ قاسمیہ مدرسہ
شاہی مراد آباد سے سناشائی اور تعلق کا دور تقریباً دس سال پر مشتمل ہے،آپ
کی مجلسوں میں ملاقاتوں کا یہ لمبا تسلسل آپ کی محبتوں میں اضافہ کرتا رہا
اور آپ سے یہ تعلق خاطر رسمی سنا شائی کے تمام مرحلوں سے گزر کر آپ کی
شفقتوں اور عنایتوں میں تبدل ہو گیا، بلکہ میرے لئے آپ کی شخصیت مر حوم
والدمحترم کی غیر موجودگی کے احساس کو نہ صرف پورا کر ر ہی تھی بلکہ اس
سایہ پدری کی طرح تھی جس کی چھاؤ ں اور آغوش میں بیٹھ کر اس یتیم بچے کو
سکون خاطر اور اطمینان نصیب ہو تا جو یتیمی کے ابتدائی مشکل ترین دور سے
گزر رہا ہوتا ہے ۔ مزید یتیمی کے اس داغ اور غم کو وہی لوگ شد ت سے محسو س
کرسکتے ہیں جن ہوں نے بچپن میں اپنے ماں یا باپ میں سے کسی کو کھو دیا ہو۔
لا ریب ماں باپ کے بغیر بچے اس تھکے ماندہ مسافر کی طرح ہوتے ہیں جو کسی
سائے دار درخت کی تلاش میں ہروقت سرگرداں رہتے ہیں اور سایہ ملنے پر وہ اس
طرح آرام سے سوجاتے ہیں جیسے بچہ اپنی ماں کی آغوش میں بھوک اور پیاس کی
شدت میں بھی آرام سے سوجاتاہے ۔میں خود اس کیفیت سے گزراہوں میرا جسم یتیمی
کے زخموں سے زار زار ہے، اس لئے مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میرے بچپن میں
اگر کسی نے پیار اور شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا ہے آج تک اس کی وہ عنایت اور
شفقت میرے سینے میں محفوظ ہے۔ بہرحال منزلوں کی تلاش میں مجھ جیسے تھکے
ماندہ شخص کو آپ کی شخصیت کی شکل میں یہ گھنا سایہ کسی عظیم نعمت سے کم
نہیں تھا ۔
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفرمیں رہا (احمد فراز)
حضرت مولانا محمد عمر مجا ہد پوری کی پیدائش ۲۸ ربیع الاول ۱۳۵۰ھ مطابق ۳۱
اگست ۱۹۳۱ ء مجاہد پور گاؤں میں ہوئی ۔یہ گاؤں اترپردیش کے مردم خیز اور
اکابر اولیائے عظام کے مسکن ضلع سہارن پور سے شمال کی جانب اور اہل اﷲ کی
اہم یاد گار خانقاہ رائپور سے ۳۰ کلو میٹر اور اس عہد راوں کے عظیم روحانی
پیشوا ولی مرتاض حضرت مولا نا سید مکرم حسین مد ظلہ العالی کے دولت کدے
سنسار پو ر سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر کوہ شوالک کی گود میں واقع ہے ۔
چھ سال کی عمر میں تسمیہ خوانی سے آپ کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ابتدائی
تعلیم کے مرحلوں سے گزر کر عا لمیت کا آغاز جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورے سے
ہوا ۔ پھر برصغیر کی عظیم شہرت یافتہ درسگاہ مظاہر العلوم سہارن پور میں
متوسط درجے تک پڑھنے کے بعد عالم اسلام کی عظیم دانشگا ہ دارلعلوم دیوبند
میں اپنی علمی اور عرفانی تشنگی بجھاکر ۱۹۵۵ میں سند فراغت حاصل کی ۔
آپ کے اساتذہ کی فہرست میں علم و عمل اور فضل و کمال کی وہ عظیم شخصیتیں
شامل ہیں جن پر با لاتفاق پوری ملت اسلامیہ کو فخر و ناز آج بھی حاصل ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدمدنیؒ، حضرت مولاناقاری محمد طیب
صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا مبارک علی صاحب سابق نائب
مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہوی ، حضرت مولانا
ابراہیم صاحب بلیاوی ، حضرت مولانا سید فخرالحسن صاحب ۔ حضرت مولانا بشیر
احمد خان صاحب ،حضرت مولاناحمید الد ین صاحب، حضرت مولانا جلیل صاحب حضرت
مولانا ظہور صاحب، وغیرہ ،آپ کے علمی اور عرفانی اثر میں شامل ہیں۔
بلاشبہ یہ تمام لوگ آسمان علم وعمل کے وہ آفتاب اور ماہتاب ہیں جن کی عظمت
اور عبقریت کی روشنی اور نور صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اپنی پوری آب و تاب
کے ساتھ باقی ہے۔بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی عبقریت میں مزید اضافہ ہوتا
رہتا ہے۔ یقینا خدا کی طرف سے یہ عظیم شرف اور انعام آپ کو عطا ہوا کہ یہ
علم ، تفقہ شریعت و طریقت کے رمز شاس اور حسن عمل کے زندہ پیکر آپ کی علمی
اور عرفانی جولانیوں کے رول ماڈل بنے ۔ آپ کو ان سے شرف تلمذ حاصل ہوا،ان
کے علوم و معارف سے آپ نے براہ راست جرعہ نوشی کر کے اپنے دامن مراد کو
بھرا اور ان سب کے کردار عمل کی خوشبو سے اپنے دل کے جہان کو آباد و شاداب
کیا ۔ کیا خوش قسمت ہو ں گے وہ نفوس جن کی زندگی کے کچھ لمحوں اور ساعتوں
نے ان کی خو شبوؤں سے اپنے مشام جاں کو معطر کیا ہو۔
ان عظیم ہستیوں کے خوان علم سے زلہ ربائی کرنے کے بعد آپ نے دوسری منزل کی
طرف قدم بڑھائے یعنی عملی زندگی کا آغاز کیااور اپنے مرشد خا ص شیخ الاسلام
حضرت مدنی کے حکم سے پہلی مرتبہ بحیثیت منتظم اور مدر س آپ کا تقر ر مدرسہ
حسینہ تاؤ لی میں ہوا ، ’’جاتے وقت حضرت مدنی ؒ نے فرمایا کہ کمر مضبوط کر
کے جانا بڑی بڑی کتابیں پڑھانے کو ملیں گی ۔میرا ارادہ تھا کہ طب کا کورس
مکمل کرنے کے بعد کہیں مطب کروں تاہم حضرت مدنی ؒ نے فرمایا حدیث و تفسیر
پڑھنے کے بعد’’ قارورہ ‘‘دیکھنے کا شوق ہے ۔حضرت مدنی کے حکم سے پھرمیں نے
یہ ارادہ ملتوی کردیا ۔جامعہ اسلامیہ ریڑی تاجپورے میں مشکوۃ شریف پڑھانے
کو ملی شرح صدرنہیں ہوا رات کو خواب میں حضرت مدنی ؒ نے فرمایا کیوں
گھبراتے ہو یہ لو میری کتابوں کی الماری کی چابیاں مطالعہ کرو اور پڑھا ؤ
اس کے بعد الحمد ﷲ میرا سینہ کھل گیا‘‘۔ ( دو دن کا سفر۱۶۷)
کچھ مدت مدرسہ خادم العلوم باغونوالی میں خدمت انجام دینے کے بعد پھر ایک
طویل مدت تک جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورے میں رہے اسی عرصے میں آپ کو اس
ادارے کا اہتمام بھی دیاگیا،بارہ سال تک آپ اس کے ذمہ دار رہے ۔مختصر طور
پر آپ کا شمار اس عظیم ادارے کی فہرست کے اہم صف اول کے لوگوں میں ہوتا ہے
۔مکمل طور سے اٹھارہ سا ل آپ نے اس ادارے کی خدمات انجام دیں جب آپ کو اس
کا اہتمام سپرد کیا گیا تھا اس وقت یہ ادارہ اپنے وجود کے اعتبار سے نو
مولود تھا۔ لیکن آپ نے اپنی فطری انتظامی صلاحیتوں سے اس ادارے کی حیات نو
کی باریا بی میں بڑا اہم رول ادا کرکے اس کو ترقی کے منازل پر رواں دواں
کردیا تھا بلکہ آپ کی جہد مسلسل سے اس کی شہرت اعتبار اور اعتماد کے مرحلوں
سے گزر کر محبو بیت کے درجے میں داخل ہوگئی تھی ۔
جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورے سے سبکد وش ہونے کے بعدآپ نے مدارس کی تمام
درسی اور انتظامی سرگر میوں سے علیحدگی اختیار کر لی اور و طن واپس آ
کراپنے گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئے ۔ خصوصاً آپ کا خاندانی پیشہ زمینوں
کی کاشتکاری تھا ۔آپ بھی مکمل طو ر سے کاشتکاری کرنے لگے ۔اور اس میں خوب
نئے نئے تجربات کئے ۔اتفاق سے ایک روز آپ فارم ہاؤس میں سکون سے بیٹھے ہوئے
قرآن کریم کی تفسیر کے مطالعہ میں محو تھے اچانک آپ کے پاس دارالعلوم دیو
بند سے تقرری کے لئے مہتمم دارالعلوم دیوبند کی طرف سے ایک نمایندہ
آیا’’مولوی بشیر احمد صاحب استاد محترم مولانا معراج الحق صاحب کا گرامی
نامہ لیکر وارد ہوئے ،جس میں استاد محترم نے لکھا تھاکہ ہم دارالعلوم
دیوبند میں آپ کی تشریف آوری پر خوشی محسوس کرتے ہیں، میں نے اپنے باغات
اور کھیتی کی مشغولیت کی وجہ سے انکار اور معذرت کردی مولانا بشیر احمد نے
خوب سمجھا یا مگر طبیعت راغب نہیں ہوئی۔‘‘( دو دن کا سفر ۸۷) اس کے بعد
جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد میں آپ کے تقر ر کا واقعہ بڑا پر لطف ہے
حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب استاد حدیث دارالعلوم دیوبند نے جناب مولا نا
عبدا لوہاب کو آپ کے پاس بھیجا اوران سے یہ کہا کہ ان سے ذکر مت کر نا کہ
کس لئے بلایا جارہاہے ۔ بقول آپ کے میں مولوی عبدا لوہاب کے ہمراہ مدرسہ
شاہی پہنچا میرے بیگ میں صرف ایک جوڑا کپڑا ہی تھا ،مدرسے والوں نے اس کو
اپنے قبضے میں لے لیامیں مولوی شبیہ احمد شیخ الحد یث مدرسہ جامعہ مسجد
امروہہ سے ملنے امروہہ چلا گیا ۔اسی مدت میں حضرت مولانا فضل الر حمٰن ناظم
مدرسہ نے ایک میٹنگ بلاکر میرا تقر کردیا میں نے معذرت کی ۔لیکن میں کچھ نہ
کرسکا اور چھ مہینے کے لئے میرا تقرر ہوگیا اس امید پر کہ یہ شاہی میں
نبھاؤنہیں کر سکیں گے۔امروہہ سے مدرسہ شاہی پہنچا وہا ں مجلس شوریٰ ہونے
والی تھی مجھے رکنے کے لئے کہا گیا ۔شوریٰ والے دن ایک بجے مجھے اطلاع دی
گئی کہ مدرسہ شاہی میں آپ کا نائب مہتمم کے عہدے پر تقر ر ہوگیا۔(دودن کا
سفر ۸۸ )
مدرسہ شاہی مراد آباد کی اس عظیم نیابت کے عہدہ پر چوبیس سال تک بڑی
کامیابی کے ساتھ وابستے رہے اس مدت میں آپ کی انتظامی صلاحیتوں سے ادارے کو
خوب ترقی ملی او ر دنیا بھر میں ادارے کی نیک نامی اور آپ کے حسن انتظام کے
چرچے ہوئے ۔۹ اگست ۲۰۰۵ ء کو آپ نے مدرسہ شاہی سے استعفیٰ دیا ۔جس میں آپ
نے تحریر کیا کہ اب میری عمر ۷۵ سال کی ہوگئی کمزوری اور ضعف کی وجہ سے
اپنی ذمہ داری نبھانے سے اب مجھے معذور سمجھا جائے ۔آپ کایہ عذر شوریٰ کی
طرف سے قبول کرلیا گیا ۔اس طرح زندگی کے یہ تقریبا پچاس سال مدارس کے ان
عظیم عہدوں اور منصبوں پر بر اجمان رہنے کے بعد نظم و ضبط اور انتظامی امور
میں مثال بن کر سبکدوش ہوئے ۔
آپ کی صاف ستھری اور بے لوث پچاس سالہ مدارس کی خدمات کے اعتراف میں حقیقت
اور سچائی پر مبنی مدرسہ شاہی کی تاریخ اور ریکارڈ میں درج یہ تمغہ اعزازی
آپ کے حوالے سے آپ کی عظمت اور کردار پر ہمیشہ گواہ رہے گا ۔
جناب مولانا محمد عمر صاحب سہارن پوری :
گلشن آبرو ہیں یہ اپنے چمن کی آن
آپ نیابت اہتمام کے ساتھ ساتھ بعض متوسط کتابوں کا بھی درس دیتے ہیں آج کل
ہدایہ اول آپ سے متعلق ہے آپ کی جفاکشی اور نظم و ضبط کی پابندی دیکھ کر
رشک آتا ہے، جس دلچسپی اور تند ہی کے ساتھ آپ مدرسے کی ترقی کے لئے کوشاں
رہتے ہیں، وہ یقینا قابل قدر اور باعث اجر ہے ۱۳ اگست ۱۹۳۱ ء کو پیدا ہوئے
والد کا نام منصب علی صاحب ہے اور وطن مجاہد پور اور ضلع سہارن پور ہے۔
ابتدائی تعلیم مظفر آباد ، ریڑھی تاجپو ر ہ ، اور مدرسہ مظاہر العلوم میں
حاصل کی پھر دارالعلوم آگئے اور وہیں سے شیخ الاسلام حضرت مدنی کے زمانے
میں ۱۳۷۴ھ میں دورہ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی فراغت کے بعد حکیم محمد عمر
صاحب سے طب کی بھی تکمیل کی ، ۱۴۰۲ ھ میں مدرسہ شاہی میں رونق افروز ہوئے
اس سے قبل آپ نے دارالعلوم حسینیہ تاؤلی ، خادم العلوم باغونوالی ، اور
جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورے میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیکر داد
و تحسین حاصل کی ہے۔‘‘(تاریخ شاہی ۶۲۸ دو دن کا سفرص ۱۰۸)
مولانا محمد عمر کی شخصیت کا مطالعہ اور تعارف کئی اعتبار سے کیا جا سکتا
ہے، آپ بہترین عالم دین اور بہترین منتظم ہیں،قلم و کتاب کے میدان میں آپ
منفرد ، سلوک و احسا ن ، تزکیہ نفس اور ا خلاق و کردار میں آپ کی عبقریت
مسلم ،فہم و فراست اور مستقبل کی ادا شناسی کے آ پ ماہر، غرض ہر جگہ اور ہر
میدان میں اپنی انفرادیت کا زندہ ثبوت آپ نے خوبصورتی سے پیش کیا، آپ کی
زندگی کا ایک ایک ورق آپ کی عظمتوں پر گواہ ہے، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جب
کوئی شخص فرد سے جماعت کی شکل میں یاشخص سے شخصیت بن کر اجتماعی میدان میں
بلکہ عوامی عدالت میں باریاب ہوتا ہے ۔تو امتحان اور مسائل کی سنگینی
کابوجھ کمر کو ٹیڑھی کردیتا ہے۔کبھی یہ امتحان کردار کشی کی شکل میں نمودار
ہوتا ہے اس سے بڑ ھ کرکبھی یہ عزت نفس ، غیرت اور خوداری کو چیلج کرتا ہے ۔
بہ حیثیت منتظم مولانا محمد عمر ان سخت اور دشوار گزرگاہوں سے مسلسل پچا س
سال تک گزرے، اچھے اور برے بلکہ دل شکن حالات کا آپ کو بھی سامنا ہوا ،
اپنو ں اور غیروں کے زخم سے آپ کا سینا بارہا زخمی ہوا ، رکاوٹیں اور
بندشیں آپ کے اس سفر میں آپ کے سا تھ بھی رہیں اور مسلسل رہیں ۔ لیکن کمال
اور خوبی یہ ہے کہ اس پوری مدارس کی زندگی میں کہیں اور کسی موقع پر جھول
نظر نہیں آتا کسی کو آپ کی زندگی پر نکتہ رکھنے کا موقع نہیں ملے گامیں
بشری تقاضوں کی نفی نہیں کر رہا ہوں ۔ آپ جہاں بھی رہے اﷲ نے آپ کو سرخ
روئی عزت اور سربلندی عطافرمائی۔
بے نیازی اور خوداری میں آپ کا کردار بے مثال ہے ،کہیں اور کسی مقام پر بھی
اپنی خودی اور خو داری پر آنچ نہیں آنے دی ،جس حال میں بھی رہے ہمیشہ میں
نے آپ کو خوش دیکھا ،بڑے بڑے کج کلاں آپ کی قلندرانہ صفت اور بے نیازی کے
سامنے ڈھیر ہوگئے ۔صاحب حیثیت لوگوں کو میں نے آپ کی مجلسوں میں بارہا
دیکھا لیکن کیا مجال ان کی طرف آپ نے ان کی حیثیت سے متاثر ہوکر ذرا بھی
التفات کیا ہو کسی سے کوئی سوال تو کجا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ لندن سے
آپ کے ایک کے قریبی دوست آپ سے ملنے کے لئے تشر یف لائے، جوبڑے دولت مند
آدمی بھی تھے اور مخیر بھی، لوگ ان کے آگے پیچھے گھوم رہے تھے اور آپ کے
التفات کے لئے بے چین تھے، لیکن مولانا کی قلندرانہ وضع میں کوئی فر ق میں
نے محسوس نہیں کیا ، ذرا سی مرعوبیت آپ کے کسی عمل سے ظاہر نہیں ہورہی
تھی۔حالاں کہ ہم لوگوں کی حالت یہ تھی اور ہے کہ ہم اہل ثروت کے سامنے اپنی
تمام غیرت اور خوداری کا سودہ کرلیتے ہیں بلکہ اپنی حمیت کو بیچ دیتے ہیں
۔بہ قول منورانا :
دربار میں جانا میرا دشوار بہت ہے
جو شخص قلندر ہو گدا ہو نہیں سکتا
اقبال نے کہا تھا کہ وہ ایسے فقیر اور قلندر ہیں جو تلوار اٹھائے بغیر دلوں
کو فتح کر لیتے ہیں یقینا مولانا محمد عمر ایسے ہی قلند ر ہیں کہ آ پ اپنی
خودی کی انانیت کے سامنے کسی اہل ثروت کو خاطر میں نہیں لاتے ۔بقول شاعر :
میں خاک نشیں ہوں میری جا گیر مصلیٰ
شاہوں کو سلامی میرے مسلک میں نہیں ہے
مولانا کی شخصیت بڑی اہم، عظیم اور پروقار ہے، عظمتیں اور رفعتیں آپ کا
طواف کرچکی ہیں ہرطرح کے میدان کے آپ فاتح ہیں، آپ نے ترقی کی تمام منزلیں
کامیابی کے ساتھ طے کی ہیں، لیکن اس کے باوجود تواضع اور انکساری میں عملی
طور پرمولانا جیسے شخص میں نے بہت کم دیکھے ہیں ۔بلا مبالغہ آسمان کی بلندی
پر رہتے ہوئے آپ نے زمین سے اپنا رشتہ قائم رکھاہے بلکہ اپنے آپ کو کسی سے
بڑا سمجھنا اور بڑا بن کر کسی سے آگے ہوکر چلنا ہمشہ اپنی قلندارانہ طبیعت
کے خلاف سمجھا ۔ اس طرح کے بہت سارے تجربات کا میں نے خود مشاہدہ کیا وہ
لوگ جو مرتبہ اور عمر میں آپ سے بہت چھوٹے لیکن آپ کی بے نفسی اور طبیعت کی
سادگی سے فائدہ اٹھاکراپنے آپ کو بہت بڑا گمان کرنے لگتے ہیں ۔لیکن مولانا
کی بے نیاز طبیعت اس طرح کے رجحان اور پرو پیگنڈ وں سے بالاتر تھی اور ہے
کہ لوگ مجھے بڑاسمجھیں اور میرا حترام کریں ۔
وضع داریاں نبھانا مولانا کی زندگی کا خاص طرز عمل ہی نہیں تھا بلکہ ایسا
لگتا ہے کہ آپ وضع داریاں نبھانے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں، جس سے ایک مرتبہ
تعلق ہوگیا بس اب تجدید مراسم کی نوبت ہی نہیں ۔مولانا نے اس کو اپنے محبین
کی فہرست میں شامل کرلیا، بلکہ اس کو اپنی زندگی اور ذات کا حصہ بنا کر اس
کو اس طرح اس کو نبھاتے کہ اس کے غم کو اپنے گھر کا غم اور اس کے کسی حادثہ
کو اپنا ذاتی حادثہ سمجھ کر شدت کے ساتھ اس کے غم اور خوشی میں مکمل طور سے
شر کت کرتے حتی کہ کبھی کبھی یہ گمان ہونے لگتا کہ آپ کے گھر ہی میں یہ
حادثہ واقع ہوا ہے۔ایک مرتبہ میرے سا تھ کچھ مہمان تھے میں ملاقات کے لئے
ان کو آپ کے پاس لے گیا ۔ ملاقات کے بعد ہر مجلس میں ان کی خیریت اور حالات
معلوم کر نا اور ان کا ذکر نا معمول سا ہوگیا ۔
جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
اقبا ل مرحوم نے کہاتھا’’ الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں
‘‘مجھے ایک طویل مدت سے آپ کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا ہے اس مدت میں سفر
و حضر میں آپ کے سا تھ بھی رہا ، آپ کی شخصیت کے اندر بلاکی کشش تھی ، آپ
کے چہرے پر ہمیشہ ہلکی سی معصومانہ مسکراہٹ، لوگ آپ کے ایک دیدار سے گرویدہ
اور عاشق ہوجاتے دیکھنے والوں کا ہجوم ہوجا تا ؛لیکن کیا مجال چہرے پر ہلکی
سی رعونت کے آثا رآجائیں بس خاموشی اور کبھی کبھی آنکھوں سے آنسو اور اپنے
اخفا کی بھر پور کوشش ۔
جو د و سخاوت اور مہمان نوازی میں آپ کی مثالیں اہل اﷲ کی یاد تازہ کردیتی
ہیں، کوئی مہمان یا کوئی سائل آپ کے درسے خالی نہیں جاتا، کسی وقت کو ئی
مہمان آپ کے پاس آجا ئے تو اس پر قربان ہوجا تے ہیں،کیا مجال وہ اگر کھانے
کا وقت ہے بغیر کھائے پئے آپ کے یہاں سے چلاجا ئے،ہر قسم کے پر تکلف
لوازمات دستر خوان پر موجو د کر دیتے ہیں،آپ کے اس وسیع دستر خوا ن کی دس
سال کی شہادت میں دے رہا ہوں کہ کبھی آپ کے یہاں جانے کے بعد ایسا نہیں ہوا
کہ چائے کے سا تھ دوسرے لوازمات نہ ہوں ۔اس میدان میں آپ کی دریا دلی کا
ایک واقعہ بہت اہم ہوگا ۔ ایک مرتبہ ہماری بستی کھجناور میں واقع مدر سہ
دارالقرآن دیدار شاہ میں ایک دینی جلسہ تھا جلسے کے اختتا م پر مدرسے کے
لئے چندہ جمع ہوا ۔سائل نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا غزوہ تبوک کے موقع پر آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے اپنا تمام مال و متاع لاکر آپ کی خد مت میں پیش
کر دینا کا واقع سنا یا ۔ اس واقع کو سنتے ہی مولانا محمد عمر صاحب نے اپنی
جیب کی تمام رقم خالی کردی ۔
مولانا محمدعمر صا حب کی زندگی کا ایک خوبصورت عنصر یہ ہے کہ کسی بھی حسا س
اور سنگین مسئلے کو مثبت شکل د ے د یتے ہیں، میں نے کبھی آپ کے یہاں منفیات
نام کی کو ئی چیز سر ے سے دیکھی ہی نہیں،جب بھی سو چتے ہیں مثبت ہی سو چتے
ہیں ۔ وہ منفی باتیں اور منفی سوچ اور رجحان جن سے ہم باہر نکلنے کو تیار
ہی نہیں اور نہ ان پر کو ئی سمجھو تا کر نا ہماری عادت ہے ۔ لیکن مولا نا
کے یہاں وہی ہمارے منفی خیالات اور باتیں تعمیر ی سوچ کا روپ دھار کر مثبت
پیکر میں ڈھلی ہوئی نگینے کی طرح معلوم ہوتی ہیں، آپ کی مثبت سوچ کے بہت سے
تعمیری پہلو اب برگ و بار لاچکے ہیں۔ غرض تخریب کو تعمیر سے بدلنے کا جو
ملکہ اور حوصلہ آپ کی طبیعت میں اﷲ نے ودیعت رکھا ہے اس کی مثالیں اب لوگوں
میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اب تو تعمیر کو تخریب بنانے والے لوگ جابجا
مل جاتے ہیں ۔خانقاہ رائے پو ر پر حضرت مفتی عبد القیوم ر ا ئپوری کی وفات
کے بعد جو حالات آئے اس کے تصفیہ میں آ پ کا مثبت اور تعمیری کر دار خانقاہ
رائپور کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حرفوں میں لکھا ہو موجود رہے گا ۔
آپ زندگی کی ایک صدی تقریبا مکمل کر چکے ہیں ، عمر کے اس مرحلے میں اعضاء
میں نقاہت اور ضعف بڑھ جاتا ہے ،آدمی کے لئے اس عمر میں رخصت پر عمل کر نا
ہی دشوار ہوجا تا ہے، لیکن تمام تر نقاہت اور کمزوری کے باوجود میں نے کبھی
آپ کو بلا وجہ رخصت پر عمل کرتے نہیں دیکھا ۔تمام نمازیں مسجد میں جاکر
جماعت کے ساتھ ادا کر نااور مزید تمام نمازیں کھڑے ہوکر ادا کر نا آپ کے
معمول کا حصہ ہیں ۔ کئی مرتبہ دیکھاکہ کھڑے ہونے اور چلنے میں بڑی دشواری
پیش آرہی ہے ،لیکن جب نماز کا وقت ہوا تو مکمل نماز کھڑے ہوکر ادا کی ۔ایک
مرتبہ ہم آپ کے ساتھ ایک سفر پر تھے مغرب کے وقت ہم علاقے کے ایک مشہور
ادارے میں وارد ہوئے ۔عصرانہ سے فارغ ہونے کے بعد نماز کا وقت ہو گیا ،
میزبا ن نے آپ سے اصرار کیا کہ آپ چلنے سے معزور ہیں ،اس لئے آپ نماز یہیں
حجرے میں ادا کر لیجئے ، لیکن آپ نے اصرار کے ساتھ فرمایا کہ نماز مسجد ہی
میں جاکر ادا کریں گے ۔
آپ مسلسل کئی دہایوں تک بحیثیت منتظم کے کام کرتے رہے لیکن ایک بہترین اور
کامیا ب منتظم کی خوبی کا احساس آپ کے حو ا لے سے بار ہا ہوا کوئی کتنا ہی
حسا س اور مشکل کام کا آپ کو سا منا ہو گیا لیکن کیا مجال کہ چہرے اور
اعضاء پر اس کا اثر ظاہر ہوجائے اور مشکل کام کے احسا س کا بوجھ آپ کے اوپر
حاوی اور غالب ہوجائے ۔ ہر کا م کو سنجید گی اور حوصلے کے ساتھ کر نا اور
اس کو پا ئے تکمیل تک پہنچا دینا آپ کے انتظامی امور کی خوبی کا حصہ ہے ۔
بڑے بڑے مسئلے آپ کی ذہین اور زیرک نگاہ کے سامنے اس طرح حل ہوجاتے ہیں کہ
احساس تک نہیں ہوتا تھا ۔منشی فخر الحسن صاحب جو آپ کے مدرسہ شاہی میں کلرک
تھے آپ کے فعال اور حسن انتظام کا ایک واقعہ بیا ن کیا:
’’ کرایہ مکانات کی بات پر یاد آیااور خوب یاد آیا کہ شان انتظام کا نرالا
رنگ آپ کو دکھاؤ ں جسے دوسرے الفاظ میں زہر سے تریاق کا کام لینے سے تعبیر
کرسکتے ہیں ، آپ کو حسن نیت کی برکت سے زہر سے کار تریاق کر نا خوب آتا ہے
جب آپ نے دیکھا کہ کتنے ہی مکانات مدرسے کے دبے پڑے ہیں اور اہل مدرسہ کو
ان کا علم بھی نہیں ، آپ نے ان کے پرانے کاغذات دیکھ کر پتہ لگایا کہ کس کس
کے قبضے میں ہیں اور حضرت مہتمم صاحب سے سب کے نام اور ان کے نام بھی جن کا
کرایہ برائے نام ہی تھاقانونی نوٹس جاری کرایاکہ آپ نے اتنے دنوں سے کرایہ
جمع نہیں کیا اور اب سے آپ کا کرایہ بڑھا یا جائے گا اور دوبارہ کرایہ نامہ
لکھا جائے گاوہ حضرت والا سے ملتے اور کم سے کم کرایہ کے لالچ میں آپ کو
مختلف قسم کے تحائف دے کر جاتے آپ ہر ایک سے تحفہ لے لیتے اور اس پر اس کے
نام کی چٹ لگا کر اپنے گھر حفاظت سے رکھ لیتے اور ان سے کہتے کہ اب تم بے
فکر رہواور اس اسٹامپ پیپر پر دستخط کر دو مجھ پر بھروسہ کرو میں تمہارا
خیال رکھوں گا اور تم پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی ۔میں مناسب کرایہ لکھ کر
کرایہ نامہ رجسٹری کرادو ں گا کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا پھر آپ نے ان کے
کرایہ نامے میں وہی کرایہ درج کرایا جو رائج الوقت اوسطا کرایہ ہونا چاہیے
تھاجب انہیں وہ جدید کرایہ نامے ملے تو بہت زیادہ بڑھے ہوئے دیکھ کر غصے
میں بھرے ہوئے آپ کے پاس آتے آپ ان کو ان کا دیا ہوا تحفہ تھماکر بڑے پیار
سے کہتے اگر تم غور کروگے تومیں نے تمہارے حق میں اچھاہی کیا ہے برانہیں
کیا۔ دو دن کا سفر ص ۱۱۲)
آپ اپنی عمر کی نو دھائیاں مکمل کر چکے ہیں، اس طویل عمر میں آپ نے زندگی
میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور ان کا مقابلہ بھی کیا ہے ۔ان میں آپ
کے سینے پر جو سب سے بڑا داغ اور زخم ہے وہ وہ ہندوستان کی تقسیم کا ہے، آ
پ کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی زمین کے ٹکڑے بلکہ اس کے جگر پر سر حد کے نام
پر پتھر کی لکیریں بنیں ۔ پھر اس کے سینے پر کانٹیں بچھا دیے جانے کے بعد
ملت اسلامیہ ہند کو آگ کے کتنے دریا عبور کر نے پڑے ۔ بھائی بھائی سے جدا
ہوا ، باپ بیٹے سے، بیٹا ماں اور باپ اور عزیز و اقارب سے غرض ہندوستا ن کی
اس قیامت خیز داستان غم پر آپ کی آنکھیں مکمل گواہ ہیں۔اور یہ سارا منظر آج
بھی آپ کے دل پر نقش ہے وہ شخص کیسے بھو ل بھی سکتا ہے اور کیسے اس کو چین
اور صبر آسکتا ہے جس نے آگ اور خون کے دریا دیکھے ہوں ۔ غم اور فراق کی
داستان اس وقت اور طویل ہو جاتی ہے جب ہندوستان کے مسلمان ظلم و جبر اور
مردم بیزاری کے سخت سے سخت ترین راہوں سے گزرتے ہیں ۔اور ان کو اپنے ہی وطن
میں چین سے نہیں رہنے دیا جاتا ہے ہر طرح کے شہر ی اور سماجی حقوق سے ان کو
محروم اور نامراد کیا جا تا ہے تو اس صورت حال سے مولا نا کا سینہ غموں سے
اور بوجھل ہو جاتا ہے ۔اور آخر پھر یہی بات زبان پر آجا تی ہے کہ ہم نے
ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا ؟ ان حا لات سے تو تقسیم کی یادیں
دل پر پھر دستک دینے لگتی ہیں ۔
آپ نے مختلف میدانوں میں کامیابی کے ساتھ صحراء نوردی کی ،اب آپ کے دل کے
اندر خدا کے عرفان کا ولولہ پیدا ہوا ، اس لئے اب آپ نے سالک بن کر راہ
طریقت میں قدم رکھا،سلوک اور احسان کی بہت سی راہیں تو اسی وقت طے ہوگئیں
تھیں جب آ پ علوم نبوت کسی تلاش میں پابہ رکاب تھے۔ کیوں کہ وہ کبار اساتذہ
جن سے آپ نے علمی تشنگیب بجھائی وہ خود علم و عرفان کے سنمدر تھے اور انہیں
معرفت حق کا خوب سے خوب تر ادراک تھا بلکہ راہ سلوک کے اسرا ر کے وہ سب رمز
سناش تھے ،آپ نے ان کی صراحی سے بادہ معرفت کے خو ب جام انڈیلے اور خوب
تسلی سے اپنے دامن مراد کو بھرا ،سالک سے عارف بننے کی پہلی منزل کا سفر
شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے ہاتھ پر آپ نے بیعت و ارشاد کا
شرف حاصل کیا،پھر اس کے بعد آپ کو حضرت مولا نا الحاج شاہ عبد الغنی صاحب
لاہوری ( خلیفہ حضرت مولانا سید حامد میاں صاحب ،خلیفہ حضرت مولانا سید
حسین احمد مدنی اور خلیفہ صوفی محمد اقبال صاحب مہاجر مدنی خلیفہ شیخ
الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب)نے آپ کو تمغہ خلافت دیکر مصلح ہونے کی سند
عطاکی ، اس کے بعد حضرت مولانا شاہ عبد اللطیف صا حبؒ مقیم لال کنواں لال
مسجد دہلی (خلیفہ حضرت مولا نا اسعد ﷲ صاحبؒ سابق ناظم جامعہ مظاہر ا لعلوم
سہان پور خلیفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ) آخر میں عہد حاضر کے عظیم
روحانی پیشوا ولی مرتاض حضرت مولانا سید مکرم حسین صاحب خلیفہ قطب ارشاد
حضرت شاہ عبد القادر رائپوریؒ نے آپ کو خلافت عطافر ما کرآپ کی ولایت پر
مہر ثبت کی ۔
علم و کتاب سے آپ کی وابستگی کافی پرانی ہے ایک کامیاب مدرس اور علم کے
رسیا کے طور پر علم دوست حلقوں میں آپ کو عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا
جا تا ہے تا ہم قلم سے باضابطہ آپ کی دلچسپی کا آغاز اپنی ملازمت سے سبکدوش
ہونے سے ہوا ، روشنائی کے سفیر کی حیثیت سے غالباً آپ کی وابستگی کی مدت
پندرہ بیس سال پر محیط ہے،اس دورانیہ میں آپ نے خوب لکھا ، ہندوستان کے
شاہکارعلمی اور ادبی مجلہ اور مرکز احیا ء الفکر الاسلامی کے آرگن ’’ نقوش
اسلام ‘‘ میں آپ کے مستقل علمی اور فکری کالم ارباب دانش کی توجہ کا مرکز
ہیں ،جو بھی لکھتے ہیں اور جتنا بھی لکھتے ہیں خوب محنت سے لکھتے ہیں آپ کا
نثری بیانیہ ہر قسم کے تکلف سے مبرا ہے تخلیق اور استعاریت سے زیادہ افہام
و تفہیم ، ترسیلیت اور معروضیت اور ساتھ ہی قوت استدلال کا عنصر آپ کے نثری
ڈکشن کا حصہ ہے دو کتابیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ، خود نوشت سوانح
’’دودن کا سفر ‘‘ اور ’’ توشہ آخرت ‘‘ یہ دونوں ہی کتابیں شہرتوں سے گزر کر
محبوبیت اورمقبولیت کے درجے میں داخل ہوگئی؛بلکہ توشہ آخرت کے ایڈیشن پڑوسی
ملک میں بھی اہل فضل و کمال کی تشنگی کا سامان بہم عطا کررہے ہیں ۔
آپ کا مکمل سراپہ یہ ہے کہ عمر کی نوے سیڑ ھیاں کامیابی کے ساتھ چڑھ چکے
ہیں، لیکن شکست اور تھکن کے آثار آپ کے چہرے پر نمودار نہیں بلکہ ہمت اور
عزیمت کے آپ ابھی بھی کوہ گراں معلوم ہوتے ہیں ،خوش مزاجی اور خوس طبعی آپ
کی طبیعت کا خاصہ ہے دوسروں کے غم ہمیشہ اپنی آنکھوں میں رکھنا،اور اپنی
خوشی پر نازاں نہ ہونا آپ کے کمال ایثار کانمونہ ہے ، حد درجہ تواضع اور
انکساری آپ کی عادت ہی نہیں بلکہ طبیعت کا حصہ ہے ،غرض آپ کا مکمل ہیولیٰ
اپنے اکابر اور بزرگان دین کا عکس جمیل ہے ۔
چند ماہ سے آپ صاحب فراش ہیں جسم پر فالج کا اثر ہوگیا تھا لیکن اس میں بھی
اپنے معمولات کے پابند ہیں ،ایک روز اچانک فون آیا ، کہنے لگے کہ آج قرآن
کریم کا صر ف ایک پارہ تلاوت ہوا ہے میں نے معلوم کیا کہ قرآن کی تلاوت کا
روز آپ کا کتنا معمول تھا ۔ویسے آپ کے مزاج میں اخفاء بہت ہے لیکن پھر بھی
بتا یا دیا کہ ایک منزل روز کا معمول ہے اور جوانی میں کبھی کبھی روز ایک
قرآن بھی ہوجا تا تھا۔
میرے لئے یہ بڑی سعادت مندی اور نیک بختی کی علامت ہے کہ ایسے صاحب عرفا ن
اور صاحب عزیمت اکابر اور بزگوں کے روحانی دربار میں حاضری خداکی طرف سے
بڑا انعام اور اعزاز ہے،خدا نے ان کی نظروں میں وہ کیمیائی تاثیر رکھی ہے
جو مٹی کو سونا اور مردہ روح اور دل کو جاں بخشی عطا کردے۔ |