استنبول آیا صوفیہ میں 86 سال بعد نماز کی ادائیگی۔
(Muhammad Arshad Qureshi, Karachi)
گرجا کی تمام زمینی اور بالائی گیلریاں باپوں، شوہروں، عورتوں، بچوں، پادریوں، راہبوں اور کنواری ننوں کی بھیڑ سے بھر گئی تھی، کلیسا کے دروازوں کے اندر اتنا ہجوم تھا کہ ان میں داخلہ ممکن نہ رہا تھا۔ یہ سب لوگ اس مقدس گنبد کے سائے میں تحفظ تلاش کر رہے تھے جسے وہ زمانہ دراز سے ایک ملأ اعلیٰ کی لاہوتی عمارت سمجھتے آئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب ایک افترا پرداز الہام کی وجہ سے تھا جس میں یہ جھوٹی بشارت تھی کہ جب ترک دشمن اس ستون (قسطنطین ستون) کے قریب پہنچ جائیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لیے نازل ہوگا اور اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کر دے گا جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔ |
|
|
حال ہی میں ترک عدالت کی جانب سے تاریخی عمارت آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کی اجازت دیے جانے کے بعد 24 جولائی کو وہاں پہلی بار 86 سال کے بعد نماز ادا کی گئی۔
ترک عدالت نے 10 جولائی کو آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے 11 جولائی کو عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کی منظوری دی تھی۔
آیا صوفیہ، سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح قسطنطنیہ ہونے تک مسیحیوں کا دوسرا بڑا مذہبی مرکز بنا رہا ہے، تقریباً پانچویں صدی عیسوی سے مسیحی دنیا دو بڑی سلطنتوں میں تقسیم ہو گئی تھی، ایک سلطنت مشرق میں تھی جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ تھا، اور اس میں بلقان، یونان، ایشیائے کوچک، شام، مصر اور حبشہ وغیرہ کے علاقے شامل تھے، اور وہاں کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا بطریق کہلاتا تھا۔ اور دوسری بڑی سلطنت مغرب میں تھی جس کا مرکز روم (اٹلی) تھا۔ یورپ کا بیشتر علاقہ اسی کے زیر نگیں تھا، اور یہاں کا مذہبی پیشوا پوپ یا پاپا کہلاتا تھا۔ ان دونوں سلطنتوں میں ہمیشہ سیاسی اختلافات کے علاوہ مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات جاری رہے۔ مغربی سلطنت جس کا مرکز روم تھا وہ رومن کیتھولک کلیسیا فرقے کی تھی۔ اور مشرقی سلطنت، آرتھوڈوکس کلیسیا فرقے کی تھی۔ آیا صوفیہ کا چرچ یہ آرتھوڈوکس کلیسیا کا عالمی مرکز تھا۔
آیا صوفیہ مسیحیوں کے گروہ آرتھوڈوکس کلیسیا کا عالمی مرکز تھا، اس چرچ کا سربراہ جو بطریرک یا "پیٹریارک" کہلاتا تھا، اسی میں مقیم تھا، لہذا نصف مسیحی دنیا اس کو کلیسا کو اپنی مقدس ترین عبادتگاہ سمجھا کرتی تھی۔ آیا صوفیہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ وہ روم کے کیتھولک کلیسیا کے مقابلے میں زیادہ قدیم تھا۔ اس کی بنیاد تیسری صدی عیسوی میں اسی رومی بادشاہ قسطنطین نے ڈالی تھی جو روم کا پہلا عیسائی بادشاہ تھا اور جس کے نام پر اس شہر کا نام بیزنطیہ سے قسطنطنیہ رکھا گیا تھا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک یہ عمارت اور کلیسا پورے عالم عیسائیت کے مذہبی اور روحانی مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ مسیحیوں کا عقیدہ بن چکا تھا کہ یہ کلیسا کبھی ان کے قبضے سے نہیں نکلے گا۔ اس سے ان کی مذہبی اور قلبی لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ اب بھی آرتھوڈوکس کلیسیا کا سربراہ اپنے نام کے ساتھ "سربراہِ کلیسائے قسطنطنیہ لکھتا آیا ہے۔
قسطنطین نے اس جگہ 360ء میں ایک لکڑی کا بنا ہوا کلیسا تعمیر کیا تھا۔ چھٹی صدی میں یہ کلیسا جل گیا تو اسی جگہ قیصر جسٹینین اول نے 532ء میں اسے پختہ تعمیر کرنا شروع کیا اور اس کی تعمیر پانچ سال دس مہینے میں مکمل ہوئی۔ دس ہزار معمار اس کی تعمیر میں مصروف رہے اور اس پر دس لاکھ پاؤنڈ خرچ آیا۔ اس کی تعمیر میں قیصر نے دنیا کے متنوع سنگ مرمر استعمال کیے، تعمیر میں دنیا کے خاص مسالے استعمال کیے گئے۔ دنیا بھر کے کلیساؤں نے اس کی تعمیر میں بہت سے نوادر نذرانے کے طور پر پیش کیے۔ اور روایت ہے کہ جب جسٹینین اول اس کی تکمیل کے بعد پہلی بار اس میں داخل ہوا تو اس نے کہا: "سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا"۔ (نبی سلیمان علیہ السلام کے ذریعہ بیت المقدس کی تعمیر پر تکبرانہ اور گستاخانہ جملہ تھا)۔
جب 1453ء نے عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا، اور بازنطینیوں کو شکست ہو گئی تو اس شہر کے مذہبی رہنماؤں اور راسخ العقیدہ عیسائیوں نے اسی کلیسا میں اس خیال سے پناہ لے لی تھی کہ کم از کم اس عمارت پر دشمن کا قبضہ نہیں ہو سکے گا۔ مشہور انگریز مؤرخ ایڈورڈ گبن منظر کشی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ۔ گرجا کی تمام زمینی اور بالائی گیلریاں باپوں، شوہروں، عورتوں، بچوں، پادریوں، راہبوں اور کنواری ننوں کی بھیڑ سے بھر گئی تھی، کلیسا کے دروازوں کے اندر اتنا ہجوم تھا کہ ان میں داخلہ ممکن نہ رہا تھا۔ یہ سب لوگ اس مقدس گنبد کے سائے میں تحفظ تلاش کر رہے تھے جسے وہ زمانہ دراز سے ایک ملأ اعلیٰ کی لاہوتی عمارت سمجھتے آئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب ایک افترا پرداز الہام کی وجہ سے تھا جس میں یہ جھوٹی بشارت تھی کہ جب ترک دشمن اس ستون (قسطنطین ستون) کے قریب پہنچ جائیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لیے نازل ہوگا اور اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کر دے گا جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔ لیکن ترک عثمانی فوج اس ستون سے بھی آگے بڑھ کر صوفیہ کلیسا کے دروازے تک پہنچ گئے، نہ کوئی فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی۔ کلیسا میں جمع عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔ بالآخر سلطان محمد فاتح اندر داخل ہوگئے، اور سب کے جان مال اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی۔ فتح کے دن فجر کی نماز کے بعد سلطان محمد فاتح نے یہ اعلان کیا تھا کہ "ان شاءاللہ ہم ظہر کی نماز آیا صوفیہ میں ادا کریں گے"۔ چنانچہ اسی دن فتح ہوا اور اس سر زمین پر پہلی نماز ظہر ادا کی گئی، اس کے بعد پہلا جمعہ بھی اسی میں پڑھا گیا۔
قسطنطنیہ چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لیے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند اور مشروط نہ تھے، اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا۔ علاوہ ازیں سب سے اہم وجہ یہ ہے آیا صوفیہ چرچ صرف مذہبی رسومات کی عبادتگاہ نہیں بلکہ وہ ایک سیاسی اور عسکری مرکز بھی تھا، مسیحی جنگوں کے منصوبہ جات وہیں تشکیل پاتے تھے اور وہاں سے پوپوں کے ذریعہ مسیحی حکمرانوں اور بادشاہوں کو متحد کیا جاتا تھا۔ انھیں سب وجوہات کی بنا پر سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا، چنانچہ اسے مال کے ذریعہ خریدا گیا، اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا یا چھپا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مسجد "جامع آیا صوفیہ" کے نام سے مشہور ہو گئی اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک پنجوقتہ نماز ہوتی رہی۔
فتح قسطنطنیہ کے بعد وہاں مسلمانوں کی نماز اور اجتماع کے لیے فوری کوئی جمع گاہ اور عبادتگاہ نہ تھی، اس لیے سلطان نے آرتھوڈوکس کلیسیا کے اس تاریخی مذہبی مرکز کو مسجد بنانے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ سلطان نے اس عمارت کو اور آس پاس کی زمین کو اپنے ذاتی مال سے خریدا اور اس کی مکمل قیمت کلیسا کے راہبوں کو دی، علاوہ ازیں سلطان نے اس مصرف کے لیے مسلمانوں کے بیت المال سے بھی قیمت نہیں لی بلکہ طے کردہ پوری قیمت اپنی جیب سے ادا کی، اور اس عمارت اور زمین کو مسلمانوں کے مصالح کے لیے وقف کر دیا۔ خرید وفروخت کے دستاویزات آج بھی ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں موجود ہیں۔
آیا صوفیہ کے سامنے ایک خوبصورت چمن ہے، اس کے بعد اس کا مرکزی دروازہ ہے، دورازے کے دونوں طرف وہ پتھر نصب ہیں جہاں پہرہ دار کھڑے ہوتے تھے۔ اندر وسیع ہال ہے جو مربع شکل کا ہے، اس کی وسعت غلام گردش اور محراب کو چھوڑ کر جنوباً شمالاً 235 فٹ ہے، بیچ کے گنبد کا قطر 107 فٹ اور چھت کی اونچائی 185 فٹ ہے۔ پوری عمارت میں 170 ستون ہیں۔ چاروں کونوں پر مسلمانوں نے چھ ڈھالوں پر اللہ، محمد، ابو بکر، عمر، عثمان اور علی نہایت خوشخط لکھ کر لگایا ہوا ہے۔ اوپر چھت کی طرف بڑے بڑے خوبصورت روشندان بنے ہوئے ہیں۔ عمارت میں سنگ مرمر استعمال کیا گیا ہے، بیشمار تختیاں لگی ہوئی ہیں جن پر عربی خط میں لکھا اور نقش ونگار کیا گیا ہے۔
آیا صوفیہ کی عمارت فتح قسطنطنیہ کے بعد سے 481 سال تک مسجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی۔ لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب مصطفٰی کمال اتاترک ترکی کا سربراہ بنا، تو اس نے، مسجد میں نماز بند کر کے اسے عجائب گھر (نمائش گاہ) بنا دیا۔ جولائی 2020ء میں اسے دوبارہ 1935ء سے قبل والی حیثیت دے دی گئی۔
31 مئی 2014ء کو ترکی میں "نوجوانان اناطولیہ" نامی ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں فجر کی نماز کی مہم چلائی جو آیا صوفیہ کی مسجد بحالی کے مطالبے پر مبنی تھی اس تنظیم کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے تائیدی دستخطوں کو جمع کر لیا ہے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر نے بیان دیا تھا کہ ابھی آیا صوفیہ کو مسجد میں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ 10 جولائی 2020ء کو ترکی کی عدالت عظمیٰ نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی قرارداد کو منظوری دی اور عجائب گھر کی حیثیت منسوخ کر کے سرکاری طور پر مسجد بحالی کا فیصلہ صادر کیا۔ بعد ازاں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے آیا صوفیہ کی مسجد بحالی کے فیصلے پر دستخط کر دیے۔
|