موجودہ دور میں جہاں طاقتور اور کمزور قوموں کے مابین عسکری محاذ گرم ہیں ،وہیں نظریاتی محاذ پہ بھی ایک زبردست کشمکش جاری ہے -یہ فکری و نظریاتی جنگ بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح عسکری جنگ ہے-عوام کی راۓ کو کوئ مخصوص سمت رخ دینے کے لئے میڈیا بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے -الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل ،انسانی اذہان کو متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے،اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ میڈیا وار (Media War ) کا دور ہے -آج سے دس بیس سال قبل نوجوانوں کو اپنی تاریخ سے روشناس کروانے کے لئے نسیم حجازی کے ناول پڑھاۓ جاتے تھے ،اب ہمارے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل ہیں-ان حالات میں کہ ہماری نئ نسل پب جی جیسی مضر صحت گیمز کا نشانہ بن چکی ہے اور والدین کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ اولاد کو اس نقصان دہ صورتحال سے باہر کیسے نکالیں ، ایک ڈرامہ سیریل ایسی بنی ہے جو بچوں ،نوجوانوں اور ہر عمر کے افراد میں یکساں مقبول ہے -الیکٹرانک،پرنٹ اور سوشل میڈیا پہ اس کے چرچے ہیں -برادر ملک ترکی میں تیار کردہ اس ڈرامہ سیریل نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں -"ارطغرل غازی "ڈرامہ سیریل ،صرف ایک ڈرامہ نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کے کچھ روحانی چیز ہے -اب اسے پی ٹی وی پر بھی دکھایا جارہا ہے-آخر اس میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ انتہائی مختصر عرصہ میں اسے دنیا بھر کے 60 سے زائد ممالک میں ،ان کی زبانوں کی ڈبنگ کے ساتھ دکھایا جارہا ہے؟عالم_اسلام میں اسے شاندار پذیرائی ملی ہے اور نیویارک ٹائمز نے اسے" ترکی کا سافٹ بم "قرار دیا ہے ،سب سیکولر اور بے دین لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں- ارطغرل غازی کو ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان کی خاص ہدایات پر،اس ڈرامے کے رائٹر اور پروڈیوسر "مہمت بوزداغ" نے تیار کروایا ہے -اس کی شاہکار پروڈکشن ڈائریکشن،لوکیشن ،کردار ،مکالمات کے ساتھ اس کی اصل خوبی اس کا تھیم(Theme) ہے -یہ ایک خانہ بدوش قبیلے کی کہانی ہے جو اپنی ہمت،بہادری اور ایمانی غیرت کے سبب مخالف قوتوں کے ساتھ برسر_پیکار رہتا ہے-اس کے سردار سلیمان شاہ کا بیٹا ارطغرل، بے مثل شجاعت کا علم اسوقت بلند کرتا ہے جب اسے ایک طرف منگولوں کی تباہ کن یلغار کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف بازنطینی( عیسائی )سلطنت کے ساتھ برسرِ پیکار ہونا پڑتا ہے-یہ اپنے قبیلے کے چند سو جانبازوں کے ساتھ ان دو سپر پاورز کو اپنی قوت_ایمانی ،غیرت مند حکمت_عملی اور دور اندیش منصوبہ بندی سے شکست دے کر خلافت اسلامیہ کی بنیاد رکھتا ہے_ارطغرل غازی ہر مظلوم کا محافظ اور ہر ظالم کے لئے تلوار ہے _اس ڈرامہ سیریل نے مسلمان دنیا میں ایک نئ روح پھونک دی ہے-ظلم و جبر کے اس دور میں ،جہاں کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، برما کے مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا جارہا ہے،شام جیسے خوبصورت ملک کو عالمی برادری کی سرپرستی میں کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے،فلسطینی مسلمانوں پہ عرصہ ء حیات تنگ کر دیا گیا ہے،چین کے ایغور مسلمانوں کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا اور جبری طور پر مرتد کیا جارہا ہے،ترکی کے اس ڈرامے نے مسلم دنیا پہ طاری خوف کے جال کو توڑ دیا ہے،انھیں احساس کمتری سے نکلنے اور اپنی حفاظت خود کرنے کا سبق دیا ہے_اس نے اعلیٰ خاندانی و اخلاقی اقدار ،بھائ چارے ،رشتے ناطوں کے تقدس،عدل و انصاف،خواتین کے احترام اور امت مسلمہ کے درد کو عملی شکل میں پیش کرکے دکھایا ہے-اس نے پوری دنیا میں جذبۂ جہاد کو پوری قوت سے ابھارا ہے-خلافت اسلامیہ کی ڈھال( shield)کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور مسلمانوں کو متحد ہونے اور اپنی نشاۃ ثانیہ پر آمادہ کیا ہے-ترکی کے اس شاہکار نے نہ صرف نوجوان نسل کو ان کی تاریخ ،ان کی جڑوں سے جوڑ دیا ہے بلکہ مستقبل کے خاکے میں رنگ بھر کے بہار کی خاطر تیار ہونا بھی سکھایا ہے- ارطغرل غازی کا تاریخی تسلسل ہے کہ حال ہی میں 25 جولائی کو صدر ترکی طیب اردوان کے حکم پر استنبول کی تاریخی مسجد "آیا صوفیہ"کو دوبارہ مسجد کا درجہ دے دیا گیا ہے جسے سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد عیسائیوں سے باقاعدہ خرید کر مسجد بنایا تھا اور بعد میں اتا ترک نے اس مسجد کو میوزیم میں تبدیل کردیا تھا-آیا صوفیہ کی دوبارہ سے تزئین و آرائش کی گئی اور ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی جس میں صدر ترکی جناب رجب طیب اردوان نے سورہ فتح کی تلاوت فرمائی-امام صاحب ڈاکٹر علی ایرباش نے تین چاند والی تلوار ہاتھ میں تھام کر خطبۂ جمعہ ارشاد فرمایا ،یہ امام صاحب دراصل ترکی کے وزیر مذہبی امور ہیں ،جن کے سر پر فتح کے دو سبز جھنڈے لہرارہے تھے -یہ علامتیں ایک واضح پیغام تھیں جو صدر ایردوان نے دیا تھا کہ ان کی اگلی منزل اب مسجد اقصیٰ ہے -اس نماز جمعہ کو دنیا بھر میں لائیو دکھایا گیا اور تین لاکھ پچاس ہزار افراد نے آیا صوفیہ میں نماز ادا کی -خطبۂ جمعہ میں دنیا کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ "ہم دنیا کو ظلم سے آزاد کروائیں گے جیسا کہ اسلام حکم دیتا ہے"-آیا صوفیہ میں 86 سال کے بعد ہاتھ میں تلوار تھام کے جو تکبیر ادا کی گئی ،اس وقت وہی عالم اسلام کی ضرورت ہے -ڈاکٹر علامہ اقبال نے ایسے حکمرانوں کے بارے میں ہی تو فرمایا تھا : دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوۓ صحراؤں میں شان ،آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی !! جناب رجب طیب اردوان نے نہ صرف میڈیا کے محاذ پر نظریاتی کمک فراہم کی ہے بلکہ عملی طور پر عسکری میدانوں کو بھی تنہا نہیں چھوڑا ہے -ترکی وہ واحد اسلامی ملک ہے کہ جس نے کشمیری مسلمانوں کی خاطر ،پاکستان کو اپنے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے ,جس نے ملک شام کے اندر اپنی فوجیں اتار کے دکھائ ہیں ،جس نے فلسطینیوں کے مشکل وقت میں خوراک پہنچانے کا بندوبست کیا ہے ،جس نے لاکھوں مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ عالم اسلام کے لئے امید کا روشن سورج ہے -جناب طیب اردوان نے تجارتی اور سفارتی محاذ پر بھی کامیاب حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے اور امریکہ جیسی سپر پاور کی فرعونیت کے بت کو پاش پاش کرکے بتادیاہے کہ موجودگی دور میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت کو کیسے تازہ کیا جاسکتا ہے -سلام اردوان !
|