ذرا سی بھول

تحریر: ماریہ رانی، روالپنڈی

عطیہ چکوال کے ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔کالج کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد یونیورسٹی میں داخلے کی اجازت مل ہی گئی۔لیکن دیہاتی علاقے میں رہنے کی وجہ سے یہ خواہش صرف شہر جا کر ہی پوری ہو سکتی تھی۔ عطیہ نے دل لگا کر دن رات ایک کر کے یونیورسٹی کے ٹیسٹ کی تیاری کی ۔اور کامیابی حاصل کی ۔آخر کار داخلے کا دن آپہنچا ۔عطیہ اپنی تمام خوشیوں کو ذہن میں بٹھائے شہر کو روانہ ہوئی۔ ہو سٹل اور یونیورسٹی کے اخراجات کی کاغذی کاروائی بھی مکمل ہو گئی اور پڑھائی کا آغاز ہوا۔

عطیہ پڑھائی میں اچھی تھی، لیکن وقت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔دن رات گذرتے گئے ۔یوں ہی پہلا سمسٹر گذر گیا۔گھر والوں سے رابطہ بھی رہتا اور گھر پر آنا جانا بھی لگا رہتا ۔یونیورسٹی سے اب جلدی فارغ ہونے کے بعدہوسٹل میں زیادہ وقت گزارنا بھی مشکل لگتا۔دوستوں کے ساتھ بھی کچھ دیر اور پھر یا پڑھائی تو یا مصروفیت کے لئے عطیہ نے Facebookکا استعمال شروع کر دیا۔ یوں وہ اپنے شہر کی چند دوستوں سے بھی رابطے میں رہنے لگی۔Facebookکے ہی ایک دوست عمر نامی نے عطیہ سے روابط بڑھائے۔عطیہ ایک با حیا لڑکی تھی اس لئے وہ عمر کی ضرورت کی دوستی پوری نہیں کر سکتی تھی۔لیکن بہرحال وونوں کم از کم Chatپر رابطے میں ضرور رہے۔عمر ،عطیہ کا خیال رکھنے کی کوشش کرتا۔اور یہ جتاتا کہ وہ اسے بہت چاہتا ہے۔چاہے عطیہ کے دل میں عمر کے لئے جگہ ہو یا نہ ہو، وہ عمر کی دل کی رانی ہے۔ عطیہ نے کافی دفعہ اس بات کو نظر انداز کیا۔لیکن ایک دن عمر کی ضد کے آگے عطیہ نے ہار مان لی۔عمر نے عطیہ سے کہا زندگی میں پہلی بار اور آخری بات مان لو اور ایک دفعہ میرے سے مل لو۔میں تمہاری ملاقات کے یادوں کے سہارے زندگی جی لوں گا۔

یونیورسٹی سے ویسے بھی اب آخری سمسٹر تھا اور عطیہ نے چند ماہ بعد گھر کو روانہ ہونا تھا۔سوچا کہ میں کھڑے کھڑے چند پل کی ملاقات کر آؤں گی۔ یوں عمر نے عطیہ کو اپنے دوست کے فلیٹ پر مدعو کیا۔عطیہ نے ڈرتے ڈرتے قدموں سے گھنٹی بجائی ۔عمر نے دروازہ کھول کر پرتپاک انداز سے استقبال کیا اور کہا آج تم نے میری محبت کا مان رکھ لیا ہے۔آج کا دن میرے لئے یادگار رہے گا۔عطیہ نے کچھ دیر کے بعد جانے کو کہا لیکن عمر ابھی اس بات پر راضی نہیں تھا کیونکہ اب اس کے دماغ میں شیطانیات آچکی تھی۔ جب عطیہ رکنے پر نہ مانی تو اس نے مجبور کر کے روکا۔عطیہ اس کے شیطانی ارادوں کو بھانپ چکی تھی۔جب کوئی اور راستہ نہ بچا تو اس نے اپنی عزت کو بچانے کے لئے کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگا دی ۔چار منزلہ عمارت سے جب عطیہ نیچے گری تو عمر کو بھی حیرت کا زوردار جھٹکا لگا کہ یہ قتل اس کے ذمے پڑ جائے گا۔عمر Fire Exist Gateسے فرار ہو گیا۔

اگلے دن اخبارات کی شہ سرخیوں میں واضح لکھا گھا کہ’’ فیس بک کی دوستی سے قتل کی لرزہ خیز واردات تکـ‘‘ ۔ماں باپ اس بات سے انجانے تھے کہ اُن کی ہونہار بیٹی جو پڑھائی کے لئے یونیورسٹی گئی تھی ،ایک کمزرو لمحے کے فیصلے پر کیسے ایک ہوس کے پچار ی کو پہچاننے میں غلطی کر گئی اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔جرم ،جرم ہوتا ہے اور قتل کا خون ایک دن اپنا انتقام ضرور لے لیتا ہے ، عمر کو ایک واردات کے شُبے میں جب پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تو پولیس کی روایتی چھترول پر اُس نے قتل جیسے جرم کا اعتراف کرلیا۔یوں جس جر م میں لا یا گیا تھا اُ س سے تو بری ہو گیا مگر قتل جیسی واردات کے اعتراف میں پھانسی گھاٹ پر لٹک گیا۔

 

Sumaira Kiran Khan
About the Author: Sumaira Kiran Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.