معاشروں کا فرق


۲۰۱۵ء میں ترکی کے تین سالہ لڑکے کی لاش کی تصویر نےدنیا میں ہنگامہ برپا کر دیا تھا وہ اپنے خاندان کے ساتھ بحری راستے سے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا لیکن ان کی ربر کی کشتی ڈوب گئی تھی۔ اس متوفی لڑکے کے اہل خانہ دراصل کینڈاجانے کے خواہشمند تھے۔ جس وقت یہ تصویر سامنے آئی تھی اُس وقت کینڈا میں الیکشن مہم چل رہی تھی۔ اس تصویر کا اتنا اثر ہوا تھا کہ وہ تصویر الیکشن کا موضوع بن گئی تھی۔ امیگریشن کے وزیر نے اس معاملہ کی تفتیش کیلئے اپنی انتخابی مہم کو منسوخ کردیا تھا، کیونکہ متوفی کے اہل خانہ نے کینڈا میں امیگریشن کی درخواست دے رکھی تھی۔

اب سنئے، مرنے والا نہ ہی امریکی ہے اور نا یورپین، اس کے باوجود بھی امریکہ اور یورپ میں اس تصویر پر ہنگامہ مچ گیا۔ حالانکہ متاثرہ خاندان غیر قانونی طورپر سرحد پار کرنے کا جرم کررہا تھا۔ اس کے باوجود کسی نے بھی انہیں مجرم کہنے یا لکھنے کی جسارت نہیں کی۔ سارا یورپ اور امریکہ ان کی ہمدردی اور حمایت میں کھڑا ہوگیا۔ لوگوں نے اپنے ہی ملک کے ایمیگریشن کے قوانین کو ماننے سے انکارکردیا، صرف انسانیت کی بنیاد پر، ۔ ان کے سیاستدانوں کی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کہہ سکیں کہ متوفین غیر قانونی سرگرمی میں ملوث تھے، کیونکہ لیڈران بھی جانتےہیں کہ ان کے عوام کےلئے انسانی ہمدردی کا جذبہ زیادہ معنی رکھتا ہے اور وہ ایسی اوٹ پٹانگ دلیلوں پر ان کی دھجیاں بکھیر دیں گے۔
اسے کہتے ہیں زندہ معاشرہ

اب اپنے وطن لوٹئے۔ہمارے یہاں معاملہ مکمل طو رپر اس کے برعکس ہے۔ دہشت گردی کے ملزم اراکین پارلیمنٹ بن جاتےہیں، اقامہ ملک کے وزیر اعظم اور کلیدی عہدوں پر براجمان وزیر مشیر دوسرے ممالک کے اقامے لینے کو برا نہیں سمجھتے ان کے چمچے ان کا دفاع کرتے ہیں زمین پر قبضے کے لئیے انسانی جان کو قتل کردینا جائز سمجھا جاتا ہے،زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگانا انسانیت کے تمام اصولوں سے اعلیٰ و ارفع مانا جاتا ہے۔ ہمارے لیڈران خود خونریزی کی ترغیب دیتے ہیں اور انسانوں کو قتل کرنے والوں کو اعزاز سے نوازتےہیں۔ وہ اپنے بیانات اور اپنی تقریروں میں انسانوں کو مارنے، پیٹنے، قتل کرنے کی باتیں کہنے سےبھی نہیں ہچکچاتے کیونکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ ان کا سماج ان کا معاشرہ یہی چاہتا ہے۔
زینب قتل کیس کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود کے بیان پر جس طرح انکا میڈیا ٹرائل کیا گیا وہ اس بات کی مظبوط دلیل ہے۔بڑے سے بڑا انسانیت سوز واقعہ ہوجائے بس چند دنوں تک میڈیا پر زندہ رہتا ہے پھرمیڈیا اسے نظر انداز کردیتا ہے اور قوم جس نے اس مسلئے کو ذندگی اور موت کا مسلئہ بنا رکھا تھا یکثربھلا دیتی ہے۔۔۔
سیالکوٹ میں ۲ بھائیوں پر انسانیت سوز تشدد کا معاملہ ہو یا رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں نوجوان سرفراز کا قتل ہو یا ۱۲ مئی ہو یا ۲۷ دسمبر کا قتل عام یا سانحہ بلدیہ فیکٹری زینب قتل کیس ہو یا کوئ اور دلخراش واقعہ سب کے سب مٹی میں میں دفن ہوگئے
ہمارے سیاستدانوں کے نزدیک انسانی جان سے زیادہ سستی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ انسانیت کس چڑیا کا نام ہے ؟ یا انسانی ہمدردی کیا شئے ہے۔ اس بات کا ہمارے معاشرے ہمارے سماج کو پتہ ہی نہیں۔ اسے کہتےہیں مردہ معاشرہ۔


 

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 45 Articles with 63500 views "I write to discover what I know.".. View More