تیسری جنس۔

میں موبائل کی سکرین پر انگلیاں گھما نے اور سگنل کے واپس کھلنے کی منتظر تھی۔جب ایک بھاری بھرکم آواز کانوں کے پردوں سے ٹکرائی۔ نگاہ اس جانب اٹھائی تو وجود اس سے بھی زیادہ بھاری اور جاندار دکھائی دیا۔ کڑیل جوان جسم، گندمی رنگ جو دھوپ میں رہ رہ کر کالا پڑ چکا تھا۔تازہ تازہ کی ہوئی شیو، چہرہ میک اپ اور معدے سے چڑھای ہوئی رنگ سفید کرنے والے پاؤڈر کی تہہ سے اٹا ہوا تھا۔ سرخ لال خون کے جیسے لگائی ہوئی لپسٹک ،بالوں کو گول کر کے اوپر کو کیا ہوا جوڑا ۔یوں کہہ لیجئے کہ ! اگر وہ رات کا وقت ہوتا تو اس کی یہ بھیانک حالت دیکھ کر میں خوفزدہ ہوجاتی ۔تالی کی کھنک ایسے کے پورا محلہ جاگ جائے۔صرف ایک دس روپوں کی خاطر خود کو شکل با شکل کر رکھا تھا ۔اس نے دس روپے لیے اور راستہ چھوڑ دیا ۔وہ چلا گیا اور دماغ میں بہت سے سوالوں کو جنم دے گیا۔ان کو ایسا سب کرنے کے لئے مجبور کرنے والا کون ہے ۔قسمت ؟حالات ؟معاشرہ ؟یا میرا رب ۔ہاں !بہت سے خود بنتے ہیں لیکن بہت سے اس کے بنائے ہوئے بھی تو ہیں نا ۔یہ لوگ کس سے جا کر گلہ کریں ۔انہیں دیکھ کر یا تو لوگ گالیاں بکتے ہیں یا گندی اور میلی نگاہ ان کے وجود پر ڈالتے ہیں ۔ان کو عام زبان میں کھسرہ ،ہجڑا ،ہچکولہ یا چھکا کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ ٹکوں ٹکوں میں ان کا ریٹ لگتا ہے۔ صنف کی شناخت شاید نہیں بلکہ یقینا سب سے اہم پہلو ہے ۔جو انسانوں کی نفسیاتی اور معاشرتی طرز عمل کا تعین کرتی ہے ۔صنفی شناخت کا بحران نہ صرف ایک پریشان کن معاشرتی زندگی کا باعث بنتا ہے بلکہ ایک فرد کی خود اعتمادی کو بھی کم کرتا ہے ۔جو ممکنہ طور پر اس کی معاشرتی معاشی اور سیاسی طور پر بیگانگی کا باعث بن سکتا ہے ۔میں اکثر یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہو کے جہاں قسمت کی طرف سے " فل سٹاپ" لگ جائے تو وہاں کمزور دل انسان کیا کرے ۔کیا یہ تیسری جنس انسان نہیں؟ یا ان میں احساسات نہیں؟ سب سے مشکل کام رویوں کو برداشت کرنا ہے ۔اور جونہی یہ بدترین قسمت والی مخلوق آنکھیں اس روئے زمین پر کھولتی ہیں تو سب سے پہلے گھر والوں کے طنز و طعنے کھاتی ہیں ۔اور پھر مر کر آنکھیں بند ہونے تک یہی کرتی ہیں ۔گھر سے بے گھر کیئے جاتے ہیں ۔اپنے ہی پیدا کرنے والے آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور کنارے لگا دیتے ہیں ۔کراچی کے ضلع محمود آباد میں 35 سالہ بندیا رانا نے کپڑے کا کاروبار شروع کیا یہ لوگ اگر اپنی محنت کریں ناچیں گائیں یا خود کو بیچ دیں پھر بھی لوگوں کو ہضم نہیں ہوتے ۔اے ابن آدم تو ہے کیا اور تیری اوقات کیا۔؟۔۔ ؟18سالہ شمع نامی ٹرانسجینڈر کو غنڈوں نے اغوا کیا اور بے دردی سے قتل کیا ۔ایک اور ڈانسر کی حیثیت سے کام کرنے والی کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ اس کے پاس 1000 میں سے واپس کرنے کو کھلے پیسے نہیں تھے ۔پشاور میں علیشاہ کو گولی مار دی گئی جب ہسپتال پہنچایا گیا تو ڈاکٹروں نے علاج میں تاخیر کی۔

مرنے کے بعد وجہ یہ بتائی کہ ہمیں سمجھ نہیں آئی کے زنانہ وارڈ میں لے کر جائے کہ مردانہ وارڈ میں ۔ایک زناٹے دار تھپڑ اس معاشرے کے منہ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ارے ظالمو!

زنانہ مردانہ چھوڑو دیکھو انسان تو ہے اتنا بے بس مجبور اور لاچار ۔پاکستان میں 2017 کی مردم شماری میں پہلی بار " ہجڑا آبادی "کو دستاویز کیا ۔تب ان کی تعداد دس ہزار بتائی گئی ۔پاکستان میں ان کی جیثییت بہت کم ہے ۔وہ بنیادی حقوق سے محروم ہیں ان میں ان کے حقوق کی شدید خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔کیونکہ معاشرے میں ان کو احترام نہیں دیا جاتا ۔بہت سے جنسی ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں ۔ان کے لئے اعلی حکام کام نہیں کرتے ۔نا ہی وہ خود اپنے معاملات کو اجاگر کرتے ہیں ۔2017 میں ٹرانسجینڈر کا بل پیش کیا گیا ۔۔جس کا مقصد انکے بنیادی مسائل کو حل کرنا تھا ۔اس بل کے مطابق ان کو ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کی اجازت ہو گی،انکو ہراساں کرنے کی ممانعت ہو گی،مکانات تعمیر کر کے دیئیے جائینگے۔چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے لئے رقم دی جائے گی،شناختی کارڈ فراہم کئیے جائینگے۔
اس فیصلے کے بارے میں کمیونٹی کا کہنا تھا کہ"اس فیصلے سے وہ ساتویں آسمان پر ہیں "حال ہی میں تاریخ میں پہلی بار ایک پاکستانی نیوز چینل نے ٹرانس جینڈر کو بطور نیوز کاسٹر رکھا۔" مارویہ ملک نے صحافت میں گریجویشن کی اور بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب انہیں اس ملازمت کی پیشکش ہوئی تو وہ آنسووں کی جانب راغب ہو گئی " اس نے کہا کہ اسے امید ہے کہ ان کے اس کام سے پاکستان کی ٹرانسجینڈر برادری کی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔پاکستان میں 98٪ٹرانسجینڈر خواتین ہجرہ ثقافت کو اپناتی ہیں اور 2٪ آزاد رہتی ہیں۔ہجرہ کلچر میں شامل ہونے کے بہت سے نقصان بھی ہیں اور فائدے بھی۔بھیک مانگنے،ناچنے گانے یا جنسی کام میں بھی ملوث ٹرانسجینڈر برادری محفوظ نہیں۔

پاکستان میں تو یہ لوگ اپنے ہی گھروں میں محفوظ نہیں۔خاص طور پر پشاور اور kpk میں۔ناقابل برداشت تشدد کی وجہ سے بہت سی ٹرانسجینڈر خواتین خود کو ختم کر لیتی ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک ایسا مایئنڈ سیٹ بنا دیا گیا ہے کہ ہجرے صرف ناچ گا کر ہی پیٹ پال سکتے ہیں میں نے بہت سے پڑھے لکھے ہجروں کو بھی ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ہے۔بیمار یا نا مکمل وہ نہیں بلکہ ہم لوگ ہیں۔جو ان سے جینے یہاں تک کہ سانس لینے کا حق تک چھین لیتے ہیں۔کچھ روز قبل ایک خبر آنکھوں کے سامنے سے گذری کہ نسوانی عادات کا حامل کالج کا ایک بچہ معاشرے اور دوستوں سے تنگ آکر خود کشی کر گیا۔ایسی خودکشیوں کے قاتل کون ہیں؟؟؟؟؟

جو چیز قدرت نے فطرت میں فطرتاً رکھی ہےاسے ایسے ہی قبول کرنا سیکھے خدارا۔۔۔۔۔۔۔کسی کے فیصلے کرنا ہمارا کام نہیں وہ رب جانے اور اسکے کام دوسروں کے مسئلوں میں خود کو مت الجھائے۔یہ بیچارے تو آگے قسمت سے ہارے بیٹھے ہیں۔ان بےضرر لوگوں کے لئے آگے بہت مایوس کن صورتحال ہےکچھ با اثر افراد اور حکومت ایسوسی ایشنز انکے لئے پناہ گاہیں بنائے جس میں مرد خواتین اور ہم جنس پرست اس نظرانداز طبقہ کے لئے مل کر کام کریں ہمارے اجتماعی سلوک کے بہت سے دوسرے پہلوئوں کے علاوہ علیشاہ کا معاملہ ہمارے ڈاکٹروں کے تعلیمی معیار پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ برائے کرم ان کو قبول کرو وہ انسان ہے جذبات رکھتےہیں آپ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ان کے چیتھڑے اڑا دیتے ہیں خیال کریں ۔
 

Rida Bashir
About the Author: Rida Bashir Read More Articles by Rida Bashir: 19 Articles with 14267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.