عید قربان

 آج کورونا وائرس کے حصار میں مسلمان عید عزم و احترام کے ساتھ منا رہے ہیں۔اجتماعیت کی ترغیب دینے والا دین آج حقوق العباد کے لئے سماجی فاصلوں پر آمادگی کا اعتراف کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر ، فلسطین، اراکان سمیت کئی خطوں میں مسلمان شدید مظالم اور قابض فوجوں کے حصار میں عید منائی جا رہی ہے۔انسان کو انسان کی غلامی سے آزاد کرانے والا اسلام ، فوبیا کا شکار ہے۔ بندشوں اور پابندیوں ،غلامی اور محکومی میں کیسی عید۔ صرف نعرہ بازی، احتجاج ، بیان بازی سے کشمیریوں کی غلامی ختم نہیں ہو سکتی۔سچ یہ ہے کہ پاکستان کی بقا کے لئے کشمیر کی آزادی انتہائی لازمی ہے۔ پھر کشمیر پر سیاست کون چمکاسکتا ہے۔ انشاء اﷲ،کشمیر آزاد ہو گا ۔ کشمیری بھی آزادی سے عید منا سکیں گے۔ عید نے جو قربانی اور ایثار کا سبق سکھایا ہے۔ اس پر اسلامیان کشمیر نے عمل کیا ہے۔عزت، جان ومال، اولاد کی قربانی سے بڑھ کر کوئی قربانی نہیں۔ ایک کروڑ کشمیری عید کے موقع پر قید ہیں ۔ ہماری کیسی عید ہو گی۔ ان تہواروں کے موقع پر فضول خرچی سے یہ بہتر ہوسکتا ہے کہ جنگ بندی لائن پر بھارتی گولہ باری اور کلسٹر بموں کے شکارعوام کو جنگی تربیت اور مسلح کرنے کے لئے قومی فنڈ قائم کیا جائے تا کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنا دفاع اور بھار تی غلامی سے نجات کی منصوبہ بندی کر سکیں۔ ابھی تک ان سے مورچے تعمیر کر کے دینے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔

عید قربان کاعظیم فلسفہ ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے پیرانہ سالی کی اپنی عزیز ترین اور اکلوتی اولاد حضرت اسماعیل ؑکو اﷲ تعالیٰ کے حکم پر قربان کرنے کا عزم کر لیا۔ حضر ت اسماعیل ؑ نے اﷲ کے حکم اور والد کی خواہش کے سامنے بخوشی سر تسلیم خم کیا۔اﷲ کی راہ میں قربان کرنے اور ہونے والی یہ ادا بے مثال تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے اسے تا قیامت سنت بنا دیا ۔ جس کے پاس استطاعت اور توفیق ہو ۔ وہ ہر حال میں قربانی کرے۔کہاں اپنی عزیز ترین اولاد کی قربانی اور کہاں ایک جانور کی قربانی۔کہاں پیغمبر کی قربانی اور کہاں ایک عام مسلمان کی قربانی۔ اﷲ تعالیٰ نیت دیکھتے ہیں۔ جانور میں کوئی کھوٹ ، نقص نہ ہو۔تندرست و خوبصورت ہو۔ خرید کر اس کی خدمت کی جائے۔ اس سے لگاؤ پیدا ہو۔ آج مہنگائی سے عوام کی قوت خرید متاثر ہے۔ سونا،ڈالر اڑان بھر چکا ہے۔ پٹرول ڈیزل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ہر چیز مہنگی ہے۔ منڈیوں میں لوگ خالص کاروبارکے لئے آتے ہیں۔مہنگائی انہیں زیادہ منافع کی لالچ دیتی ہے۔جیسے ہر کوئی موقع کی تلاش میں ہو۔ ویٹرنری ڈاکٹرز سے جانور کی صحت کے بارے میں این او سی بھی نہیں لی جاتی۔ اس کی فٹنس کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جاتا۔ تحصیل یا ضلعی انتظامیہ قیمتوں کا تعین کرنے کی جانب متوجہ نہیں ہوتی۔ انتظامیہ کا منڈی پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا۔ سب بے لگام ہو جاتے ہیں۔

عید کے بعدصورت حال مزید خراب ہوتی ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر۔ ندی نالوں ، سڑک کناروں پر تعفن۔ جانوروں کی آلائشیں پھینکنے کا مسلہ زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔اس سے آلودگی اور بیماریاں پھیلتی ہیں۔ کورونا کے اس دور میں یہ حفظان صحت کا مسلہ ہے۔ میونسپل اور بلدیہ حکام اس بارے میں بروقت اقدام یقینی بنا نے میں پیشگی اقدام یقینی بنا سکتے ہیں ۔ ٹرانسپورٹ کرایوں میں بھی عید سے قبل ہی من مانا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ مسافر گاڑیوں کی مصنوعی کمی پیدا کر دی جاتی ہے۔ یا بکنگ کا بہانا بنا یا جاتا ہے۔دیہی علاقوں کے لاکھوں لوگ بڑے شہروں میں کاروبار، ملازمت یا تعلیم کے سلسلے میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ لوگ عید پر اپنے گھروں کو جاتے ہیں۔ دور دور سے گھر آنے والے یہ لوگ لاری اڈوں اور پلیٹ فارموں پر درماندہ ہو جاتے ہیں۔شام کے بعد یہی لوگ ڈاکوؤں کے نرخے میں آ کرلوٹ لئے جاتے ہیں۔ لازمی سروسز میں امن و قانون قائم کرنے والے ادارے، محکمہ صحت کے اہلکار و طبی عملہ، میونسپل اور بلدیہ جیسے ادارے آتے ہیں۔ عوام الناس خود بھی مزید احساس کریں۔ ہر کوئی اپنی کوتاہی دوسرے کے سر ڈالنے اور دوسرے کی کارکردگی کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش نہ کرے۔ لوگ خود بھی احتیاطی تدابیر سے کام لیں، سب کام سرکار پر نہ چھوڑیں۔معاملہ فہمی سے ہر مسلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ٹرانسپورٹ مافیاکا کردار ہر عید پر سامنے آتا ہے۔ لاری اڈوں پر مسافر یرغمال بن جاتے ہیں۔ منہ مانگے اور اضافے کرائے۔ یہ معمول بن چکا ہے۔ متعلقین سنجیدہ ہوں تو اضافی مسافر گاڑیاں اور ٹرینیں چلا سکتے ہیں۔احساس اور ضمیربیدار ہوں تو عوام کی بہتری اور آسانی کے لئے ہر کا م کیا جا سکتا ہے۔ آرام دہ اور مناسب کرایوں پر عوام کو سفری سہولیات بہم پہنچانا بھی حکومت کا کام تھا۔تعلیم اور صحت کی طرح اب اس سے بھی دست برداری ہو رہی ہے۔ عوام پر ٹیکسوں پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ جب مفت علاج اور مفت تعلیم، شہری سہولیات نہیں تو یہ ٹیکس کیسے۔

حکومت کا کام منافع کمانا نہیں بلکہ عوام کو سہولیات دینا ہے۔عوام کی فلاح کے لئے کام کرنا ہے۔حکومتیں عوام کی خدمت کے لئے ہوتی ہیں ، اگر حکومتیں عوام کو اپنی خادم بنا دیں تو یہ نظام تباہی کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔نجی سیکٹر کا مقصدخدمت خلق کے بجائے صرف منافع کمانا نہیں۔ ہرکوئی کام میں اپنا نفع و نقصان دیکھتا ہے۔ یہ کاروباری مقاصد ہیں۔ اگر چہ نجی سیکٹر کے بعض شعبوں کا کردار خوش آئیند و قابل تعریف ہے۔ حکومت ہر ادارے کی نج کاری کر کے خود بری االزمہ نہیں بن سکتی ہے۔ہم سب میں حسب استطاعت خدمت خلق کا تصور پیدا ہو جائے تو یہ دنیا رہنے کی بہترین جگہ بن سکتی ہے۔ لیکن ابارباب اختیار نے اپنی کمپنیاں قائم کر لی ہیں۔ یہ گھوسٹ کمپنیاں ہیں۔ منافع بخش ادارے ان کمپنیوں کو فروخت کر کے قومی خزانہ کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔عید ہی نہیں بلکہ کسی بھی وقت عوام کو مافیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ عیدپر خصوصی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ امن و امان۔ صحت و صفائی۔ پولیس کا گشت۔ اضافی مسافر گاڑیا ں اور ٹرینیں۔ قربانی کے جانوروں کی آلائیشیں ٹھکانے لگانے کا مسلہ۔ بازاروں کا معائینہ۔ اضافی دام وصول کرنے والوں کے خلاف کارروائی۔ غیر مسلموں کے تہوار آتے ہیں تو وہ قیمتیں کم کر دیتے ہیں۔ خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ہر چیز نمبر ون ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے تہوار آتے ہیں تو ناجائز منافع خوری ایسے ہوتی ہے جیسے یہی ایام کمائی اور عوام کو لوٹنے کے ہیں۔عید پرسہولیات اور آسانیاں فراہم کرنے کے بجائے عوام کومشکلات میں ڈالنے والے شاید نہیں جانتے کہ’’ ان بطش ربک لشدیداً‘‘۔بے شک اﷲ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔مسابقت کے لئے ہر شعبہ میں سرکاری خدمات کی موجودگی لازمی ہے۔ اگرمعاشرے میں خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہو۔حقوق العباد، موت اور آخرت ، جزا و سزا کی فکر ہو، تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555056 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More