Thinking process کو جاری رکھنے کے لے ضروری ھے کہ ھم اپنے ذھن کی سکرین پر اٹھنے والے خیالات کو سمجھیں نہ کہ ان سے فرار اختیار کریں تاکہ اس تفکیری عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والی چیزوں سے بچا جاسکے۔ غوورفکر کرناانسان کا سب سے بڑا عمل ھے جس سے ھماری حالت ارتقاء پذیر رھتی ھے جمود کا شکار نہیں رھتے بصورت دیگر ھماری مثال کھڑے پانی کی سی ھے جس میں بہاؤ نہ ھونے کی وجہ سے تعفن پھیل جاتا ھے اس عمل کو جاری رکھنے کی ایک راہ یہ ھے کہ ھم آس پاس پھیلی چیزوں پر غور کریں اور ان سے جڑے رھنے کا پہلو اخذکریں جو ایک طرح سے عبودیت کا پہلو بھی ھے کہاجاتا ھے کہ کوئی یہ کہے کہ میں نہیں جانتا تو گویا یہ آدھا علم ھے اور یہ بھی کہاجاتا ھے کہ اگر آپ کسی بات کو نہیں جانتے تو آپ کہہ دیں للہ اعلم۔۔۔ ھم دیکھتے ھیں کہ باھمی گفتگو میں عام طور پر اکثریت سنانے کے لیے سنتی ھے باالفاظ دیگر ھم دوسرے کو یہ باور کرارھے ھوتے ھیں کہ مجھے سننے یا جاننے کی کوئی ضرورت نہیں یا مجھ سے کسی بات کا علم چھپا نہیں میں ھر مسئلہ کو خوب اچھی طرح جانتا ھوں تو ایسا طرز تفکیری عمل میں رکاوٹ بن رھا ھوتا ھے جس میں ھم اپنی لاعلمی کا برملااقرار نہ کرکے خود کو حصول علم میں غوروفکر سے روک رھے ھوتے ھیں اس تفکیری عمل میں احتیاط یا سنجیدگی انتہائی ضروری ھے اگر سنجیدگی اور احتیاط نہ ھو تو یہ سمجھنا چاھیے کہ وہاں حقیقی معنوں میں وہ چیز نہیں ھوگی جسکو غوروفکر سے حصول علم کہاگیا ھے کہاجاتا ھے کہ علم کی کوئی حدنہیں اس طرح حصول علم کی راہ میں غوروفکر کی بھی کوئی حد نہیں،لیکن اس کے لے وقت نکالنا اور ذھنی طور پر پرسکون رھنا بھی ضروری ھے ذھنی انتشار اور حد سے زیادہ مصروفیت اس تفکیری عمل کو جاری رکھنے میں مانع ھوتی ھیں اس عمل کی نشوونما اس صورت میں ھوتی ھے جب ھم اس کا عملی مظاھرہ کرنے کا حوصلہ رکھتے ھیں جس کے لے ضروری ھے کہ ھم خود احتسابی کریں تاکہ نئے نئے فکری پہلو کھل کر سامنے آسکیں اسلام میں تعلیم دی گئی ھے: کہ باطل کو ہلاک کرو اسکے بارے چپ رہ کے؛ اور کسی جگہ یہ بھی آیا ھے: کہ شر سویا ھوا ھے اسے سونے دو؛
ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسا طرزعمل بھی ھمارے اند ر تفکیری عمل کو تسلسل سے جاری رکھنے کا باعث بنتا ھے جس میں ھم اپنی روحانی اکانومی کو بچائے رکھتے ھیں جو خود کو تعمیر کرتے رھنے کے لے ضروری ھے
|