صدقے سے علاج کیجئے

وہ پیشے کے لحاظ سے طبیب تھا اور دمشق کے ایک ہسپتال میں حاضر سروس تھا۔ زندگی کیا تماشے دکھاتی ہے، ایک روز ہسپتال میں ہی اس کی طبیعت بگڑی چیک اپ ہوا تو اسے پتہ چلا کہ وہ ڈاکٹر ہونے کے باوجود کینسر کا مریض ہے یہ مرض اسے کب لاحق ہوا اسے کچھ خبر نہ تھی۔ زندگی کی تلاش میں وہ موت سے لڑنے لگا، کینسر کا علاج شروع ہوا تو ابتدائی رپورٹ نے اسے پریشان کر دیا اور اس کا مرض مسلسل بڑھ رہا تھا اور رپورٹ کے مطابق وہ چند دن کا مہمان تھا۔

زندگی اﷲ کی کتنی بڑی نعمت ہے اس روز ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے اسے معلوم ہوا اب کچھ ممکن نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ بستر پر لیٹے موت کا انتظار کرتا۔ زندگی کا سب سے بڑا کرب یہی ہے کہ انسان چارپائی پر لیٹے بے بسی میں موت کے دن کا انتظار کرے، یہی کچھ ڈاکٹر عیسیٰ مروزقی کر رہا تھا۔ اس کے لیے زندگی کی تمام رعنائیاں ختم ہو چکی تھیں خوشیوں کو غم نے مات دے دی تھی اور اسی غم میں پڑا وہ فکر مند رہتا تھا ایک روز اسی فکر مندی کے اندھیرے میں اسے روشنی کی کرن نظر آئی، زندگی پیاری لگی اور بیماری سے چھٹکارے کا ایک سبب نظر آیا۔

ڈاکٹر عیسیٰ نے پیارے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ’’داؤ امرضاکم بالصدقۃ‘‘ پڑھ رکھی تھی، اس شام اچانک وہ حدیث اسے یاد آ گئی۔ مایوسی کے عالم میں امید کی کرن روشن ہوئی تو اس نے فوراً اپنی دولت کا حساب لگایا بہت سی رقم اس کی بیماری میں خرچ ہو چکی تھی باقی کو اس نے صدقہ کرنا چاہا وہ ایک گھر جانتا تھا جس کا سربراہ اﷲ کو پیارا ہو چکا تھا اس گھر کے لوگ بڑی تنگ دستی کا شکار تھے، اس نے باقی ماندہ جمع پونجی ایک دوست کے ذریعے اس گھر میں پہنچا دی جو لوگ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے انہیں دعا کے لیے کہا، پندرہ بیس دن گزرے تو اس کے چیک اپ کا دن آ گیا وہ ہسپتال میں ڈاکٹروں کے بورڈ کے روبرو پیش ہوا رپورٹ آئی تو سب حیران تھے ڈاکٹر عیسیٰ کینسر کے موذی مرض سے نجات پا چکا تھا۔

یہ نہ صرف ڈاکٹر عیسیٰ کے لیے حیران کن بات تھی بلکہ ڈاکٹروں کا بورڈ بھی ششدرہ تھا تب ڈاکٹر عیسیٰ نے ان پریشان ڈاکٹروں کو بتایا کہ اس نے صدقے سے علاج کیا ہے پیارے نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’اپنے مریضوں کا صدقے سے علاج کرو‘‘ یہ حدیث اسے تب یاد آئی تھی جب وہ زندگی سے ناامید ہو چکا تھا موت اس کا مقدر تھی اور وہ اس کا منتظر، لیکن فرمان نبوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم پر عملدرآمد سے سب کچھ بدل گیا۔ یہ آج کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ ہے جو چودہ صدیاں قبل محمد عربی کے قول کی صداقت پر مہر ثبت کرتا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پیارے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے نکلا ہر لفظ صداقت پر مبنی ہے جو کسی کی وکالت کا محتاج نہیں لیکن ہمارا المیہ ہے کہ دنیا کی بدلتی حالت اور چکا چوند روشنی نے ہمیں ایمانی حالت میں کمزور کر دیا ہے ہم فرامین رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم پر یقین رکھتے ہوئے بھی آزمانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ظاہری اسباب اور بیماری میں ڈاکٹر سے رجوع دانشمندی ہے لیکن یہ بھولنے نہ پائے کوئی ایسی ذات بھی ہے جو بغیر دعا کے بھی شفا دیتی ہے۔ لیکن ہم کیا کریں کہ ہم اس روشن مینار کو دیکھ کر بھی اندھیروں میں کھو جاتے ہیں۔

نشیب و فراز انسانی زندگی کا حصہ ہیں غم اور خوشی، صحت اور بیماری لازم و ملزوم ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی کسی بھی الجھن، دکھ اور درد، بیماری سے نجات اور پریشانی سے چھٹکارے کے لیے شریعت محمدی کی طرف رجوع کیا؟ یہ سب وہ بیماریاں ہیں جو سب کو لاحق ہوتی ہیں کیا ہم نے ان سے بچنے کے لیے اختیار کئے جانے والے اسباب و ذرائع ہیں اسلام کو فوقیت دی ہے اپنی درد کا علاج فرمان محمدی میں ڈھونڈا؟ اپنی پریشانی کے مداوے کے لیے قرآن کا مطالعہ کیا؟ ان سوالوں کے جواب میں یقیناً بہت سے سر انکار کی صورت میں ہلیں گے تو یہ سچ نہیں کہ پھر ہم بے یقینی کا شکار ہیں روشنی چھوڑ کر تاریکی میں کھوئے ہیں ہمارے ہسپتالوں میں لاکھوں ہزاروں روپے علاج پر خرچ کر کے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن صدقہ کرنا حماقت سمجھتے ہیں ہم تقریبات میں منوں کھانا ضائع کر دیتے ہیں لیکن کسی غریب کے منہ کا لقمہ نہیں بننے دیتے، کہتے ہیں کہ انسان کا مال وہی ہے جو اس نے کھا لیا یاپہن لیا باقی تو دوسروں کا ہے انسان مرنے کے بعد سب کچھ چھوڑ جاتا ہے گھر، کار، سرمایہ، کاروبار اور بنک بیلنس یہ دنیا کی چیزوں کے نام ہیں جو مرنے کے بعد دوسروں کا مال ہوتا ہے انسان کو آخرت میں وہی کچھ ملے گا جو دنیا میں اپنے ہاتھ سے آخرت کے لیے بیج چکا ہو گا ہم دنیا میں یہی مال جمع کرتے ہیں دکھ تکلیف اٹھاتے ہیں بیمار ہوتے ہیں لیکن صدقہ نہیں کرتے، دوسروں کے دکھ درد دور کرنے میں ہی اپنا سکھ ہے یہ جان کر بھی ہم انکار کرتے ہیں، صدقہ و خیرات نہ صرف دینے والوں کو غنی بناتا ہے بلکہ ملنے والوں کے لیے بھی راحت کا سامان بنتا ہے آج دیکھئے معاشرے میں بدحالی کسمپرسی اور غربت کا ہر آدمی شکار ہے بیماریوں سے ہسپتال بھرے پڑے ہیں اور بھکاریوں سے سڑکیں، ایسا کیوں ہے اس لیے کہ صدقہ کا فقدان ہے ہم دیکھیں کہ اپنے گلی محلے میں سب سے اہل درد مل جائیں گے ان کے درد مند چہرے مدد کے منتظر ہوتے ہیں ان کی نگاہیں ہماری طرف اٹھتی ہیں اگر مصیبت کی اس گھڑی میں ہم نے ان کا ہاتھ تھاما ہوتا تو وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہم انہیں بھولے ہیں جو پریشانیوں کا شکار ہیں، شائد انہیں کی پریشانیوں کے مداوے میں ہمارا سکھ ہو۔
غم بانٹنے کی چیز نہیں پھر بھی دوستو

 

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 58898 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.