گھبراہٹ ایک جانی انجانی سی انسانی بحرانی کیفیت کا نام ہے ۔ عمرانی نظریات کے تناظر میں گھبراہٹ کی اصطلاح لا فانی شہرت اور لا ثانی معانی رکھتی ہے ۔ اکتاہٹ، ہچکچاہٹ، کپکپاہٹ، جھنجھلاہٹ ،بوکھلاہٹ اورچڑچڑاہٹ سب گھبراہٹ کے ہم منصب وہم پلہ الفاظ ہیں ۔گھبراہٹ کی علامات میں درد کے ہمراہ سر کا چکرانا ، پھیپھڑوں کا پھڑپھڑانا،دل کا بیٹھنا،ڈوبنا یا بڑھ جانا ،شکم کا سکڑنا ،ناک کا چڑھ جانا یا پھر کٹ جانا،آنکھ کا بھر کر جھک جانا ،کانوں اور دانتوں کا بجنا ، بالوں کا کھال اتروانا،بلڈ کا پریشر میں آجانا، شوگر کا کم یا ناپید ہو جانا،نزلے کا گرتے ہی رہنا ، خون کا چراغ لیکر ڈھونڈھنے سے بھی نا مل پانا ،سانس کا پھولے نا سمانا،رال کا شدت سے ٹپکنا،نظریں دوسروں پر جمائے دستِ حسرت ملتے رہنا اپنے پرائے سب پہ لعن طعن جاری رکھنا شامل ہیں ۔
آئیے اب گھبراہٹ کی چند اقسام کا جائزہ لیں ۔
سیاسی گھبراہٹ :
اربابِ سیاست کے ہاں اقتدار کا کاسہء چشمِ حریصاں دائمی گھبراہٹ کا موجب بنا رہتا ہے ۔اقتدار کی عدم دستیابی اور حصول کی جدو جہدہوس نصیبوں کو احتجاج اور دھرنوں تک لے جاتی ہے جو انتظامیہ کیلئے گھبراہٹ کا باعث بنتے ہیں ۔جبکہ اقتدار ملنے پہ گھبراہٹ بھی ورثے میں مل جاتی ہے ۔
اتحادیوں کے ناز اٹھانا،جچ کا کوئی دھندہ نا کرپانا ، مس مینیجمنٹ اور نا اہلیوں کے مظاہرے کرنا اوروعدہ خلافیوں پہ عوام کا طیش میں آنا سیاسی گھبراہٹیں ہیں ۔تاہم سرکاری سطح پر گھبرانے کی سخت ممانعت کی جاتی ہے ۔
معاشی گھبراہٹ :
گھبراہٹ کی سب سے بڑی قسم معاشی گھبراہٹ ہے جو باقی تمام گھبراہٹوں کی ماں ہے ۔ قائدین ِ عوام و ملت ،قائدِ قلت بن کر عوام روسٹ بجٹ پہ اتر آتے ہیں ۔
پھر ہاتھ باگ پہ رہتا ہے نہ پا رکاب میں ۔ روز گار جاتے رہتے ہیں اور بات خیرات و لنگر خانوں تک پہنچ جاتی ہے ۔ غربت و بے روزگاری ختم ہونے کی بجائے تیل،آٹا چینی ختم ہونے لگتے ہیں ۔ امیر غریب،خواندہ نا خواندہ سب ایک ہی صف اور لائن میں کھڑے نظر آتے ہیں ۔ پھر مردِ بحران کی جانب سے قبر میں سکون کی خبر آنے لگتی ہے لیکن ان حالات میں گھبرا کر مرنے پر بھی تحفظات ہیں کیونکہ قبر کی زمین کا پتھریلی ہونا بھی مقدر ہے ۔
مگر پھر بھی نا گھبرانے کی نصیحتوں ،دلاسوں اور لاروں سے فضائیں مکدر رہتی ہیں ۔ معاشی گھبراہٹ کے دو پہلو نمایاں ہیں ۔با ہمت لوگ چپ سادھ لیتے ہیں اور بقول خواجہ غلام فرید ،، اندر و اندری وگدا ریندا پانی درد حیاتی دا ،، ۔ دوسرے پہلو میں گھبراہٹ لمحہ بہ لمحہ متاثرین کا ” تراہ “ نکالے رکھتی ہے ۔میرے خیال میں آ ج ظالم حکمران کے سامنے کلمہء حق کی بجائے کچھ گھبرا لینا بہترین جہاد ہے ۔
کیونکہ پچھلے کئی برس سے وزیر اعظم قوم کو حکومتوں کے خلاف گھبرانے پہ مسلسل اکساتے رہے ہیں ۔ اب پاکی داماں کی حکایات کے تنائج کو بھگتنے میں گھبرانے سے روکنا مناسب نہ ہے ۔
دائمی و آبائی گھبراہٹ :
غریب اور مفلس پوری زندگی اس کا شکار رہتے ہیں اور نسل در نسل گھبراہٹ کی اقدار کی منتقلی جاری رہتی ہے ۔ان کے ہاں آبادی کے سوا تمام ضروریات کی کمی رہتی ہے ۔
ایسے طبقات حکومت ،معاشرہ اور خاندان کے مقابل ہمہ وقت زجروتوبیخ،طعن و تشنیع اور دشنام طرازی کی خاطر مورچہ زن ہوتے ہیں ۔ان کو بھی صاحبانِ اذیت نا گھبرانے کی فضیحتیں کرتے رہتے ہیں ۔ حیرت ہے کہ اتنی وباؤں،کسمپرسی،غربت اور خاص کراتنے انسانوں کے ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ نہ صرف دھڑلے سے زندہ ہیں بلکہ ان میں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ بھی جاری ہے ۔
وبائی گھبراہٹ :
ماضی کے ادوار حکومت میں افسانہ غم پہ ہنسنے والوں کے کاجل نکل کر بہنے کے دن آ پہنچے ہیں ۔ تماشہ دیکھنے والے خودسراپا تماشہ بنے ہوئے ہیں ۔کون سی آفت ہے جو اب کے برس نہ ٹوٹی ہو ۔پوری دنیا وبا ء سے خائف ہے پر یہاں اسے لفٹ نہ کرانے اور نا گھبرانے کا جہاد جاری ہے ۔خاکم بدہن سرکار تو گویا وباء کی معراج کی منتظر لگتی ہے تاکہ ان کی کارکردگی، اہلیت اور گورننس پر اٹھنے والی انگلیاں کٹتی رہیں اور انہیں ریلیف ملتا رہے ۔
وباء نے دھندے چوپٹ کردئیے۔ چھینک پہ کبھی الحمدللہ پڑھا جاتا تھا اب چھینک آنے پہ استغفراللہ کا ورد ہوتا ہے ۔غریب کی سانس اکھڑ گئی مگر گھبرانا منع ہے ۔لگتا ہے چند روز تک گھبرانے پہ قانون حرکت میں آیا کرے گا ۔کرونا کے ساتھ ٹیسٹ کٹس سے گھبراہٹ کے ٹیسٹ بھی لئے جائینگے اور مثبت آنے کی صورت میں غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے ۔آخر نیب پر اربوں روپے خرچ کرنے کے ثمرات و نتائج بھی تو ضروری ہیں ۔
احتسابی گھبراہٹ :
ہر کمال کے بعد زوال کی آمد گھبراہٹ بھی ساتھ لاتی ہے ۔یوں شاہانِ ماضی اپنے گھروں،جیلوں،عدالتوں یا پھر پیرنِ ملک جاکر مشقِ ستم جھیلتے ہیں ۔سرکارانِ حاضرہ اور نیب اس گھبراہٹ کا مرکز و منبع ہوتی ہیں ۔کئے گئے کار خیر و شر کا حساب دینے میں گھبراہٹ کا ہونا فطری امر ہے ۔دفاع کے بعد سب سے زیادہ بجٹ چورپکڑنے پہ رکھا گیا ہے ۔
مزے کی بات ہے ایک سو روپے کی ریکوری پر دس ہزار خرچ کئے جا رہے ہیں ۔اب کہا جاسکتا ہے کہ تبدیلی اور احتساب بہترین انتقام ہیں ۔کبھی بی بی بھی جمہوریت کو انتقام کا نام دیتی تھیں۔
تعلیمی گھبراہٹ :
مہذب اقوام کے ہاں سب سے زیادہ بجٹ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے ۔اپنے ہاں یہ اعزاز دفاع کو حاصل ہے ۔ اس بار ۷۳ کھرب کے بجٹ میں صرف چار ارب تعلیم کے حصے میں آیاہے۔
مگر گھبرانے کی ضرورت ہرگز نہیں ۔ کیونکہ معلمین تو گھروں میں بیٹھے فاختہ اڑا رہے ہیں ۔تنخواہوں میں اضافہ کیسا؟ ۔ تاہم گھبرانے کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنی تنخواہ دو لاکھ سے آٹھ لاکھ کروا لی جبکہ اراکین پارلیمنٹ بھی دو سو فیصد اضافہ لے اڑے۔ معیشت ڈوبی ہے تو کسی سطح پر اضافہ جچتا نہیں ۔حکومت نے جو سلوک تعلیم سے روا رکھا ہے ،انتہائی ہولناک ہے ۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر شہنشاہ جاپان کے سامنے شرائط کے دستاویزات رکھے گئے تو صرف ایک ہی سوال پوچھا” اس میں کوئی شق ہمارے نظامِ تعلیم کے خلاف تو شامل نہیں؟ ۔اور اپنے ہاں نیب اور دفاع سے آگے کچھ بھی نہیں ۔ پھر بھی گھبرانا منع ہے ۔
روحانی گھبراہٹ :
ہمارے سماج کا روحانیت سے چولی دامن کا واسطہ ہے ۔ہر صاحب اقتدار کہیں نہ کہیں اپنی کامرانیوں میں روحانیت کا سہارا لیتا رہا ہے ۔
اس حوالے سے بہت سے صاحب کرامت پیر ،مرشد اور ایک پیرنی قابلِ ذکر ہے ۔ ماضی میں جنات سے بجلی پیدا کرنے اور خوابوں سے انقلاب کی خوش خبریاں عام ہوئیں ۔موجودہ سرکار بھی روحانیت کے بطن سے مولود ہے اور اندر ہی اندر چلوں، استخاروں اور تعویزوں سے کار ہائے ریاست چلانے پہ یقین رکھتی ہے ۔تاہم اب عوام محض ما وراطبیعات سے ہٹ کر کچھ ہوتا آنکھوں سے دیکھنامانگتے ہیں اور سخت روحانی گھبراہٹ کا شکا ر ہیں ۔
جہالت کی گھبراہٹ :
پوری قوم کو نا گھبرانے کا حوصلہ دینے والی سرکار کوآخر کار اسی قوم کی جہالت کی بابت خود گھبراہٹ کا عارضہ لا حق ہو چکا ہے ۔ تعجب ہے گذشتہ بائیس سال سے چلی آرہی مظلوم،محروم مگر باشعور قوم ان دو برس میں ظالم اور جاہل کیسے ہوگئی ؟۔پہلے حکمران جاہل اور کرپٹ تھے اور عوام دیانت و شعور کا منبع تھے لیکن شومئی قسمت سے آج حکمران دیانت اور عوام خیانت و جہالت کی علامت ہیں ۔
گھبراہٹ کا علاج :
آئیے اب ذرا گھبراہٹوں کے علاج کی بات کریں ۔ اربابِ بست وکشاد کے مطابق ان گھبراہٹوں کامجرب اور نایاب نسخہ یہ ہے کہ کبھی بھی کسی بات پہ گھبرایا ہی نہ جائے ۔جملہ آلام و مصائب پہ گھبرانے کی خوئے بد کلیتاََ ترک کردی جائے ۔تمام مسائل کے موجب سابقہ ادوار کو مانا جائے اور ہر شہری کو اپنے
سامان،کاروبار، اہل وعیال،مستقبل ، صحت اور آخرت کا خود ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
مستزاد حکومت ِ وقت کوصدقِ دل سے بے عیب اور دیا نتدار تسلیم کیا جائے ۔ لیکن اب عوام گھبرانے کی اجازت طلب کرنے پہ مجبور ہیں اور گھبراہٹ کا مرض لا علاج ہونے کے قریب ہے ۔ جب کرپٹ حکومتوں میں لوگوں کا روزگار سلامت اور ایماندار سرکار میں لُٹنے لگے تو گھبرانا مستحب ہو جاتا ہے ۔ جب آدمی پیسے جیب میں لیکر بھی اشیائے ضروریہ نہ خرید سکے تو گھبرانا لازم ہوجاتا ہے ۔جب دفاع کا بجٹ ،تعلیم اور صحت کے بجٹ سے سینکڑوں گُنابڑھ جائے تو گھبرانا فرض کفایہ ہو جاتا ہے ۔ جب با اختیا ر جواب دہ نہ ہوں اور جواب دہ با اختیار نہ رہیں تو گھبراہٹ واجب ہوجاتی ہے اور جب روٹی بندے کو کھانے پر اتر آئے تو گھبرانا فرضِ عین ٹھہر جاتا ہے ۔
|