آپ کو اپنی حیات میں لاتعداد لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے. بعض لوگوں سے واسطہ نہیں بلکہ ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوتا ہے. یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا مقام آپ کی نظروں میں بہت زیادہ ہوتا ہے. آپ ان کی شخصیت، کردار، اخلاق، سوچ گو کہ ہر حوالہ سے ان کے گرویدہ ہوتے ہیں. بعض ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کی قدر پہلے آپ کی نظروں میں کم ہوتی ہے . لیکن ان سے ملاقات کے بعد آپ کی سوچ بدل جاتی ہے. یوں وہ خوش نصیب لوگ آپ کی نظر میں قابلِ قدر ہوجاتے ہیں. اب ان کی سوچ، ان کا کردار آپ کو بھانے لگتا ہے .
لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ آپ کو پہلے پہل اچھے معلوم ہوتے ہیں. لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی قدر کھو دیتے ہیں. اب آپ ان لوگوں کو ملنا بھی گوارا نہیں کرتے ہوں گے. در اصل وہ لوگ اب آپ کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتے. ان کے خیالات ہمیں ان سے مزید دور لے جاتے ہیں. لیکن پھر بھی ہم انھیں برداشت کرتے ہیں. ان سے سلام دعا کا تعلق تو بہر حال رکھتے ہیں. ان سے بسا اوقات میل جول بھی ہو جاتا ہے. لہٰذا اگر آپ اس نوعیت کے تعلقات کو بھی نبھانا جانتے ہیں، تو درحقیقت آپ معاشرے میں اچھی اور بہترین ذہنیت کے لوگ ہیں. کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں. وہاں رنگ برنگے مختلف سوچ کے حامل افراد موجود ہوتے ہیں. یہ ضروری نہیں کہ ہر فرد کی سوچ آپ کی سوچ سے مماثلت رکھتی ہو. لیکن بطور انسان ہمارا اصل امتحان بھی یہ ہے کہ ہم ہر سوچ کے حامل افراد کو عزت دیں اور ان کی بات سنیں.
مزید یہ کہ اگر آپ کو لوگوں کی باتیں بھلی معلوم نہ ہوں تو نظر انداز کر دیں. ہمارے استاد محترم کہا کرتے تھے کہ کبھی تم نے غور کیا ہے کہ ﷲ نے یہ دو کان کیوں دیے ہیں؟ کیونکہ وہ ﷲ تمام جہانوں کا مالک ہے. اس نے ہی ہمیں بنایا ہے. وہ تو دو سے زائد یا دو سے کم کان پر بھی قادر تھا. تو پھر دو ہی کیوں؟ اس کا جواب وہ بہت دلچسپ دیتے تھے. وہ کہا کرتے تھے کہ ﷲ نے انسان کو دو کان اس لئے دیے ہیں کہ اگر خلاف سوچ یا خلاف طبیعت کوئی بات کرے تو اس کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دے. یعنی کہ اس کی باتوں کو سنجیدہ نہ لو، اور درگزر کردو.
مجھے آج بھی ان کی یہ بات ذہن نشین ہے، اور اگر آپ بھی ذہن نشین کرلیں گے تو فائدہ ہوگا . کیونکہ آج کل ہر کوئی اپنے متضاد، مخالف باتوں یا مخالف افکار کو سنجیدہ لے جاتا ہے. نیز اس کو اپنی انا کا مسئلہ سمجھتا ہے، اور پھر ایک طوفان بدتمیزی جنم لیتا ہے. وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی حرص میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور تنقید برائے تنقید کا آغاز ہوتا ہے. جس کو باقی لوگ خوب شوق سے دیکھتے ہیں اور ان کی اس بحث و تکرار سے محظوظ بھی ہوتے ہیں.
ایسی ہی صورتحال ہمیں آئے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر اور فیس بک المعروف فیک بک پر یا پھر ٹیلی ویژن پر بھی دیکھنے کو ملتی ہے. جب ایک مخالف دوسرے مخالف کے در پے ہوتا ہے، اور اس دوران گالیوں اور فحش گوئی کا استعمال عام ہوتا ہے. بنیادی طور پر یہ بیماری عدم برداشت ہے. لہٰذا اس بیماری کو ختم صرف برداشت سے ہی کیا جاسکتا ہے. کیونکہ معاشرہ اس بیماری کی بدولت عجیب کشمکش کا شکار ہے. ہر کوئی جھوٹ، فریب اور دوسرے طریقے استعمال کر کے ایک دوسرے کی کردار کشی میں محو ہے.
اگر ہم سیاسی حوالے سے بات کریں تو حزب اختلاف، حزب اقتدار کے خلاف اور حزب اقتدار، حزب اختلاف کے خلاف جھوٹی اور من گھڑت سازشوں میں مصروف ہے. اس سلسلے کو طول وہ لوگ دیتے ہیں جن کی سوچ ان جماعتوں سے مماثلت رکھتی ہے. کیونکہ وہ چھوٹی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف لفظی جنگ چھیڑ لیتے ہیں. نیز یہ کہ عدم برداشت ہی عدم استحکام کو جنم دیتا ہے. اگر ہم برداشت سے کام لیں اور خوش اسلوبی کے ساتھ اختلافات کو لے کر چلیں تو اس سے ہمارا معاشرہ پر امن اور پر وقار ہوگا. یقیناً جب معاشرہ پر امن ہوگا تو ملک بھی پر امن ہو گا.
ویسے بھی ہمارا ملک، پاکستان دوسرا ایسا ملک ہے جو کہ اسلام کی بنیاد پر طلوعِ آفتاب ہوا ہے. جس کے بانی کا مقصد یہ تھا کہ اس ملک میں آزاد لوگ آباد ہوں . نیز جب ہم آزاد ہیں تو پھر ہم ایک دوسرے کے افکار پر کدگنیں کیوں کر لگا سکتے ہیں. کیونکہ ہر انسان اس مملکت آزاد میں آزاد سوچ کا حامل ہے اور اس سوچ کے مطابق زندگی گزارنے کا حقدار ہے. ہمیں چاہیے کہ معاشرے اور ملک سے اس بیماری کا خاتمہ کریں اور اس بیماری عدم برداشت کی اینٹی ڈوز برداشت کو اختیار کریں.
|