حق و باطل کی آویزش روز ازل سے جاری ہے اور تابہ ابد جاری
رہے گی کائنات انسانی کا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں باطل اپنے مادی
اسباب کی فراوانی کی رعونت میں مبتلا ہوکر نار نمرود میں عشق براہیمی کو
خاکستر کرنے کی ناپاک کوشش نہ کرتا ہو مگر نیلگوں آسمان کو وسعتیں عطا کرنے
والا پروردگار،حیرت کدہ عالم میں موجود دانش کدوں کو نیر نگی دوراں کی بو
قلمونیوں کی نئی جہتوں سے روشناس کرواتے ہوئے آگ کو گلزار بناکر تیرگی شب
سے ایسی شمع فیروزاں کرتا ہے کہ جس کی لمعانیت سے چار دانگ عالم منور ہوتا
چلا جاتا ہے اور یہی اس کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے کہ ثبات اور دوام صرف
اور صرف خلاق عالم کو ہے ۔آیا صوفیہ بھی انہی نشانیوں میں سے ایک ہے جسے
تعمیر، اسلام دشمنی کے مرکز کے طور پر کیا گیا مگر یہاں سے سطوت اسلام کے
زمزمے بہنے لگے ۔
آیا صوفیہ کی تعمیر کے حوالے سے مفتی اعظم جناب مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
’’جہان دیدہ ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ
’’آیا صوفیہ کی بنیاد تیسری صدی عیسوی میں اسی رومی بادشاہ قسطنطین نے ڈالی
جو روم کا پہلا عیسائی بادشاہ تھا قسطنطین نے اس جگہ سن 360ء میں ایک لکڑی
کا بنا ہوا کلیسا ء تعمیر کیا ،چھٹی صدی میں یہ کلیساء جل گیا تو اسی جگہ
قیصر جسٹینین نے 533ء میں اسے پختہ تعمیر کرنا شروع کیا اور اس کی تعمیر
پانچ سال دس مہینے میں مکمل ہوئی ،دس ہزار معمار اس کی تعمیر میں مصروف
ہوئے ، دس لاکھ پاؤنڈ خرچ آیا اس کی تعمیر میں قیصر نے دنیا کے متنوع سنگ
مرمر استعمال کئے چنانچہ خریجہ کا سفید،لکونیا کا سبز، لبیا کا نیلا،سلٹک
کا سیاہ،اور باسفورس کا سیاہ دھاری والا سنگ مرمر ،مصر کا سنگ تارہ اور سنگ
سماق منگواکر استعمال کیا‘‘۔
جہاں تک قسطنطنیہ (بازنطین)پر اسلامی لشکر کشی کا تعلق ہے تو اس سے پہلے
ضروری ہے کہ اس وقت کے عالمی تناظر کوبھی مختصراً مدنظر رکھنا چاہئے جس کی
صرف ایک مثال سے سارے منظر نامے کا اندازہ ہوجاتاہے کہ اس واقعہ سے کچھ
عرصہ قبل اسلامی علوم و فنون کی آماجگاہ اندلس کے سقوط کے بعد سے فتح
قسطنطنیہ تک طلیطلہ کی فقید المثال جامع مسجد کو گرجا بنادیا گیا ، قرطبہ
کی عظیم الشان درسگاہ اور جامع مسجد کو کنیسہ کادرجہ دیئے جانے سمیت
تقریباً 3000 مساجد کو جبراً مسلمانوں سے چھین کر کنیسہ ،گرجا گھر ،عجائب
خانہ ،اسطبل اور سرائے میں تبدیل کردیا گیا تھا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری تھا
۔
آیا صوفیہ عیسائی فرقہ آرتھو ڈوکس کلیساء کا عالمی مرکز اور عالم اسلام کے
خلاف سازشوں،ریشہ دوانیوں کا سب سے بڑا گڑھ تھا اور اس کا مسخر ہونا بہت
ضروری تھااس کے ساتھ ساتھ قسطنطنیہ کے متعلق بہت سی احادیث بھی ملتی ہیں جن
میں اس جہاد میں شرکت کرنے والوں کو بشارتیں دی گئی ہیں اور تقریباً ہر
مسلم خلیفہ کی کوشش رہی کہ یہ مقدس فریضہ ان کے دورحکومتمیں ادا ہوجائے
چنانچہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے دور میں فتح قسطنطنیہ کی غرض سے لشکر کشی
شروع ہوئی ،سب سے زیادہ حملے اموی دور حکومت میں ہوئے ،دوبار عباسی دور میں
بھی محاصرہ کیا گیا ، مگر یہ سہرہ ساتویں عثمانی سلطان ،سلطان محمد فاتح
علیہ رحمت کے سر سجااور اس نے 29ء مئی 1453ء کو ایک طویل محاصرہ اور شدید
جنگ کے بعد قسطنطنیہ کوفتح کرلیا اس وقت سلطان محمد فاتح کی عمر 22سال
تھی(موجودہ دور کے نوجوانوں کی لئے یہ ایک عمدہ مثال ہے جن سے آخر تک یہ
فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ زندگی کو کس شعبہ کیلئے کس نہج پر وقف کیا جائے )اور
یہ واقعہ پندرھویں صدی عیسوی کے وسط میں پیش آیا،یہ جنگ کیسے ہوئی، کن
مراحل سے گزری ، شہادتیں کتنی ہوئیں ،اس کی طوالت کتنی تھی ،اسلام اور کفر
کا یہ تاریخی اور دور اثر معرکہ کیسے سر ہوا ؟اس پر مستقل کتابیں موجود ہیں
جن سے استفادہ کرنا تقویت ایمان کا باعث ہے ۔
آیا صوفیہ چونکہ تعمیر اور ابتداء کے لحاظ سے کلیساء تھا اور بعد میں اسے
مسجد میں تبدیل کیا گیا تو اس پر میڈیا میں زور و شور کی بحث جاری ہے اور
دونوں طرف دلائل کے ابنار لگا ئے جارہے ہیں لیکن کچھ چیزیں ابہام میں ہیں
جن کی عقدہ کشائی ضروری ہے جس میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ فتح کی دو
صورتیں مروج ہیں ایک تو صلح کے ذریعے فتح جیسے بیت المقدس کی فتح اور دوسری
بزور شمشیر اب ان کے چند احکامات بھی مختلف ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ صلح
کے ذریعے فتح کے بارے میں علماء کہتے ہیں کہ فریقین کے درمیان ہونے والے
معاہدے کی بہر صورت پاسداری ضروری ہے لیکن بزور شمشیر مسلم حکمران کو تصرف
اور عبادت گاہوں کو ان کی حالت میں برقرار رکھنا دونوں ہی اختیار حاصل ہوتے
ہیں تاکہ حالات کے مطابق بہتر فیصلہ ہوسکے ۔
دوسری اہم بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ عیسائیوں کے ہاں اپنی عبادت گاہ کو
فروخت کرنا جائز ہے جس کی قدیم اور جدید میں بے شمار مثالیں موجود ہیں اور
شنید یہ بھی ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں یورپ میں تقریباً 300کلیساء خرید کر
مسلمانوں نے مساجد میں تبدیل کردی ہیں ۔
تیسری اہم بات آثار قدیمہ کے عالمی اصولوں کے مطابق تمام قدیمی عمارتیں اور
نوادرات اس ملک کی ملکیت ہوتے ہیں جہاں وہ پائے جاتے ہیں ۔
چوتھی بات اگر کسی عبادت گاہ کے ماننے والے ملک بدر کردیئے جائیں یا جنگ
میں مارے جائیں تواس بات کی گنجائش موجودہے کہ اسلامی حکومت اس عمارت کو
افادہ عام کے کسی بھی سلسلہ میں استعمال کرسکتی ہے۔
پانچویں بات سلطان محمد فاتح نے کلیساء کی چیزوں اور نشانیوں کو ختم نہیں
کیا تھا بلکہ عبرت کیلئے محفوظ کردیا تھا تاکہ آنے والی نسلوں کو عہدرفتہ
کی یاد تازہ رہے وگرنہ میوزیم بنانے والے نوادرات باہر سے لائے جاتے اور وہ
آیا صوفیہ کے متعلق نہ ہوتے۔
چھٹی بات ترکی میں مقیم پاکستانی نژاد صحافی رانا فیصل صاحب نے فون پر
بتائی جن سے رابطہ مولانا ذیشان محمود کے ذریعے ہواکہ کمال اتاترک نے آیا
صوفیہ کو بند کیا تھا، 6مرتبہ ترکی کے وزیر اعظم رہنے والے عصمت انونو ،نے
ایک مبینہ خط کو کمال اتاترک کی طرف منسوب تھا کو بنیاد بنا کر 1939ء میں
میوزیم بنایا اور حال ہی میں دانش تائے میں دائر کی گئی پٹیشن میں جہاں آیا
صوفیہ کو مسجد کی حیثیت سے بحال کرنے کی دیگر وجوہات ذکر کی گئی تھیں وہاں
اس کو بھی بطور خاص ذکر کیا گیا تھا۔
بہر حال آیا صوفیہ تقریباً ایک ہزار سال چرچ ،پونے پانچ سوسال مسجد، 85سال
میوزیم رہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر توحید و رسالت کے زمزموں سے گونج اٹھی ہے
اور اس گونج نے جہاں اسلام دشمن قوتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں وہیں نفاذ
اسلام کی جانب بڑھتے قدموں میں ایک نئی تازگی اور روح پھونک دی ہے ،یہ ایک
پیغام بھی ہے ان شر کی طاقتوں کیلئے جواپنے مادی اسباب کی برتری کے گھمنڈ
میں اسلام کو مٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کوئی انہیں خبر
کردے کہ اﷲ اکبر کی صداؤں کو ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دنیا کا مقدر یہی
ہے اور یہ ایک خوشخبری بھی ہے ان صف شکن ،جفاکش لوگوں کیلئے جن کے آنسو اور
خون پچھلی ڈیڑھ صدی سے پانی سے زیادہ ارزاں ہوچکا ہے ، پچھلی چار صدیوں میں
عموماً اور ڈیڑھ صدی میں خصوصاًعالم اسلام پر چھائے ظلم و ستم کے بادلوں کے
چھٹنے کا وقت ہوا چاہتا ہے کوئی جائے اور جاکر اس آخری ڈیڑھ صدی میں جرم
کلمہ گوئی کی پاداش میں شہید ہونے والوں کی قبروں پر جاکر صدا لگا دے کہ
تمہارے لہو نے رستہ بنا دیا ہے ۔ |