خون سے سینچی گئی آزادی

~حیا ضُحیٰ~
کراچی
***

وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَءِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد
(ابراہیم ۱۴:۷)

"اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر تم شکرگزار ہو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔"

الحمدللّہ مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں۔ میری پہچان, میری شان, میری آن اسی لفظ "پاکستانی" سے جڑا ہے. اس سے میرا وہ خوبصورت تعلق ہے جو گلوں کا مہکنے سے, تتلی کا پروں سے اور کسی بھی انسان کا اپنے نام سے. مجھے یہ شناخت میرے آباء نے ایثار کی وہ لازوال داستانیں رقم کرکے دی ہے جسے تاریخ میں سنہرے لفظوں سے لکھا گیا. ان کی جدوجہد, لگن, محبت اور قربانیوں کی لاج رکھنا, اس پہ فخر کرنا میرے لیے اتنا ہی اہم جتنا ہم اپنے آباء کے چھوڑی ہوئی وراثت پر اپنا حق جمانا سمجھتے ہیں.

سورۃ ابراہیم کی یہ آیت جھنجھوڑتی ہے کہ کیا ہم آزادی جیسی نعمت کے لیے شکر گزار ہیں؟ کیا ہمارے رویے یہ پیغام دیتے ہیں کہ جس مقصد کے لیے آزادی حاصل کی گئ ہم ان پہ کاربند ہیں؟

کتنے فخر سے ہم ہر چودہ اگست یہ نعرے لگاتے تھکتے نہیں ہیں کہ "ہاں ہم آزاد ہیں".... اس عام سے جملے میں میرے لیے ہر سال ایک خاص سوال چھپا ہوتا ہے. " کیا واقعی میں ہم آزاد ہیں؟"

اور جب اس کا جواب مثبت ملتا ہے تو میرا دل تاریکی میں ڈوب کر سوال کرتا ہے کہ کیا آزادی کے معنی اس نسل کے لیے بدل گۓ ہیں؟ جس آزادی کا تصور کرکے جشن مناۓ جاتے ہیں اس آزادی کی اصل روح سے یہ قوم واقف بھی ہے یا صرف خالی خولی نعرے لگا اور ترانے گا کر رہ جاتی ہے. جس آزادی کو ہم آج جی رہے ہیں کیا اس کی منزل یہی ہے جس کی جستجو کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے لہو سے مٹی کو رنگا تھا.

یہ سبز چمن تو ان لوگوں کے سرخ لہو کا ثمر ہے جو آزاد دیس کی تعبیر لیے, آنکھوں میں تشکر کے اشک لیے اس سفر کی جانب گامزن تھے جہاں اپنا سب کچھ لٹا کر بھی وہ خوش تھے کے مسلمانوں کو ایک نیا جہاں مل گیا جہاں وہ آزادی سے اپنے عقائد و نظریات پر عمل کرسکیں گے. وہ نیک روحیں گر اب اس قوم کی حالت دیکھ لیں تو, خون کے آنسو روئیں گی کہ یہ وہ دیس تو نہیں... وہ قوم بھی نہیں جن کے آباء نے تحریک و قربانیوں کے وہ باب رقم کیے کہ تاریخ نے سنہرے پنوں میں جذب کیے. جن مقصد کے حصول کے لیے برسہا برس غلامی کی فصل کاٹی گئ اس کا ثمر یہ تو نہیں ملنا تھا کہ جدّت کے نام پہ اسی پیڑاؤ پہ جا کھڑی ہوئی, انہی روایات کے آگے سر خم کرنے چلی جن سے آزاد ہونے کے لیے انگنت ایثار کیے تھے. افسوس یہ قوم مسلسل اپنے اعمال سے اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو رائیگاں ثابت کرنے پہ لگی ہے.

شاعرِ مفکر علامہ اقبال ہر مقام پہ ہمارے لیے رہنمائی کا درس چھوڑ گۓ ہیں... اور اب بھی اپنی صحیح روش کو کھوتی ہوئی پاکستانی قوم کے لیے ان کے کلام میں نصیحت ہے جو انگریزوں سے آزادی حاصل کرلینے پہ ہر سال جشن تو مناتی ہے مگر آج بھی وہ جانے انجانے میں اپنے تشخص کو بھلاۓ مغربی ذہنی غلامی کا شکار ہوتی جارہی ہے.

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

***
پاکستان کا قیام شب قدر، جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک ١٣٦۸ھ بمطابق ١٤ اگست ١۹٤٧ء کو عمل میں آیا۔ ظہور پاکستان کا یہ عظیم دن جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک اور شب قدر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اللّہ تبارک و تعالیٰ کی اس عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے. بلاشبہ یہ اللّہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ فقط صرف سات سال کی بھرپور اور پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے سیاسی نقشے پر، اور وہ بھی ایک ایسے سیاسی نقشے پر جس کے سبھی نقش مغربی تہذیب، مادیت، سیکولرزم اور لبرلزم کے رنگوں سے آلودہ تھے. عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر ایک ریاست کا قیام ایک تاریخی معجزے سے کم نہ تھا.

اگرچہ کہ پاکستان بن جانے کی جدوجہد زیادہ تر پُر امن ہی رہی، لیکن آزادی اپنا خراج مانگتی ہے جو کہ قیامِ پاکستان کے اعلان کے فوری بعد فسادات کی شکل میں سامنے آیا۔

ماضی کے دریچوں میں تاریخ کے اُن اوراق کو کھول کر دیکھیں جو خون کے آ نسوؤں سے رقم ہوۓ تھے تو کئی انگنت داستانیں ملیں گی جو جذبۂ حب الوطنی اور ایثار سے مزین ہونگی.

اپنے گھر بار کو خیرآباد کہنا آسان نہیں ہوتا, پھر بھی ہمارے آباء و اجداد نے اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنا تن, من, دھن... کیا نہیں لٹایا کہ.... انہیں نہ سہی کم ازکم ان کی نسلوں کو تو غلامی کی بیڑیوں سے آزادی ملے.

حضور اکرمﷺ نے جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کی تھی تو فرمایا تھا...
" اے سرزمینِ مکہ, میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا, لیکن تیرے باسی ہمیں رہنے نہیں دیتے".

اسی سنت پہ عمل پیراء ہو کے اس دور کے مسلمانِ ہند کے رختِ سفر باندھا.
اپنے ہجرت کے موقع کا ایک بزرگ احوال بتاتے ہیں تو یہ دل اشک بہاتا ہے. کہتے ہیں کہ ؛

“کوئی مجھ سے پوچھے کہ پاکستان کیسے بنا، آج بھی یہ بتاتے ہوئے میری ٹانگیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔ ہم مہاجرین کیمپ میں تھے، آواز آئی سکھوں نے حملہ کردیاہے۔ میرے والد نے مجھے ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ہم کیمپوں سے باہر نکل کر اُن سے مقابلہ کریں گے اور تم اپنی ماں، بہن اور دوسری عورتوں اور بچوں کے ساتھ راوی کے کنارے کھڑے رہنا، جب تک اللّہ اکبر کا نعرہ بلند نہ ہو وہاں سے نہیں ہلنا اور اگر واہے گرو کا نعرہ لگے تو بچوں کے ساتھ ہی اس چلتے دریا میں کود جانا ۔میرے والد شہید ہو گئے اور میں اپنی ماں کا ہاتھ پکڑے پانی میں کھڑا تھا کہ اللّہ اکبر کی آواز گونجی”۔

اب بھی گر آزادی کی قدر سمجھنی ہے تو ان بزرگوں سے ہجرت کے احوال سنیں جن کا ذکر کرتے ہی ان کا وجود خون و آنسو کی تصویر بن جاتا ہے. آزادی کا سورج طلوع دیکھنے کی خاطر جس سفر کو چنا تھا, اس راستے میں کتنے ہی دلسوز مناظر دیکھنے پڑے. بے یارو مدد گار آزادی کے متوالوں کے قافلوں کو قزاقوں نے کیسے تہہ وبالا کر دیا تھا۔ یہ صرف ان کا دل ہی جانتا ہے کہ اپنوں کی کٹی پھٹی لاشوں کو دیکھ دل نے کتنی آہ و بکا کی ہوگی... ان کو یونہی بے یار و مددگار چھوڑ فقط اس خواب کی تعبیر دیکھنے کے لیے جہاں مسلمان امن و ایمان کا علم لہرا سکیں... آگ و خون کی کئی راہوں سے گزر کرتے ہوۓ بالاخر جب اس پاک سرزمین پہ سجدہ ریز ہوۓ, تو کرب و تشکر کے سارے اشک اس خاک میں ملادیے, جو خاک زرخیز ہے شہداء کے لہو سے. یہ چمن جس میں ہم آزادانہ سانس لے رہے ہیں, یہ گلشن ہمیں ورثے میں نہیں ملا, اس میں گلوں کو کھلانے اور مہکانے میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنے لہو کا نذرانہ دیا ہے.

غلام دیس کے شہری، ہمارے آباء جب طویل جدوجہد کا ثمر دیکھنے کے لیے ٹرینوں سے لاہور پہنچتے تھے, تو وہ بھارت سے آنے والی ٹرینیں اٹاری اور واہگہ سے گزرتے گزرتے جب آزاد مٹی پہ پہنچتی تھیں خون سے بھرے ڈبے کٹی پھٹی لاشوں کے وہ دلخراش منظر پیش کرتے تھے کہ انسانیت نیر بہاۓ, اور ان نعشوں کے انبار تلے دبے زخمی غازی اپنی کراہوں میں اپنے بچھڑے پیاروں کو نہیں "پاکستان" کو پکار رہے ہوتے تھے.
***
اس پاک ملک کے قیام کی جدوجہد جہاں زوال پذیر برطانوی استعمار اور اُبھرتے ہوئے ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی کی تحریک تھی کہ تجارتی سامراج تہذیبی اور تاریخی قدروں میں رخنہ انداز ہوتا ہے۔ بیرونی سامراج کا مقصد ہی ہمیں اپنی تاریخی روایت سے الگ کرنا اور ہماری آزاد وطن کے مطالبے کا اول مقصد خود کو اس روایت کے ساتھ جوڑنا تھا.

تو وہیں تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ١۹٣٧- ١۹٣۹ کے کانگریس سامراجی راج نے کیسے اسلام دشمنی میں مسلمانوں پہ زمین تنگ کی تھی. کیسے انکی اسلامی تشخص کو مسخ کرنے کی اپنی ہر کوشش کی تھی.

اس کا مقصد عددی اکثریت کا غلبہ اور جمہوریت و سیکولرزم کے نام پر ہندو قوم پرستی کی حکمرانی قائم کرنا تھا... ان کو گوارا نہ تھا ملسمان جنہیں اپنی انتہا پسندی میں وہ اپنے سے نیچے سمجھتے تھے کیسے ایک آزاد وطن کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں. مگر ان سب سے اہم تحریکِ آزادی ایک نظریاتی, تہذیبی, اور مذہبی احیا کی تحریک تھی۔

قیام پاکستان کے بعد مقاصد پاکستان سے متعلق آج ہمیں دو مختلف گروہوں کے الگ الگ خیالات و نظریات آتے ہیں۔مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ملک لا الہ الا اللّہ کی بنیادپر وجود میں آیا۔ قائداعظم اور ہمارے آباء نے یہ خطہ اس لیے حاصل کیا کہ اس میں مسلمان پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی فرائض انجام دے سکے اور دینِ حق کو نافذ کر سکیں. جبکہ دوسرے گروہ اس بات پہ مصر ہے کہ تحریکِ آزادی کا مقصد ایک ایسی آزاد فلاحی و رفاعی ریاست کی تعمیر تھی جہاں ہر مذہب کے افراد کو مذہبی آزادی حاصل ہو، کوئی کسی کی عبادت گاہ میں دخل انداز نہ ہو۔ انصاف کا بول بالا ہو، معاشی، اقتصادی اور سماجی طور پر ترقی ہو سکے اور اقوام عالم میں ہمارا شعور جمہوری طور پر مستحکم ممالک میں ہو۔ اور اس کے ثبوت میں قائد اعظم کا قول سناتے ہیں...

’’اب تم آزاد ہو اور پاکستان میں تمہیں اس بات کی پوری آزادی ہے کہ اپنے مندروں، مسجدوں اور دوسری عبادت گاہوں میں جا کر اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرو۔ ہمارا یہ بنیادی اصول ہے کہ ہم سب ایک مملکت کے شہری اور مساوی حقوق کے مالک ہیں، یہ اصول مذہب، معتقدات اور ذات پات کے امتیاز سے بالاتر ہے‘‘۔

بات ایک ہی ہے لیکن ہمیں گروہوں میں تقسیم ہو کر آپس میں بحث کرنے کی ایسی عادت پڑی ہے جو بات سامنے ہے اس کو اپنی اختلافِ راۓ کی نظر کر دیتے ہیں. بے شک یہ ملک لا الہ الا اللّہ کی بنیادپر وجود میں آیا. تو کیا ہمارا مذہب ہمیں انصاف و عدل قائم کرنے کی, اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی, مذہبی آزادی کی, معاشی و اخلاقی طور پہ مستحکم ہونے کی تعلیم نہیں دیتا. مساوت کا پہلا درس اور اس پہ عمل کرنے والا ہمارا مذہب ہی تھا, خود قائداعظم نے ایک جملے میں اس حقیقت کو بیان کردیا تھا:

"اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔"

تو پھر کیسے ہم اپنے اصل سے نظریں پھیر گئے؟
کیسے ہم نے اسلامی تعلیمات اور قائد کے فرمانوں کو فقط کتابوں, اہم سرکاری دفاتر کی زینت بنا کر اس ساۓ تلے "میرا وطن, تیرا وطن" کھیلنے لگے. غیروں کو کیا دوش دیں ہم نے آپسی اختلافات ہی کی نظر اپنے ملک کے ہر اہم شعبے کو کرپٹ مافیا کے سپرد کردیا اور ان مٹھی بھر بددیانت اشرافیہ, بیوروکریٹز, اور سیاست کے شائقوں نے پاک سرزمین کو اپنے مفادات کی منڈی میں بدل کر, پاکستان کو اس کے اصل سے دور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی. محض اپنی پیدائش کے ۲٣ سال بعد ہی غیروں کی لگائی آگ کی لپیٹ میں ہم اپنے اندرونی شری عناصر کی بنا پر آگۓ کہ اپنے ایک بازو کو کٹا بیٹھے. اور اب آزادی کے اتنے سال بیت جانے کے باوجود اب بھی یہ وطن اسی منزل کی راہیں تک رہا ہے جس کو پانے کے لیے کرۂِ ارض پہ "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کا نام جگمگیا تھا.

آزادی حاصل کرنے کے بعد جو کام قوموں کو درپیش ہوتا ہے, وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرنا اور اسے برقرار رکھنا, اپنے نصب العین پہ گامزن رہنا کہ قیامِ پاکستان ،اُس تحریکِ آزادی کی آخری منزل نہیں تھا بلکہ پہلا سنگِ میل تھا۔ اصل ہدف ریاستِ مدینہ کا قیام تھا، جو اللّہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرمﷺ کی تعلیمات کی آئینہ دار ہوں۔ جس میں اخلاقی اقدار کو بالادستی حاصل ہو، جہاں فرد کے حقوق کی پوری حفاظت ہو، جہاں ہر زن و مرد کی جان، مال اور آبرو کو تحفظ حاصل ہو۔ جہاں دینی و دنیاوی تعلیم کی روشنی سے بلاتخصیص مذہب و عقیدہ ہرفردِملت نور حاصل کرسکے۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ جہاں حلال رزق اور معاشی ترقی کے مواقع تمام انسانوں کو حاصل ہوں۔ جہاں عدلِ اجتماعی کا بول بالا ہو اور جہاں ریاست اور اس کے کارپرداز عوام کے خدمت گزار ہوں۔ اسلامی نظام کے اس تصور نے مسلمانوں کو اس تحریک میں پروانہ وار شریک کیا تھا اور وہ برملا کہتے تھے ہمیں ایک بار پھر اس دور کا احیا کرنا ہے، جس کی مثال اللّہ کے رسولﷺ اور ان کے خلفائے راشدینؓ نے قائم کی تھی۔

جو قومیں اپنے ماضی کا احتساب کرنا جانتی ہوں وہ اپنی آزادی کی حفاظت بھی خوب کر سکتی ہیں۔ جو قوم مڑ کر اپنی تاریخ کی طرف نہیں دیکھتی وہ اپنے مستقبل کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتی ۔بے شک ماضی میں رہنا بےوقوفی ہے لیکن اس سے بڑی غلطی ماضی سے سبق نہ سیکھنا ہے. آج یہ قوم اسی غلطی میں مبتلا ہے.

میرے ہم وطنو! اگر ماضی کچھ نہیں سکھاتا تو اپنے حال ہی سے سیکھ لو. احساس کرو کہ کیوں اتنے سال یہ جسم اپنی شہہ رگ کے غلامی کی زنجیروں میں قید ہونے کے باوجود بھی اپنی دنیا میں مگن ہے. ذرا فلسطین، شام, برماکی جانب نظریں ڈالو اُن سے پوچھو کہ آزادی کیا ہوتی ہے؟ تمھیں آزادی کا مطلب سمجھ میں آجائے گا جہاں موت کی حیثیت ثانوی رہ گئی ہے جہاں زندگی ہر روز موت کو گلے لگاتی ہے۔ چلو وہ تو غلام باسی ہیں... زیادہ دور نہیں جاتے, پڑوس ہی میں اپنے مسلمان بھائیوں کا حال پوچھ لیجیے, وہ تو ایک "آزاد دیش" میں رہ رہے ہیں نہ.. کیا وہاں ان کو اپنا وہ اسلامی تشخص حاصل ہے جو یہاں آپ کو حاصل ہے؟

مگر ہمیں تو حقیقت سے طوطا چشمی کرنی آتی ہے, خود کا احتساب کرنے سے بہتر ہمیں اس ملک کو ہر غلط کے لیے موردِ الزام ٹہرانا بہتر لگتا ہے. اس ملک میں رکھا ہی کیا ہے؟ پاکستان میں کوئی سکوپ نہیں کہتے خود ہی اس دیس کو الوداع کہہ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کچھ نہیں دیا. افسوس کس دوغلے پن میں جی رہے ہیں ہم...

اگر اب بھی آپ کی آنکھوں پہ پٹی بندھی ہے تو خود تاریخ کو کھنگال لیں, سب عیاں ہوگا کہ آزادی زندہ قوموں کے لیے کیا معنیٰ رکھتی ہے اور جو اپنی مستی میں اس کی قدر کھو دیتے ہیں تو... عروج سے زوال کا سفر طے کرنے میں دیر نہیں لگتی( اللّہ تعالیٰ ہمیں اس سے پہلے ہی ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دیں. آمین).

عزیز ہم وطنو, صرف ١٤ اگست والے دن جھنڈیاں لگانے ، رات کو آتش بازی کرنے، موٹر سائیکل پر کرتب دکھانے سے, ملی نغمے گا کر, سوشل میڈیا پہ اسٹیٹس لگانے سے, وطن سے محبت کا تقاضہ پورا نہیں ہوتا۔

سچ تو یہ ہے کہ مسلمانانِ برصغیر کی عظیم جد و جہد لاکھوں جانوں کی قربانیوں کا نذر پیش کرنے کا ثمر ہمارا پیارا وطن "پاکستان"، آج یہ تقاضا کرتا ہے کہ اگر ہمیں اس کا وجود برقرار رکھنا ہے اور اپنے آنے والوں کو ایک روشن اسلامی پاکستان دے کرجانا ہے تو عدل و انصاف، مساوات، معاشی استحکام، اور پاکستان کی خودمختاری کو فروغ دینا ہوگا، لسانیت ، فرقہ واریت ، بیروزگاری، اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا اور ہر سال جشن آزادی کے موقع پر شہداء کو ، آزادی کے حصول کی جدو جہد میں شامل ہونے والے غازیوں کو، ہر اُس شخص کو جس نے اس تحریک میں حصہ لیا ان کے جہد, ان کے ایثار کو خراج تحسین پیش کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں میں یہ احساس پیدا ہو سکے کہ ہمارے بزرگوں نے یہ ملک مُشتِ خاک کی مانند نہیں بلکہ آندھی کی مانند آگ اور خون کے دریاؤں کو پار کر کے حاصل کیا ہے، اُن میں ویسی ہی ولولہ انگیزی, شعوری و بیداری کے جذبات کو اُجاگر کرنا ہوگا جو تحریکِ آزادی میں تھا، تاکہ وہ بھی انھی اوصاف کے مالک بن سکیں کہ ابھی مرے ہم وطنو منزل تو ابھی بھی دور ہے.

اگر ابھی بھی اس غلط فہمی میں جی رہے ہو کہ ٧٣ سال قبل ہم نے اپنی منزل پا لی تھی...نہیں میرے ہم وطنو... سفر تو ابھی بھی ادھورا ہے, ہمارے اجداد پاکستان کے آج کے حالات, ان کی سوچ جانیں تو تف کریں کہ کیسے نکموں کے ذمے یہ پاک دیس کردیا. محض ایک زمیں کے خطہ حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں نے اپنے خاندان نہیں کٹواۓ تھے... اگر بات صرف خطۂِ ارض کی ہوتی تو آج بھی ہمارے بڑے دہلی اور آگرہ کی گلیوں کو یاد کرتے ہیں... آزادی کا مقصد تو سمجھو... کس سوچ کی خاطر ہجرت جیسا مشکل راستہ اپنالیا... اسلام کی خاطر, اپنی تہزیب و تمدن کے تحفظ کی خاطر, اپنے اسلامی تشخص کی خاطر, اس پہچان کو پانے کی خاطر جو انگریزوں اور کفار کے درمیاں رہ کر مسخ ہورہی تھی. وہ بڑھے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تعمیر کرسکیں, وہاں اسلامی ظابطہ حیات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں, قرآن کو سنت کا نظام قائم کرسکیں... لیکن... لیکن لاکھوں شہداء کے گارے سے یہ سرزمیں وجود میں آئی, کتنے ہی خاندان جدا ہوگۓ, کتنے ہی لقمۂ اجل بن گۓ, عزتیں تارتار ہوئیں... چہار سو خون کی حولی کھیلی گئ.... اور... اور ہم فخر مناتے ہیں کہ ہم نے "انگریزوں اور ہندؤں" سے آزادی حاصل کی....
ذرا اپنے گریبان میں جھانکیے تو جانیے کہ اسلام کا نعرۂ لگا کر اس چمن کو "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کا نام تو دے دیا لیکن وہی باطل نظام نافذ کردیا جس سے اختلاف رکھتے تھے. سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کیوں ہے، کیا ہم خود اس فرسودہ نظام سے جان نہیں چھوڑا چاہتے یا پھر یہ ہماری جان نہیں چھوڑتا۔
موجودہ صورتِ حال کی تاریکی کو ماننے سے انکار کرنے والے اس دیس کے باسی عاقبت نااندیشی کا شکار ہیں مگر ہم اس ذاتِ باری تعالیٰ پہ ایمان رکھنے والی قوم ہیں جو فرماتے ہیں (لَاتَقْنَطُوا مِن رَحْمَۃِ اللّٰہ) کہ مومن کبھی اللّہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا... یہ قوم کتنا ہی حقیقت سے نظریں چرا لے پر جانتی ہے کہ سیاہ رات کے بعد نیا سورج طلوع ہوتا ہے اور امید واثق ہے کہ

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

ان شاء اللّہ وہ دن جلد آۓ گا جب اپنے آباء کی خون سے سینچی گئی آزادی کی منزل ہم پا لیں گے... ہم اپنے نصب العین کو پہچان کر تحریکِ آزادی کے مقصد کو پا لیں گے... ہمارے شہداء کا خون رائیگاں نہیں جاۓ گا... ہم وہ سویرا ضرور دیکھیں گے جب نظامِ اسلام بالاخر پاکستان کی زینت بنے گا.

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہرشب کے سحر ہوتی ہے

 

Haya Zuha
About the Author: Haya Zuha Read More Articles by Haya Zuha: 8 Articles with 10544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.