انسانی دماغ Quantum Physics اور خودی
اگر ہم Quantum physics کے نظریے(theory ) کو انسانی دماغ پر لاگو کریں اور کوانٹمی جذبات(quantum feelings)کی بات کریں تو شاید ہم ہم اپنی منفی شخصیت سے نکل کر اپنی مثبت شخصیت کو پہچان سکیں ۔شاید ہم غموں کے کھنڈرات سے نکل کر خوشیوں کی وادی کی طرف چل پڑیں ۔ سب سے پہلے ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ کوانٹم فزکس کیا ہے ۔۔ سادہ الفاظ میں اسکی ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک ذرہ(particle ) جو انطباق(superposition) کی حالت میں کچھ اس طرح سے موجود ہوتا ہے کہ اسکے ایک ہی وقت میں مختلف جگہوں پر موجود ہونے کے امکانات(probabilities)ہوتے ہیں اگر ہم بہت سے امکانات میں سے ایک کا انتخاب کرتے ہیں جہاں ذرہ مخصوص وقت پر موجود ہوتا ہے تب اس ذرے کے مختلف جگہوں پر موجود ہونے کے امکانات خود ہی ختم ہو جاتے ہیں اور ہم صرف وہی جگہ دیکھ سکیں گے جس کا ہم اس مخصوص وقت مشاہدہ کر رہے ہوں گے ۔اس مثال سے ہمیں کوانٹم فزکس کے ایک اہم اصول کا پتہ چلتا ہے۔
" ذرات(particles) بیک وقت بہت ساری جگہوں پر ہو سکتے ہیں، لیکن اس وقت بہت سے مقامات پر نہیں رہتے جس وقت آپ کوانٹم پارٹیکل کو دیکھنے کی کوشش کرتےہیں " اگر ہم کوانٹم فزکس کے نظریے کی مددسے انسانی دماغ کا مشاہدہ کریں تو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمارے دماغ میں انطباقی عناصر(superpositioned elements) جس کو انطباقی جذبات بھی کہا جاتا ہے موجود ہوتے ہیں ۔ ہمارے اندر ایک ہی وقت میں مختلف جذبات ہوتے ہیں جیسے کہ خوشی کے جذبات ،دکھوں کے جذبات ، غصہ، امید، ذہنی دباؤ اور بہت سے دوسرے جذبات اور احساسات ہوتے ہیں۔لیکن جب ہم کسی ایک احساس یا جذبے پر غور کرتے ہیں تو باقی کے احساسات اور جذبات غائب ہو جاتے ہیں، جب ہم دکھوں پر غور کرتے ہیں تو تو ہماری خوشیاں غائب ہو جاتی ہیں اور جب ہم خوشیوں کو مرکز نگاہ بناتے ہیں تو ہمارے غم پس پردہ چلے جاتے ہیں بلکل اسی طرح جب کوئی شخص خود کو بیمار سمجھنا شروع کرتاہے تو وہ بیمار ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی بیمار شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بیمار نہیں ہے تو پھر وہ بہت جلد صحتیابہ و جاتا ہے ۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ایک وقت میں دو متضاد احساسات اور جذبات میں صرف ایک پر توجہ دے سکتے ہیں ۔ جب تک ہم کوئی فیصلہ نہیں کرتے تب تک ہمارے سامنے لامحدود امکانات ہوتے ہیں لیکن یہ امکانات اس وقت ختم ہو جاتےہیں جب کسی ایک امکان پر کام کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ ہمارا دماغ، جذبات اور برتاؤ کوانٹم فزکس کے اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ حال ہی کچھ ماہر طبیعات( physicists ) اور ماہرعصاب (neuro scientists ) دریافت کیا ہے کہ ہمارے دماغ کا ایک حصہ کسی کوانٹم مشین یا کوانٹم کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے ۔ اب فیصلہ کرنے کا اختیار ہمارے پاس ہے کہ ہم کس کا انتخاب کرتے ہیں خوشی یا غم کا،محبت یا نفرت کا۔۔ دنیا میں سوچنے کا ایک اصول ہے جس کے مطابق ہم اپنے گرد وہی چیزیں اکٹھا کرتے ہیں جو ہم سوچتے ہیں اگر کوئی کامیابی کا سوچتا ہے تو وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے اگر کوئی بیمار صحتیاب ہونے کا سوچتا ہے تو وہ ضرور صحت مند ہو جاتا ہے ۔ "آپ کی زندگی ان غالب خیالات کا آئینہ ہے جو آپ سوچتے ہیں "
مولانا جلاالدین رومی فرما تے ہیں " جو آپ تلاش کرتے ہیں وہ آپ کی تلاش میں ہے "۔ ہم کوانٹم فزکس کا استعمال کر کے اپنے دماغ اور نفس کی بہتر طورپر سمجھ سکتے ہیں اور پھر بہتر تربیت کر سکتے ہیں ہم اس کے ذریعے اپنی عقل اور ذات کو پہچان سکیں گے ۔ عقل ایک نور ہے جسے خدا نے انسان کے لیے پیدا کیا اور اس کے دل کی روشنی قرار دیا تاکہ چیزوں میں فرق محسوس کر سکے۔ عقل اور کوانٹم فزکس دونوں ہی ہمارے سامنے لامحدود امکانات پیش کرتے ہیں لیکن یہ تمام امکانات دونوں حالتوں میں اس وقت ختم ہو جاتے ہیں جب ہم کسی ایک امکان کو چننے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ہمیں زندگی کو بہتر بنانے کے لیے صرف اس چیز کوسمجھنےکی ضرورت ہو گی آیا کہ جو فیصلہ ہم کریں گے وہ صحیح ہے کہ نہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ " اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنانے "- (سورہ احزاب) کوانٹم فزکس اور خودی میں اگر تعلق قائم کیا جائے تو پھر یہ ایک خوبصورت اور پراثر نظریہ بن جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ،علامہ اقبال فرما تے ہیں "خودی کیا ہے راز دروں حیات خودی کیا ہے بیداری کائنات ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے " اگر انسان میں خودی کا عنصر بیدار ہو جاتا ہے تو پھر اس کے سامنے کوانٹم فزکس کی طرح لامحدود امکانات ہوں گے وہ جو چاہے کر سکتا ہے فیصلہ اس کے اختیار میں ہو گا ۔لیکن شرط پھر یہی ہو گی کہ اس کی خودی بیدار اور دل پاکیزہ ہونا چاہیے ۔ اور دل کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دل و جان سے اطاعت کرے۔اور قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کرے۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال لکھتے ہیں "خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے " ہم کوانٹم فزکس کے اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے دماغ اور نفس کو بہتر بنا سکتے ہیں اپنی خودی کو بیدار کر سکتے ہیں ۔لیکن کسی ایک احساس یا جذبے پر قابو کرنا اتنا آسان نہیں ہے ۔ حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ "پہلوان وہ نہیں جو غصے میں پچھاڑ دے ،پہلوان وہ ہے جو اپنے غصے کو قابو میں رکھے۔ اسی طرح ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ " جنت دو قدم کے فاصلے پر ہے ایک قدم نفس پر رکھو تو دوسرا قدم جنت میں ہو گا"۔ جب انسان اپنے نفس او ر دماغ کو تسخیر کر کے اپنی خودی کو بیدار کر لیتا ہے تو وہ کائنات کو تسخیر کر لیتا ہے ۔لیکن جب ہم غفلت کا شکار ہوتے ہیں تو ہماری دنیا و آخرت خراب ہو جاتی ہے ۔ماہر طبیعات جانتے ہیں کہ ایک ذرہ کی پیمائش میں تھوڑی سی غفلت ہمیں ناکامی کے منہ میں لے جاتی بالکل یہی معاملہ ہمارے دل ،ایمان اور دنیا کا ہے۔ سلطان باہو فرماتے ہیں "جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ہو"
ایک اور جگہ فرماتے ہیں "چوداں طبق دل دے اندر، آتش لائے حجرے ھو جنہاں حق نہ حاصل کیتا، اوہ دوہیں جہانی اوجڑے ھو" مختصر یہ کہ ہم قرآن مجید، کوانٹم فزکس اور نظریہ خودی کی مدد سے انسانیت کو عروج پر پہنچا سکتے ہیں ۔۔
|