پاکستان ہمارا پیارا وطن ہے اورہمیں یہ بات کہتے ہوئے فخر محسوس ہونا چاہیے کے ہم پاکستانی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم پاکستان کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ ہمارے بزگوں نے کن مشکلات سے گزر کر یہ ملک بنایا ہے پاکستان کی رگوں میں ہمارے بزگوں نے اپنا خون شامل کیا ہے -مگرآج ہم کیا کر رہے ہیں ١٤ اگست والے دن نئے کپڑے پہن کر موٹر سائکل کا سائلنسر نکال کر سارا دن سڑکوں پر اوارہ گردی کرتے ہیں اور راستے میں جاتے ہوئے دوسرے مہزب شہریوں کے کانوں کے پردے پھاڑتے جاتے ہیں مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کے اگر آج ہمارے بزگ زندہ ہوتے تو ہماری ایسی حرکتوں کو دیکھ کر شرم سے پھر مرجاتے کہ یہ ہم نے کیا کر دیا پاکستان بنا کر۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آزادی نہیں منانی چاہے آزادی ظرور منائیں مگر اس بات کا بھی خیال رکھیں کے آپ کی وجہ سے کسی عام شہری کو کوئی پرشانی نا ہو- یہاں سعودی عرب میں بھی لوگ جشن آزادی مناتے ہیں ٢٣ ستمبر کو مگر یہاں پر ایسا کوئی نا مہزب کام نہیں کرتے آج کل تو میڈیا کا دور ہے اور آپ سب مجھ سے زیادہ شعور رکھتےہیں آپ نے کبھی کوئی ایسی خبر سنی جسے سن کر آپ کو حیرانی ہو کہ یہ کیا کر رہے ہیں مگر ١٤ اگست والے دن آپ ہماری نوجوان نسل کو دیکھیے گا جن کے ہاتھوں میں ہمارے بزگوں نے اس ملک کو سونپ دیا ہے کیسے وہ سارا دن سڑکوں پر ون ویلنگ کرتے ہیں اور اپنی اور اپنے زندگی اور اپنے والدین کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہیں میری اس تحریر کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ کسی کی دل اعزاری کروں بس میری ان تمام نوجوان نسل سے گزارش ہے کہ خدارا ایسا کوئی کام مت کریئں کہ جس پر ان کے والدین کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اور ہمارے ملک کا بھی نام خراب ہو۔ |