مسجد وزیر خان میں گانے کی شوٹنگ

پاکستانی اداکار اور اداکارائیں کسی نہ کسی بہانے سے اکثر اوقات خبروں میں رہتے ہیں۔ چاہے اس کے لیے انہیں اپنی عزت کا جنازہ کیوں نہ نکالنا پڑجائے۔ ان کے نزدیک شہرت سے زیادہ کوئی بھی چیز اہمیت کی حامل نہیں ہوتی ۔ اس کے لیے بعض اداکار اور اداکارائیں دینی شعائر کا مذاق تک اڑانے کے لیے یا مذہبی شخصیات کی توہین تک کرنے کے لیے تیا رہوجاتے ہیں ۔ بہرحال پاکستان میں حالیہ چند برسوں کے دوران نکاح اور شادی کی تصاویر اور ویڈیوز بنوانے کے لیے جوڑے اکثر کسی پرانی مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی شوٹس کے لیے لاہور میں واقع بادشاہی مسجد اور وزیر خان مسجد اور اسلام آباد میں فیصل مسجد پسندیدہ مقام تصور کی جاتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیواور تصاویر میں اداکارہ صبا قمر کو لاہور کی تاریخی وزیر خان مسجد میں گلوکار بلال سعید کے ساتھ رقص کا ایک اسٹیپ لیتے دیکھا گیا ہے۔ دونوں فنکاروں نے اپنے گانے ’’قبول ہے‘‘ کے ٹیزر کے ساتھ کیپشن لکھا کہ یہ وہ واحد حصہ ہے جو تاریخی وزیر خان مسجد میں فلمایا گیا تھا، یہ میوزک ویڈیو کا تعارفی حصہ ہے جس میں نکاح کا منظر پیش کیا گیا ہے، اسے نہ تو کسی طرح کے پلے بیک میوزک کے ساتھ فلمایا گیا تھا اور نہ ہی یہ میوزک ٹریک کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلم بندی کے وقت مسجد کی انتظامیہ بھی موجود تھی اور وہ گواہ ہیں کہ وہاں کسی قسم کی کوئی موسیقی نہیں چلائی گئی، مزید پوری ویڈیو 11 اگست کو سامنے آ رہی ہے، آپ لوگ کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے براہ کرم ویڈیو دیکھیں اور سمجھیں کہ ہم سب ایک ہی صفحے پر ہیں، ہم سب مسلمان ہیں، ہمارے دل میں بھی اپنے مذہب اسلام کے لیے اتنی ہی محبت اور احترام ہے جتنا آپ سب کے دل میں ہے اور کبھی بھی اس کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اجازت کس نے اور کیوں دی؟ انتہائی افسوس کا مقام یہ ہے کہ وزیر خان مسجد میں یہ کام باقاعدہ اجازت لے کر کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر صوبائی محکمہ اوقاف و مذہبی امور کا ایک اجازت نامہ گردش کر رہا ہے جس کے مطابق مورخہ 28 جولائی کو محکمے کے اسسٹنسٹ ڈائریکٹر برائے تبلیغ و تربیت نے 30 ہزار فیس کی ادائیگی کے بعد کچھ شرائط کے ساتھ مسجد وزیر خان میں ریکارڈنگ کی اجازت دی تھی۔ حالانکہ سب جانتے ہیں اور پنجاب کے صوبائی وزیر برائے اوقاف و مذہبی امور سید پیر سعید الحسن نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مساجد میں اس طرح کے شوٹ یا کسی بھی قسم کی عکس بندی قطعی طور پر غیر قانونی ہے اور اس کی بالکل اجازت نہیں ہے۔اس کے باوجود یہ اجازت نامہ کیسے جاری کیا گیا؟ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیا تاریخی اور قدیم مساجد صرف انہی کاموں کے لیے رہ گئی ہیں؟ بدقسمتی یہ ہے کہ ان مقدس مقامات کو باقاعدہ ’’مقامِ سیاحت ‘‘ اور سیرو تفریح کی آماجگاہ بنالیاگیا ہے۔ نئے شادی شدہ جوڑے ان مقامات پر غیر مناسب انداز میں سب کے سامنے عکس بندی کرواتے ہیں۔ مسجد جوکہ انتہائی ادب کا مقام ہے۔ یہاں فضول گوئی اور فضول حرکتوں سے اجتناب ضروری ہے۔ اونچی آواز میں بات چیت اور ہنسنا تک منع ہے۔ لیکن ان سب امور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مساجد پکنک پوائنٹ کا منظر پیش کرتی ہیں ۔ ان غیر مناسب حرکتوں پر مسجد انتظامیہ سمیت محکمۂ اوقاف و مذہبی امور سمیت کسی کے کان کو جوں تک نہیں رینگتی۔آخر ان چیزوں کو روکنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ متعلقہ ادارے مسجد جیسے مقدس مقام پر ایسے کام کرنے کی اجازت کیسے دے دیتے ہیں؟مسجد انتظامیہ کیوں کچھ نہیں کہتی ؟ مساجد کی حرمت اور ان کا تقدس اولین ترجیح ہونی چاہیے اور ایسی کوئی چیز بالکل برداشت نہیں کی جانی چاہیے جس میں مساجد اور مقدس مقامات کا تقدس پامال ہو۔

یہ بھی ایک انتہائی عجیب بات ہے کہ کسی کو اپنے گانے ، ڈرامے یا فلم میں منظر کشی کرنی ہوتی ہے تو اس کے لیے ’’سیٹ ‘‘ لگائے جاتے ہیں یا ان مناظر کو فلمانے کے بعد ایڈیٹنگ کے ذریعے مختلف مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ اور یہی اصول پوری دنیا میں رائج ہیں۔ لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں کیسی بے حسی اور بے غیرتی ہے کہ جب مسجد کا معاملہ آیا تو کوئی سیٹ یا ڈمی لگانے کے بجائے باقاعدہ مسجد میں جاکر منبر و محراب کے سائے میں بیہودگی کا منظر فلمایا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مسجد انتظامیہ سمیت کئی لوگ وہاں یہ منظر اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کوئی بہت اچھا اور نیک کام ہورہاہو۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ اسلام بیزار طبقہ یہاں تک کہنے پر تلاہوا ہے کہ مسجد میں نکاح کے بعد صبا قمر نے اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہو کر ہلکا سا جھوم کے گھوم لیا تو کون سی قیامت آ گئی؟ ان عقل پرست دین بیزار لوگوں کے ایسے جاہلانہ خیالات پر سوائے ماتم کے کچھ نہیں کیاجاسکتا۔ یقینی طور پر یہ لبرلز اسلام کی مخالفت میں انتہاء پسندی پر اتر آئے ہیں۔ جب فلموں اور ڈراموں میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو قریب بھی آنے نہیں دیا جاتا تو مساجد میں فلموں ، ڈراموں اور گانوں کی شوٹنگ کے حق میں کس منہ سے دلائل دیے جارہے ہیں۔ ایسے دین بیزار لوگوں سے صرف یہی سوال کیا جاسکتا ہے کہ جب پی ٹی وی پر ارطغرل غازی ڈرامہ دکھایا جارہا تھا تو اس وقت کون سی قیامت آگئی تھی؟ سینکڑوں ڈرامے اور فلمیں نشر ہوتی ہیں، ان میں ایک ترکی ڈرامہ بھی نشر ہوگیا تو فلم انڈسٹری کی تباہی کے بھاشن دیے جانے لگے۔ جب آپ کو اپنے ڈرامے کی جگہ کسی اور کا ڈرامہ نشر ہونے پر تکلیف ہوسکتی ہے تو مسلمانوں کو اپنے مقدس مقام کی توہین پر تکلیف نہیں ہوسکتی؟ حقیقت یہ ہے کہ دین بیزار لوگوں کو اصل الرجی صرف اسلامی تہذیب اور ثقافت سے ہے۔ بہرحال نہ جانے یہ ملک کس طرف جارہا ہے؟ ہماری غیرت کہاں مرگئی ہے؟ نہ جانے آگے ہمیں کیا کیا دیکھنا پڑے گا۔ پاکستان بھر میں سینکڑوں تاریخی نقش و نگار والے سیاحتی مقامات موجود ہیں۔ صبا قمر اور بلال سعید اپنا آرٹ کلچر وہاں پیش کر سکتے تھے لیکن مسجد میں شوٹنگ کر کے ہمیں بتایا گیا کہ یہ پاکستان ہے یہاں پیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔ زرا تم دام تو بدلو یہاں ایمان بکتے ہیں۔

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 86694 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.