ظلم اور انسانیت

کس کس ظلم کی ہم بات کرے کس ظلم کو چھپائے اب تو سڑکوں پہ خون کی دریا بہنے لگی ہے اب تو انسانیت کئ دفن ہوگئ کس کو اب انصاف دلائیں بنت حوا کو کہ درندوں کا شکار ہے یا ابن آدم کو کہ سڑکیں جوانوں کی لہو سے رنگین ہو رہے ہیں یا اس ظلم کی بات کریں کہ باپ بھوک کی آگ پیٹ میں لئے اپنی خاندان کو ختم کردیتا ہے روز دروازے پہ غم ایک نہی کہانی لئے ہر کسی کو اپنے لپیٹ میں لیے پھر رہا ہے
تم کس ریاست کی بات کرتے ہو تم کس آزادی کی خوشی مناتے ہو لہو تو آج بھی بہہ رہے ہیں آزاد تو ہم آج بھی نہیں ہیں آنکھیں آج بھی والدین کہ آنسو سے بھرے ہیں پہلے انسانیت مرگئ ہے پر آج لگتا ہے کہ خدا بھی خاموش ہے اب تو خدا نے بھی انسان کو اس کے حال پہ چھوڑ کہ اس سے منہ موڑ لیا ہے

زندگی روز نئی کہانیاں سنانے لگی ہے اب تو رات کو نیند نہیں آتی کہ کیا پتا آنکھیں بند ہو اور ایک نئی کہانی جنم لے ایک اور جوان بیٹے کا خون بہہ ایک باپ اور خود کشی کر لے ایک ماں پھر بےبس روئے ایک حوا کی بیٹی اور درندوں کی جال میں پھنس جائے ایک روزگار پھر لوٹ لیا جائے اور کتنے ظلم سہہ جاتے ہیں اور ہم کہتے ہیں ہم مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں

عدالت خاموش ہے عوام تماشائی بنا انصاف کو چیخ چیخ کے آواز دے رہا ہے مگر انصاف خاموش کئ دفن کر دیا گیا ہے خدا بھی خاموش ہے سب کچھ درہم برہم ہونے لگا ہے سکون چھین لئے گئے ہے کیا اب بھی ظلم باقی ہیں ؟؟؟

آزاد ہونا الگ ملک حاصل کرنے کا نام نہیں آزاد ہونا یک جہتی ہیں انفرادی حق دینا ہر کسی کو آزادی ہے نہ کے روز مر مر کے جینے کا نام آزادی ہے ظلم تھم بھی جائیں مگر خسارے پورے نہیں ہونگے مرنے والے واپس نہیں آئینگے ٹوٹے دل واپس جوڑے نہیں جائینگے خدارا اب ظلم کی انتہا کی بھی انتہا ہوگئ ہیں اب انسانیت کو اہمیت دینا سیکھیں تاکہ اب ظلم کو شکست ہو اور انسانیت کی فتح ہو
 

گل صحرائی
About the Author: گل صحرائی Read More Articles by گل صحرائی: 10 Articles with 8853 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.