پنجاب میں جیل خانہ جات کی تاریخ پر ایک نظر

 معاشرے سے جرائم کے خاتمہ اور عدل وانصاف کی فراہمی کے لیے ویسے تو ہر دور کے حکمرانوں نے مروجہ قوانین کے تحت جیل کا نظام نافذ کیا لیکن اسلامی تاریخ میں خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ قیدیوں کو جیل میں رکھنے کانظام قائم کیا ۔ ماضی کی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا قیدیوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے ،لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ جیل کے نظام میں بھی بہتری آتی جارہی ہے، دنیا میں منظم جیل خانہ جات کا نظام یورپ میں 1166میں رائج کیا گیا، برصغیر میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد انگریر دور میں جیلوں کا نظام متعارف کروایا گیا۔ پہلے عارضی طور پر مختلف مقامات پر جیلیں بنائی گئیں تاکہ برطانوی راج کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جیل کی کال کوٹھری میں ڈال کر بغاوت کو ہمیشہ کے لیے کچل دیا جائے ۔ پنجاب میں رائے احمد خاں کھرل ، دلا بھٹی اور بھگت سنگھ جیسے جنگجو کی آزادی کی تحریک کو کچل کرمقامی لوگوں کو دبانے کے لیے جہاں دیگر اقدامات کیے گے وہاں پنجاب میں جیل خانہ جات کا نظام1854 میں نافذ کیا گیا ،جیل کے ایسے سخت قوانین بنائے گئے تاکہ آزادی کی علاقائی تحریکوں کا خاتمہ کیا جاسکے اوربرصغیر کی عوام کو نسل در نسل غلام بنایا جاسکے ۔ انگریز نے پہلے 1874میں بمبئی ایکٹ ٹوکے نام سے جیل خانہ جات کا پہلا عبوری قانون بنایا جس کے بعد اس کو مزید سخت کرکے یکم جولائی 1894 کو باقائدہ طور پر جیل خانہ جات کے قوانین کو نافذ کیا گیا ۔ جس کے تحت آج تک ہماری جیلوں کا وہی فرسودہ نظام چل رہا ہے ۔ جیلوں میں موجودہ قیدیوں کی تعداد کے مطابق پاکستان دنیا کا23 واں بڑا ملک ہے 2018کے سروے کے مطابق جیلوں میں 98.6فیصد مرد قیدی ، 1.7خواتین قیدی ، 1.2غیرملکی قیدی جن میں سے 64.5فیصد قیدی سست عدالتی نظام کی وجہ سے قید کاٹنے پر مجبور ہیں پاکستان میں کل 99جیلیں ہیں ،بلوچستان میں 11، کے پی کے میں 23،سندھ میں 26اور پنجاب میں 40جیلیں ہیں قیام پاکستان کے وقت 1947میں پنجاب میں 19جیلیں موجود تھیں جبکہ 21جیلیں بعد میں بنائی گئیں ، جن میں 9سینٹرل جیل ، 25ڈسٹر کٹ جیل ، 1ہائی سیکیورٹی جیل ، 1خواتین کی جیل ، 2نوعمر بچوں کی جیل ، 2سب جیل جبکہ 3جیلیں زیر تعمیر ہیں ۔قیام پاکستان سے قبل انگریز سرکار نے پنجاب کے مختلف اضلاع میں جیلیں قائم کیں جن میں ڈسٹر کٹ جیل جہلم 1854، ڈسٹر کٹ جیل راجن پور 1860،ڈسٹرکٹ جیل سالکوٹ 1863،نوعمر بچوں کی جیل بہاولپور1866،ڈسٹرکٹ جیل ملتان 1871، ڈسٹر کٹ جیل شاہ پور فیصل آباد 1873،سینٹرل جیل ساہیوال 1873، ڈسٹر کٹ جیل گوجراں والا 1883،ڈسٹر کٹ جیل فیصل آباد 1894،سینٹرل جیل میانوالی 1904،ڈسٹرکٹ جیل اٹک 1905،ڈسٹرکٹ جیل مظفرگڑھ 1908،ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا 1910،سینٹرل جیل ڈی جی خان 1913،ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ 1922،ڈسٹرکٹ جیل قصور 1929،ڈسٹرکٹ جیل گجرات 1930، ڈسٹرکٹ جیل لاہور 1930،سینٹرل جیل ملتان 1930 شامل ہیں جبکہ قیام پاکستان کے بعد بنائی جانے والی جیلوں میں ڈسٹرکٹ جیل بہاولنگر 1947،ڈسٹرکٹ جیل رحیم یار خان 1950،سینٹرل جیل بہاولپور 1955،سینٹرل جیل لاہور 1965،سینٹرل جیل فیصل آباد 1970،خواتین جیل ملتان 1973،ڈسٹرکٹ جیل جھنگ 1973،منڈی بہاؤ لدین 1978،ڈسٹرکٹ جیل راو لپنڈی 1986،سب جیل چکوال 1998،نوعمر بچوں کی جیل فیصل آباد 2001،ڈسٹرکٹ جیل وہاڑی 2005،ڈسٹرکٹ جیل ٹوبہ ٹیک سنگھ 2007،ڈسٹرکٹ جیل اوکاڑہ 2015،ڈسٹرکٹ جیل پاکپتن 2015،ڈسٹرکٹ جیل بھکر 2015،ڈسٹرکٹ جیل لیہ 2015، ہائی سیکیورٹی جیل ساہیوال 2015،ڈسٹرکٹ جیل حافظ آباد 2016، ڈسٹرکٹ نارووال 2016، سب جیل شجاع آباد 2016 شامل ہیں جبکہ 3 جیلیں ڈسٹرکٹ جیل لودھراں اورڈسٹر کٹ جیل خانیوال سمیت 3جیلیں زیر تعمیر ہیں۔ تبدیلی سرکار نے پنجاب میں جیل خانہ جات کا قلم دان چوہدری زوار حسین واڑئچ کو دیا ہے جیل خانہ جات میں تاریخی تبدیلی کی ہے انہوں نے ملازمین کا سب سے دیرینہ مسئلہ تنخواہوں میں اضافے کا نہ ہونا اور سکیل اپ گریڈیشن کا ہے جس کے لیے سمری تیار کی جارہی ہے جوبہت جلد منظورہو جائے گی، جیل مینوئل میں بڑی حد تک تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک اب ماضی کے قصے ہیں۔
 

Abid Mughal
About the Author: Abid Mughal Read More Articles by Abid Mughal: 15 Articles with 12006 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.