پاکستان کا مطلب کیا؟

اگست کا مہینہ آ چکا ہے۔ہر طر ف گہما گہمی ہے۔جلسے ،جلوس ہیں اور نعرے لگ رہے ہیں۔ان نعروں میں سے ایک نعرہ جوہمارے کان بارہا سنتے ہیں اور ہماری زبانیں وہ نعرہ لگانے کی عادی ہو چکی ہیں وہ نعرہ ہے :پاکستان کا مطلب کیاــ’’ لا الہ الا اﷲ‘‘شب و روز ہم یہ نعرہ بڑے زور و شور سے لگاتے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی اس نعرے کا مطلب اور اس میں چھپے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی ہے؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ ا س نعرے کا مقصد کیا ہے؟....نہیں.... ہم میں سے اکثر اس کے مفہوم سے ناواقف ہیں۔

یہ نعرہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ ملک ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا ہے اوراس کے حصول کامقصد ایک اسلامی معاشرے اور ایک ایسی مملکت کا قیام ہے جہاں مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہواور وہ آزادی و خود مختاری سے اسلام پر عمل پیرا ہوں اور اس مملکت میں مکمل طور پراسلامی قانون کا نفاذ ہو نیز یہ کہ مسلمان انگریزوں کے تسلّط سے آزاد ہو جائیں، لیکن آج ہم اپنے حال پر نظر دوڑائیں اور اپنا محاسبہ کریں کہ کیا جن مقاصد کے لیے یہ ملک ہم نے حاصل کیا تھا وہ پورے ہوگئے؟کیا یہاں مکمل طور پراسلامی قانون نافذ ہو گیا؟کیا ہم انگریز کی غلامی سے آزاد ہو گئے؟کیا وہ اسلامی معاشرہ وجود میں آچکا ہے؟ تو ان سب سوالوں کا جواب ہمیں’’نہیں‘‘ میں ملے گا، کیوں کہ نہ ہی اسلامی معاشرہ وجود میں آیا ہے اور نہ ہی ہم آزاد ہوئے ہیں۔

ٓٓآج ہم آزادی کے گیت گاتے ہیں اور اپنے آپ کو آزاد تصور کر کے خوش ہوتے ہیں،لیکن درحقیقت ہمارے ذہن ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ہم ابھی تک اغیار کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ہمارا رہن سہن،ہمارے معاشی و معاشرتی معاملات کے طور طریقے، غرض یہ کہ ہمارا سب کچھ اغیار کے مشابہ ہے اور ہم بے فکری سے ان کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے گھومتے رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ بڑے زور و شور سے اپنی مظلومیت اور پستی کا رونا روتے ہیں،لیکن بجائے اس کے کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اس پستی کی وجہ تلاش کریں، ہم ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے ہیں، جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب اس پستی کی وجہ ہیں اوریہ پستی ہمارے اعمال ہی کی بدولت ہے۔

آج اگر ہم اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ یہ تین کام مضبوطی سے کریں۔اوّل :اپنے ذہنوں کو انگریز کی غلامی سے نجات دلوائیں۔ دوئم: ہم سب مل کر اسلامی معاشرے کا قیام عمل میں لائیں۔ سوئم: اﷲ کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں۔مندرجہ بالا کام کرنے کی بدولت ان شاء اﷲ ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت بھی واپس حاصل کر لیں گے اور اپنا مقصد بھی حاصل کر لیں گے۔پھر جب ہم اس کے مفہوم سے آ شنا ہو جائیں گے اور اس میں چھپے مقصد کو حاصل کر لیں گے تو پھر یہ نعرہ ہمیں اور بھی لطف دے گا اور ہم حقیقی معنوں میں یہ نعر ہ لگانے کے قابل ہو جائیں گے اور پھر یہ نعرہ دل کی گہرائیوں سے نکلے گا اور جہاں کی وسعتوں میں گونجے گا…………!!
 

Zarar Rabbani
About the Author: Zarar Rabbani Read More Articles by Zarar Rabbani: 13 Articles with 8334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.