شجرہ اور شجر

بشر کیلئے شجر کی کیا اہمیت اورقدروقیمت ہے یہ کون نہیں جانتا۔ اﷲ ربّ العزت کی رحمت کے بعد بشرکوزندگی کیلئے شجر کی ضرورت ہے ، بشر کوشجرسے کئی انعام اورکئی قسم کے ثمر ملتے ہیں۔ شجرہ نسب کا''شجرہ'' بھی ''شجر''سے آیا ہے، جوشجرہ کی اہمیت سمجھتا ہے وہ کسی شجرپرشب خون نہیں مارسکتا ۔ حضرتِ انسان سمیت دوسری مخلوقات کیلئے جہاں خالق دوجہاں کی نوازشات اوراس کے احسانات و انعامات کاکوئی شمارنہیں وہاں درخت بھی انسانوں اورحیوانوں کیلئے ایک بیش قیمت نعمت ہیں۔شجر کی قدرکسی پرندے سے پوچھ کر دیکھیں،ایک شجر کئی پرندوں کیلئے ان کی کائنات ،ان کی جنت ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کی شاخوں پراپنے گھونسلے بناتے اوروہاں انڈے دیتے ہیں جہاں اِن کے بچوں کی پیدائش اورپرورش ہوتی ہے۔یہ درخت کسی مخلص اورمحسن ماں کی طرح پرندوں کواپنی آغوش میں پناہ اورانہیں پیٹ بھرنے کیلئے اپنے شیریں پھل بھی دیتے ہیں،پرندے بھی ایک طرح سے احسان اُتارنے کیلئے دوران پرواز اپنے فضلے کی مددسے ان پیڑوں کی نسل آگے بڑھاتے ہیں ۔کرخت اورسخت موسم میں درخت کی چھاؤں بہشت کی'' ہواؤں'' اورمقدس ماں کی ''وفاؤں ''جیسی لگتی ہے۔تناور درخت میرے محسن اورمحبوب ہیں ،مجھے ان سے والہانہ عشق ہے ۔میں جب بھی اپنے خوبصورت گاؤں کوٹلہ کاہلواں ڈسٹرکٹ ننکانہ میں جاتا ہوں تووہاں عزیزم اظہرجمیل خان کے ہمراہ اپنے نانافیروزخان مرحوم کے کھیت میں جامن ،شہتوت اورآم کے ان پیڑ وں کوباری باری اپنے سینے سے لگاتا ہوں جن کی ٹہنیوں کے ساتھ میں بچپن میں جھولتااور زندگی بھر ان کاپھل کھاتا رہا ہوں۔ان میں سے کچھ درخت اب زندہ نہیں رہے اوران کاوجود نہ دیکھنامجھے بہت اداس کردیتا ہے،محبوب شجر کاہجر بھی ایک ایسازخم ہے جوکبھی نہیں بھرتا۔ہمارے گاؤں میں قطاردرقطارسرسبزوشاداب شجر ہیں اوراس طرح کا منظر روح کوسیراب کرتا ہے ۔جب سے شاہراہوں اورفیکٹریوں نے دیہاتوں کارخ کیا ہے یہ کئی خوبصورت معاشرتی روایات اوربیش قیمت درخت نگل گئی ہیں ۔ہمارے گاؤں کی زمین پرقائم چھ سات فیکٹریوں کا دھواں آس پاس کے کھیت کھلیانوں اورپیڑوں کیلئے زہرقاتل ہے لیکن ارباب اختیار میں سے کسی کو اس نقصان کی پرواہ نہیں ۔کوٹلہ کاہلواں کے درمیان سے ایک سڑک بھی گزرتی ہے جس کی تعمیر کیلئے میری آنکھوں کے سامنے کئی شجر قتل ہوئے ،ان پیڑوں کے قتل عام کا دلخراش منظر میں آج تک نہیں بھول پایا ۔شہرلاہورمیں میٹروبس کی تعمیر کے دوران بھی ہزاروں درخت کاٹے گئے بالخصوص لاہور جنرل ہسپتال کے بالمقابل قینچی امرسدھو سے چونگی امرسدھوتک دونوں طرف جہاں بیسیوں تناورپیڑہواکرتے تھے آج وہاں ایک بھی درخت نہیں ہے ،جہاں سے درخت کٹے ہیں اب وہاں کون پودے لگائے گا۔

دنیا کی ہرریاست اورمعاشرت کیلئے شجرکاری بیشک بہترین اورمنفعت بخش سرمایہ کاری ہے۔ہرمتمدن ریاست کیلئے جنگلات اس کابیش قیمت اثاثہ ہوتے ہیں،ماحولیات کیلئے بھی اشجار کادم غنیمت ہے ۔اپنے آس پاس درخت لگاناپھر اِن کی آبیاری اورحفاظت کرنا بحیثیت انسان ہمارا فرض اور ہمارے بعددنیا میں آنیوالے ہمارے پیاروں کاہم پرقرض ہے۔جس طرح ہمارے باپ دادا کے لگائے پیڑوں کاپھل ہم کھارہے ہیں اس طرح جودرخت ہم لگارہے ہیں ان کاپھل ہمارے بعدآنیوالے انسانوں کونصیب ہوگا۔ہرعہد کے انسان کیلئے درخت راحت کاسامان رہے ہیں ۔دنیا بھر میں کئی اقسام کے شجر اﷲ تعالیٰ کی جانداراورشاندار مخلوق ہیں۔ہرشجر کاثمراوراس کی تاثیرایک دوسرے سے منفرداور مختلف ہے ۔اﷲ تعالیٰ کوحضرت انسان کی طرح اپنی ہرتخلیق سے محبت ہے ،جس وقت کوئی مسلمان ایک بار سبحان اﷲ کہتا ہے تواﷲ تعالیٰ جنت میں اس کے مخصوص مقام پر ایک بہت بڑادرخت لگادیتا ہے۔ مسلمان بار بار سبحان اﷲ کہتا جائے گاتوقادروکارسازاﷲ ربّ العزت بار بار جنت میں اس کے نام کادرخت لگاتاجائے گا۔کوئی بشرطوطاچشم ہوسکتا ہے لیکن شجر بہت باوفااورباصفا ہوتے ہیں ،جس طرح ہمارے پیارے ہم سے روٹھ جاتے ہیں اس طرح کئی تناورپیڑ بھی کسی بیماری یادوسری وجوہات کے نتیجہ میں سوکھ جاتے ہیں مگرہمارا ساتھ نہیں چھوڑتے،جودرخت سوکھ جائے وہ بھی ہمارے کام آجاتا ہے ۔

ایک ہوشمند انسان کی کسی درخت کے ساتھ کیا عداوت ہوسکتی ہے ،خیبرپختونخوا میں شجرکاری مہم کیخلاف تخریب کاری میں ملوث گروہ پرقانون کی طاقت سے ضرب کاری لگاناہوگی۔تبدیلی سرکار کے ساتھ رنجش ، عناد یا سیاسی عداوت کی سزا پیڑوں کونہیں دی جاسکتی اورنہ ہماراملک اس قسم کی غنڈہ گردی کامتحمل ہوسکتا ہے۔اسلامی تعلیمات اوراحکامات کی روسے اگرکوئی دشمن ملک اہل اسلام کے قبضہ میں آجائے تو ایک بھرپورضابطہ اخلاق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ وہاں بھی کسی مسلمان کو درخت تک کاٹنے کی اجازت نہیں ہے یہ توپھر اپناوطن اوراپنے درخت ہیں۔اس قومی سانحہ میں ملوث عناصر کوقرارواقعی سزادی جائے ورنہ آئندہ کسی دوسرے مقام پر زندہ درخت ان شرپسندوں کی عداوت اورجہالت کانشانہ بن سکتے ہیں ۔ راقم کے نزدیک کوئی زندہ درخت ناحق کاٹ دینا قتل عمد ہے اورکسی جتھے کی صورت میں ایک ساتھ زمین میں تازہ تازہ لگائے جانیوالے ہزاروں ننھے ننھے شجر اکھاڑ دینا یاانہیں مسلنادہشت گردی ہے ۔خیبرپختونخوا کے ڈسٹرکٹ خیبر میں شجرکاری مہم بلڈوز کرنے کیلئے جس طرح درندگی کامظاہرہ کیا گیا اس سے پوری قوم کودنیا میں شرمندگی اٹھاناپڑی ۔اس طرح توکوئی وحشی درندہ یاکوئی بدمست ہاتھی بھی کسی جنگل میں پیڑوں کواپنے پیروں سے نہیں روندتا جس طرح خیبرپختونخوا کے ڈسٹرکٹ خیبر میں ان مٹھی بھر شرپسنداورگمراہ عناصر نے ہزاروں درخت موت کے گھاٹ اتارے ہیں ،ان کوعہد حاضر کے ابوجہل اورمیرجعفر کہنا بیجا نہیں ہوگا۔اس قومی سانحہ میں ملوث '' ماسٹر مائنڈ'' کوفوری گرفت میں لیا،اس شیطان کو بے نقاب اوراس کابے رحم احتساب کیا جائے ۔ اپنے ناپاک ہاتھوں سے درخت اکھاڑنے والے درندوں کیخلاف صوبائی حکومت فوری طورپر دہشت گردی کی دفعات کے تحت قانونی کارروائی یقینی بنائے ۔تعجب ہے ابھی تک قانون کاڈنڈا شجرکاری مہم کے دشمنان پرکیوں نہیں برسا ۔پیڑوں کے قاتل ابھی تک آزاد کیوں ہیں ،صوبائی حکومت کو کس بات کاانتظارہے ۔اس قسم کے درندوں اور حیوانوں کامقام زندانوں میں ہے ۔

چاروں صوبوں میں ہربرس منظم انداز سے ہونیوالی شجرکاری مہم بیشک ریاست ،معاشرت اورمعیشت کیلئے ٹھنڈی ہواکاجھونکا ہے ۔ اس قابل قدراورقابل رشک مہم میں شریک شہری اورسرکاری اہلکارہماراقومی ہیروزہیں۔ ریاست کو شجرکاری مہم کومزیدمنظم جبکہ اس کی بھرپورپذیرائی اور کامیابی یقینی بنانے کیلئے ایک موثر قومی ضابطہ اخلاق کے ساتھ ساتھ سخت قانون بناناہوگا۔شہری آبادیوں سمیت جہاں بھی کسی ناگزیر ضرورت کے تحت درخت کاٹنا مقصود ہووہاں بھی مقامی یونین کونسل سے این اوسی ضروری قراردیاجائے۔اگردنیا کے کئی ملک ایک درخت بچانے کیلئے وہاں شاہراہوں کارخ موڑسکتے ہیں توہم اپنے ملک میں پیڑوں کی بقاء کیلئے اپنے قومی وسائل کاایک مخصوص حصہ مختص کیوں نہیں کرسکتے۔اپنے ''پیروں'' پرنوٹ نچھاورکرنیوالے لوگ اگر'' پیڑوں'' پراپناپیسہ صرف کریں توانہیں زیادہ ثواب ملے گا بلکہ ایسا ثواب تو موت کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ہرصوبائی حکومت مردم شماری طرز پر اپنے اپنے صوبہ میں پیڑوں پرمخصوص نمبرزلگائے۔جنگلات سمیت مختلف شاہراہوں اورکھیت کھلیانوں سے پیڑوں کا کٹاؤروکنے کیلئے مانیٹرنگ کانظام اپ گریڈ کیاجائے۔شجرکاری مہم کی کامیابی اوراس میں شریک شہریوں اور کسانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ریاست انعامات اورسول اعزازات کاسلسلہ شروع کرے ۔بشر اورشجر کی دیرینہ دوستی مزید پائیدار بنانے کی ضرورت ہے۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 89736 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.