نگینہ ایک گمنام ،بے سہارہ ،بے
بس اور بے وسیلہ خاتون ہے ۔وہ شہزاد ٹاﺅن کے مختلف گھروں میں کام کاج کر کے
گزر بسر کرتی تھی ۔یوں تو اس کی پوری زندگی دکھوں،غموں،محرومیوں اور
آزمائشوں سے بھری پڑی ہے لیکن چند دن قبل اس پر جو قیامت ڈھائی گئی اس کا
سن کر ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،انسان لرز اٹھتا ہے،دل سے درد
کی اک ہوک سی اٹھتی ہے اور آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔
یہ 19مئی 2011 بروز جمعرات کا واقعہ ہے۔ حسبِ معمول نگینہ یکے بعد دیگرے
شہزاد ٹاﺅن کے مختلف گھروں میں تیزی سے اپنے کام نمٹا کر ایک گھر سے دوسرے
اور دوسرے سے تیسرے میں پہنچی ....جب وہ تیسرے گھر میں کام کا ج سے فارغ
ہوکر باہر نکلی تو اس کا شقی القلب شوہر عرفان گھات لگائے بیٹھا تھا ....وہ
اس پر پل پڑا ،اس نے اسے دبوچ لیا اور اس کے سر اور چہرے پر تیزاب انڈیل
دیا ....تیزاب کی وجہ سے نگینہ کا سر،چہرہ اور جسم کا زیادہ تر حصہ بری طرح
جھلس گیا ،وہ تڑپتی رہی ،چیختی چلاتی رہی، دہائیاں دیتی رہی لیکن اس سنگدل
شخص کو اس پر ذرا بھی ترس نہ آیا۔جب نگینہ کی چیخ وپکار سن کر اردگرد سے
لوگ جائے وقوعہ کی طرف کی طرف دوڑے آئے تو جنونی عرفان بھاگ کھڑا ہوا۔ کچھ
لوگوں نے اس کا تعاقب کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی کے ہاتھ نہ آیا پھر کچھ
بندگان خدانے نگینہ کو ہماری مسجد کمیٹی کے سینئر رکن چودھری اکرم صاحب کے
گھر پہنچا یا ۔اکرم صاحب کی خدا ترس اور رحمدل بیوی نے فوری طور پر اس
بلکتی سسکتی خاتون کو پولی کلینک ہسپتال منتقل کیا ۔چودھری اکرم صاحب بھی
ہسپتال پہنچ گئے ،پولی کلینک ہسپتال میں ابتدائی طبی امداد کے بعد نگینہ کو
پمز ہسپتال کے برن کیئر سنٹر لے جایا گیا ۔جہاں وہ ایک ہفتے سے موت وحیات
کی کشمکش میں ہے اور ڈاکٹرز اس کے علاج معالجہ میں دن رات ایک کیے ہوئے
ہیں۔نگینہ چونکہ بے سہارہ اور لاوارث خاتون ہیں اس لیے جب اس واقعے کی
تفصیلات ہمارے علم میں آئیں تو باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ انسانی
ہمدردی کی بنیاد پر جامع مسجد محمدی کے پلیٹ فارم سے مظلوم نگینہ کی ہر قسم
کی اخلاقی ،مالی ،طبی اور قانونی مدد کی جائے گی ۔ پمز ہسپتا ل میں راقم
الحروف ،مسجد کمیٹی کے صدر چودھری محمد شریف ، چودھری محمد اکرم اور حاجی
محمد طاہر سمیت دیگر معززین علاقہ نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس کے دوران اس
اہم ایشو کی طرف حکومت ،پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی
توجہ مبذول کروائی ،مجرم کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا اور مظلومہ کے ساتھ
ہر ممکن تعاون کا اعلان کیا ۔پریس کانفرنس کے دوران کیے گئے اعلانات پر
عملد رآمد کے لیے مسجد کمیٹی کے سینئر رکن چودھری محمد اکرم کی سربراہی میں
ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ چودھری اکرم اور ان کے رفقاء نے دن رات ایک کر
کے اس خاتون کے علاج معالجے ،اسے انصاف کی فراہمی،مجرم کی گرفتاری اور اسے
کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے بہت فعال کردار ادا کیا جو بلاشبہ آبِ زر سے
لکھنے کے قابل ہے ۔اسلام آباد پولیس بالخصوص تھانہ شہزاد ٹاؤن اور رورل
ایریاز کی پولیس نے اس واقعے میں انتہائی مخلصانہ اور جراتمندانہ انداز سے
پیش رفت کی ،وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے پمز ہسپتال میں مظلومہ کی
عیادت کے لیے آنے کا اعلان کیا لیکن و ہ خود تو نہ آسکے لیکن انہوں نے اپنی
ایک نمائندہ خاتون کو پھولوں کا گلدستہ دے کر بھیجا اور پولیس کو ہدایت کی
کہ وہ مجرم کی فوری گرفتاری کے معاملے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں اور
پھر الحمد للہ صرف دو دنوں کے اندر اسلام آباد پولیس کے بہادر اہلکاروں پر
مشتمل ٹیم فیصل آباد کے نواحی علاقے سے مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو
گئی ۔
اس درد بھرے اور فکر انگیزسانحہ کے حوالے سے چند امور انتہائی توجہ کے حامل
ہیں
(۱) جنونی عرفان نے یہ قدم صرف گھریلو ناچاقی کی بنیاد پر اٹھایا اس کے
بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ منشیات کا عادی تھا اور اس کا اکثر اپنی بیوی
سے جھگڑارہتا ۔نگینہ نے عرفان کے خلاف تنسیخِ نکاح کا دعوی ٰ دائر کر رکھا
تھا عرفان نے اسی ”جرم “ کی پاداش میں اسپر ظلم وستم کا یہ پہاڑ توڑا ۔یہاں
قابل غور بات یہ ہے کہ گھریلو نا چاقی ایک معمول کی بات ہے ،میاں بیوی کے
مابین لڑائی جھگڑا بھی کوئی نئی چیز نہیں ،انسانی معاشرے میں ہزار اونچ نیچ
ہوجاتی ہے لیکن گھریلو ناچاقی ، لڑائی جھگڑے یا محبت کی ناکامی کو انتقام
کی شکل دے کر ایسی درندگی پر اتر آنا کہ کسی کی جان کے درپے ہوجانا،کسی
مظلوم اور نہتی لڑکی پر تیزاب ڈال کر اس شکل تک مسخ کرنے کی جسارت کرنا یہ
انسانیت نہیں بلکہ درندگی ہے۔ اور یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں
بلکہ اس قسم کے کئی واقعات وقتاً فوقتاً رپورٹ ہوتے رہتے ہیں ۔زندگی کے ہر
شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس حوالے سے ذہن سازی کی ضرورت ہے اور ان
میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کبھی بھی جذبات میں ایسا کوئی قدم
نہ اٹھائیں جو اللہ کے غیض وغضب کو دعوت دینے والا ،دوسروں کی زندگی تباہ
کرنے والا اور خود اپنے لیے پوری زندگی مسائل ومشکلات کا باعث بننے والا
ہو۔ حکومت ،میڈیا، علمائے کرام اور اساتذہ اگر اس معاملے میں سنجید ہ ہو کر
اسے اپنا کام سمجھنے لگیں تو معاشرے کو اس عذاب سے نجات دلائی جا سکتی ہے ۔
(۲ )نگینہ کی مد د کے سلسلے میں ابتدائی اور فوری اقدامات تو ہماری مسجد
کمیٹی کے سینئر رکن چودھری محمد اکرم اور ان کی اہلیہ نے کیے لیکن
بعدازاںباہمی مشاورت سے یہ طے پا یا کہ اس معاملے کو ہم مسجد کے پلیٹ فارم
اور مسجد کمیٹی کی طرف سے آگے لے کر چلیں گے ،مسجد کو مرکز بنا کر جب اور
جہاں بھی ضرورت پیش آئے گی تمام اہل علاقہ کو اس معاملے میں اپنا اپنا
کردار ادا کرنے کی دعوت دیں گے اور نگینہ کی ہر ممکن اخلاقی ،طبی ،مالی اور
قانونی مدد کریں گے ۔ حسنِ اتفاق سے اس سانحے کے اگلے دن جمعہ المبارک تھا۔
جمعہ کے اجتماع میں،راقم الحروف نے اس حادثے کو موضوع سخن بنایا اور لوگوں
کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا اور کہا کہ نگینہ ہم سب کی بہن اور
بیٹی ہے ۔اگر اس وقت اس کا اور کوئی نہیں تو ہمیں اس کے سر پر شفقت اور
تعاون کا ہاتھ رکھنا ہے چنانچہ تما م حضرات اس معاملے میں فکر مند ہوئے ۔
ہماری مسجد کے جملہ رفقاءبالخصوص چودھری محمد اکرم نے بہت ہی فعال کردار
ادا کیا ،چراغ سے چراغ جلتا چلا گیا اور اللہ کے فضل وکرم سے ہر طرف اجالا
ہو گیا ۔
یاد رہے کہ عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ علماء کرام ،مسجد کمیٹیوں
کے حضرات اور دینی رجحان رکھنے والے لوگ انسانی بنیادوں ،سماجی مسائل اور
عورتوں کے حقوق جیسے اہم ایشوز سے عموماً لاتعلق رہتے ہیں جبکہ ہمارے دین
کی تعلیمات اس تاثر کے بالکل برعکس ہیں ۔ہمارا دین مظلوموں کی حمایت
،عورتوں کے حقوق اور باہمی تعاون وتناصر اور اخوت ومحبت کا دین ہے ۔بنی
اکرم ﷺ پر جب سب سے پہلی وحی نازل ہوئی تو ام المومنین سیدہ خدیجة الکبریؓ
نے آپ ﷺ کے جو پانچ اوصاف ذکر فرمائے تھے وہ پانچوں فلاحی ووفاہی اور سماجی
خدمات سے متعلق تھے ۔ آج کے دور میں ان پانچوں اوصاف کو ہر عالم دین کے لیے
زندہ کرنا اور ہر مسجد کمیٹی اور مسجد کے باقاعدہ اور سرکردہ نمازی حضرات
کے لیے ان پانچو ں اعمال کو اپنا نصب العین بنا نا ازحد ضروری ہے۔مظلومہ
نگینہ کی معاونت اور اسے علاج معالجہ اور انصاف کی فراہمی ایک ایسی مثال ہے
جسے سامنے رکھتے ہوئے ملک بھر کے علماءکرام ،مذہبی جماعتوں کے قائدین و
کارکنا ن اور ملک بھر میں پھیلی مساجد کی منتظمہ کمیٹیوں کے اراکین کو اپنے
اپنے علاقے اور دائرہ کار میں نہ صرف یہ کہ ایسی مزید مثالیں قائم کرنی
چاہیں بلکہ ان کی تشہیر بھی کرنی چاہیے تاکہ دین اسلام اور مذہبی طبقے کے
حوالے سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔
(۳)اس واقعے کے حوالے سے اسلام آباد پولیس نے جس طر ح فعال کردار ادا کیا ،
اتنے مختصر وقت میں مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی ،مجرم کی
گرفتاری کے لیے پولیس کو کن کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا یہ ایک مستقل داستان
ہے لیکن مختصر یہ کہ پولیس کی تاریخ میں یہ ایک انوکھا اور یادگار واقعہ ہے
جس میں پولیس نے بالکل بے لوث انداز میں صلے کی تمنا اور ستائش کی غرض سے
بالاتر ہو کر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی اس پر وہ خراج تحسین
کے مستحق ہیں ۔وفاقی وزیر داخلہ ،اسلام آباد پولیس کے سالار آئی جی اسلام
آباد،رورل ایریاز کے ایس پی ملک عمر حیات ،تھانہ شہزاد ٹاﺅن کے یس ایچ او
طاہر صاحب اور ان کے رفقاءبالخصوص جمیل جعفری اوران کی ٹیم کے بہادر اہلکار
بھر پور مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ہمارے ہاں پولیس کی خامیوں اور خرابیوں کو
تو بہت اچھالا جاتا ہے لیکن ان کی اچھائیوں پر نہ ان کی حوصلہ افزائی ہوتی
ہے اور نہ ہی ان کی قدر کی جاتی ہے ۔ہمارا پروگرام ہے کہ انشااللہ عنقریب
ہم ان بہادر پولیس اہلکاروں کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کر کے اہلیان
شہزاد ٹاؤن کی طرف سے انہیں شیلڈز بھی دیں گے تاکہ وہ آئندہ بھی اسی طرح بے
لوث انداز سے خدمات سرانجام دے سکیں ۔
(۴)اسی طرح پمز ہسپتال کے برن کیئر سنٹر کے ڈاکٹرز اور معاون عملے کو بھی
اللہ رب العزت جزائے خیر عطا فرمائیں جنہوں نے نگینہ کے علاج معالجے کے لیے
سر توڑ کوشش کی لیکن اس کی حالت اب بھی خاصی خطرنا ک اور تشویشناک ہے اس
لیے تمام قارئین سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔پمز ہسپتال کے برن سنٹر کے
ڈاکٹر طارق صحیح معنوں میں مسیحا کہلانے کے مستحق ہیں۔ ہمارے ایک عزیز
طالبعلم عبدالواجد کے والد گرامی کچھ عرصہ قبل اپنے ہوٹل میں ہونے والی
آتشزدگی کے نتیجے میں بری طرح جل گئے تھے ان کے علاج معالجے کے دوران ڈاکٹر
طارق اور ان کی ٹیم کی دردمندی ،اپنے پیشے سے پر خلوص وابستگی اور شبانہ
روز محنت کا چرچا سنا تھا لیکن نگینہ کے معاملے میں اس کا تجربہ بھی ہوا
اور مشاہدہ بھی ....اللہ رب العزت ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازیں ۔
(۵)البتہ اس پورے سانحے کے دوران انسانی حقوق کی مالا جپنے اور عورتوں کے
حقوق کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی این جی اوز کی طرف سے بدترین غفلت اور سرد مہری
دیکھنے میں آئی ۔مظلومہ کی حمایت ونصرت تو کجا ان میں سے کسی نے اس کی مزاج
پرسی کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔این جی اوز کی ان بیگمات کو جہاں سے”
فنڈنگ“ کی توقع ہوتی ہے وہاں تو یہ آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں لیکن جو
حقیقی معنوں میں مدد اور معاونت کا مستحق ہو اس کا حال احوال پوچھنے کی
زحمت بھی نہیں کرتیں ۔
(۶)اس ایشو کو عوامی اور انسانی ایشو بنانے اور تمام اداروں کو ایکشن لینے
پر آمادہ کرنے کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے احباب نے جو تعاون کیا
اس پر اللہ رب العزت انہیں دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائیں ۔آمین |