آئیے مل کر سوہنی دھرتی کو بچائیں

پاکستان اس وقت دہشت گردی کی شدید لپیٹ میں ہے۔ سینکڑوں معصوم افراد خود کش حملوں میں جاں بحق ہوگئے۔ان دہشت گردوں نے مذہبی مقامات پر آگ اور خون کی خوب ہولی کھیلی۔ یہ بات تو اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ دہشت گردی کے ڈانڈے مقامی افراد سے نہیں بلکہ بھارت،ا مریکہ اور اسرائیل کے خفیہ اداروں سے ملتے ہیں۔ مگر یہ ایجنسیاں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے مقامی افراد کو استعمال کرتی ہے۔ جس طرح تحریک طالبان پاکستان نے چارسدہ میں دہشت گردی کی واردات اور کراچی میں پاک بحریہ کے نیول بیس مہران پر حملے کی ذمہ داری قبول کی اس سے لگتا تو یہی ہے کہ یہ ممالک ایسی کالعدم تنظیموں کی بدولت اپنا ناپاک ایجنڈہ پایا تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔ دہشت گرد گروپ اور تنظیمیں ایک منظم طریقے سے ہمارے نوجوانوں کو ورغلا کر ان کی برین واشنگ کرتے ہیں اور پھر انہیں اسلام کے نام پر خودکش حملہ کی ترغیب دیتے ہیں ۔ ان نوجوانوں کو جنت کا یقین دلانے کے بعدا نہیں مختلف شہروں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں پہلے سے موجود اپنے ساتھیوں کے ذریعے خود کش حملہ کرتے ہیں۔ یہ دہشت گرد اکثر کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہوکر دہشت گردی کا نیٹ ورک چلاتے ہیں جہاں ایک بم فیکٹری کے علاوہ آپسی رابطے کا بھی نظام موجود ہوتا ہے۔ اگر ہماری عوام بیدار ہوکر اپنے ارد گرد کے ماحول اور مشکوک افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھے تو بڑی حد تک دہشت گردی کی وارداتوں سے بچا جاسکتا ہے۔

ایسی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ اردگرد کے افراد کو دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع تھی مگر انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کے متعلق آگاہ نہ کیا۔ بعد میں جب دہشت گرد اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوجاتے تو پھر مقامی افراد کی جانب سے کف افسوس ملنے کی بہت سی خبریں منظر عام پر آتی ہیں۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے دہشت گرد جس علاقے میں موجود تھے، وہاں کے افراد ان کی مشکوک حرکتوں سے آگاہ تھے مگر کسی نے پولیس کو خبردار کرنے کی زحمت نہ کی۔ اسی طرح جولائی 2009ءمیں جنوبی پنجاب میں میاں چنوں کے نواحی علاقے میں ایک مدرسے میں قائم بم فیکٹری میں دھماکہ ہوگیا جس سے 17افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ وہ جانتے تھے کہ مدرسہ کا استاد گھر میں بم چھپاتا ہے۔ مگر وہ اس بات کو چھپاتے رہے جس کا نتیجہ گاﺅں کی بربادی کی صورت میں نکلا۔

کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مقامی افراد نے مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھی اور بروقت پولیس کو آگاہ کر کے دہشت گردی کے نیٹ ورک اور بم بنانے والی فیکٹری کو پکڑ لیا۔ گزشتہ مارچ 2010ء میں کراچی کے علاقے کورنگی میں بم بنانے کی ایک فیکٹری پر پولیس نے چھاپہ مارکر تیار شدہ بم اور استعمال ہونے والے متعلقہ میٹریل کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔یہ فیکٹری بھی دہشت گردوں کی حرکات و سکنات کی بدولت پکڑی گئی۔ تحقیقات کے دوران انہوں نے قائم خانی کالونی میں بھی ایک اور بم فیکٹری کا بھی ذکر کیا جہاں پولیس نے چھاپہ مار کر دھماکہ خیز مواد، بوتل بم، پائپ بم قبضہ میں لے لیا۔ پولیس ان دہشت گردوں کو ان کے مذموم عزائم سے قبل انہیں پکڑنے میں کافی موثر ثابت ہوئی ہے۔ کوئی بھی دہشت گرد جب اپنی مذموم کاروائی کو عملی جامہ پہنانے کی پیش بندی کررہا ہوتا ہے تو اس کی حرکات و سکنات کی وجہ سے اس کی شناخت میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ اگر مشکوک افراد پر نظر رکھنے کے حوالے سے عوامی شعور بیدار کیا جائے تو دہشت گرد وں کو ان کے مذموم عزائم سے قبل ہی پکڑ کر کسی بھی بڑی تباہی سے بچا جاسکتا ہے۔ القاعدہ کے آن لائن جہادی میگزین صدا الملاحم میں ناصر الوحشی نے لکھا ہے کہ دس گرام دھماکہ خیز مواد کے لئے زیادہ محنت اور رقم کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی تیاری کے لئے آپ کو اپنے گھر کے کچن سے تمام اشیاء مل سکتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے روزمرہ استعمال ہونے والے کیمیکلز کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مرکب کے اجزاء کو علیحدہ کر کے بھی بم میں استعمال ہونے والی اشیاء حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اگر کوئی فرد ایسی چیزوں میں دلچسپی لے تو سمجھ لیجئے اس کے عزائم خطرناک ہوسکتے ہیں۔ دھماکہ خیز مواد اور آمیزے کی تیاری اکثر کرائے کے گھروں، ہوٹل کے کمروں میں کی جاتی ہے۔ جہاں وہ عام اشیائے ضروریہ سے خطرناک دھماکہ خیز مواد تیار کرتے ہیں۔ نیل پالش، ہیئر بلیچ، بیوٹی ڈرگ کی شکل میں عام سٹور سے مل سکتا ہے۔ کھاد بھی اس غرض سے بڑے پیمانے پر استعمال کی جاسکتی ہے۔ تاہم ان اشیاء کی دہشت گردوں کو بھاری مقدار میں ضرورت ہوتی ہے لہٰذا سٹور مالکان ، عام لوگوں، ہوٹل سٹاف اور ہمسایوں کو ایسے کسی بھی شخص کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے جو ان اشیاء کو بھاری تعداد میں خرید رہا ہو۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان کے قریب دہشت گرد گروپ نے ایک بم فیکٹری بنا رکھی ہو۔ اسی طرح کوئی شخص کیمکلز، کیل، بیرنگ، ماسک، دستانے وغیرہ خرید کر کرائے کے گھر یا ہوٹل روم لائے تو اس پر کڑی نظر رکھی جائے۔ موبائل فون یا کلائی گھڑیاں بظاہر خطرناک نہیں مگر ان کے اندر کئی اشیاء بھی خطرناک بم بنانے میں مدد دے سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص غیر معمولی اشیاء جن کی عام طور پر گھر میں ضرورت نہیں ہوتی وہ بھی لائے تو سمجھ لیجئے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ کیمیائی ردعمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دھویں یا خوشبو سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قسم کی کاروائی کی جارہی ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ ہمسایوں نے قریبی گھر سے نکلنے والے دھویں اور بدبو کی نوعیت سے دہشت گردوں کا سراغ لگا کر انہیں پکڑوانے میں مدد کی۔ اسی طرح سیوریج سسٹم کی نالیوں میں بہنے والے پانی یا کیمیکل سے بھی مشکوک سرگرمیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیونکہ دہشت گرد جب اپنے منصوبے کے آخر میں مدعا غائب کرنے پر توجہ دیتے ہیں تو وہ کمرے سے ہر فالتو شے کو بہا دیتے ہیں یا جلا دیتے ہیں۔ لہٰذا اس قسم کی کاروائی پر بھی نظر رکھی جائے۔ دہشت گردوں کو پکڑنے کا ایک موقع ان کی جانب سے دھماکہ خیز مواد کی ٹیسٹنگ کے دوران بھی ہے۔ دہشت گرد جب بھی کوئی دھماکہ خیز مواد تیار کرتے ہیں، اس کا ٹیسٹ ضرور کرتے ہیں۔ چھوٹے موٹے ٹیسٹ تو گھر کے پچھواڑے میں کئے جاسکتے ہیں، مگر تھوڑے سے پیچیدہ یا خطرناک ٹیسٹ کو وہ آبادی سے دور کسی ویران جگہ یا پارک یا پلے گراﺅنڈ کے کسی غیر مصروف حصے میں جاکر کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ایسا کوئی دھماکہ آپ دیکھیں یا آواز سنیں تو اس کی اطلاع متعلقہ احکام کو ضرور دیں۔اس طرح اس دھماکے میں استعمال شدہ کیمیکلز سے اس کی نوعیت اور اغراض و مقاصد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح مزید تحقیق سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور ٹھکانوں تک رسائی ممکن بناسکتی ہے۔ اس طرح عوام کی جانب سے یہ چھوٹی سی اطلاع کسی بڑی دہشت گردی کی واردات ناکام بنا سکتی ہے۔ اگر ہم اسی طرح متحد ہوکر دہشت گردی کے خلاف پرعزم اور ثابت قدم رہے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کو اس عفریت سے پوری طرح نجات مل جائے گی اور پاکستان کو توڑنے اور عدم تحفظ کا شکار کرنے والے عناصر کے خواب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تہہ خاک ہوجائیں گے۔
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 34860 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.