امسال یوم آزادی کےموقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی
گڑھ مسلم یونیورسٹی سے آنے والی بادِ نسیم نے دل خوش کردیا ۔ مرکزی حکومت
کی جانب سے ایک فریم ورک کے تحت یونیورسٹیوں کی درجہ بندی ( رینکنگ) کا
سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس کےمطابق وزارت انسانی وسائل نے40 مرکزی جامعات (سینٹرل
یونیورسیٹیز) میں طلبہ کے تنوع اور سرگرمی ، شعبہ جات کے معیار ، علمی
نتائج ، تحقیقی کارکردگی ، آو ٹ ریچ ، گورننس ، فائنانس ، قومی اور بین
الاقوامی درجہ بندی اور نصابی و غیر نصابی سرگرمیوںکا جائزہ لیا جاتا ہے ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ایم ایچ آر ڈی کے اس جائزے میں بہترین کارکردگی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے سال 2019-20 کے لئے مجموعی طور پر 95.23 فیصدنمبر حاصل
کیے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتظامیہ اور فیکلٹی کے باصلاحیت ارکان ہدف
کے حصول پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور طلبا ان سے بھرپور استفادہ کرتے
ہیں۔وزیر اعظم نےجامعہ کے مظاہرین کو لباس سے شناخت کرنے کی بات کی تھی اب
اس کارکردگی سے بھی پہچان لیں جو ان کی اپنی حکومت کے ذریعہ کی گئی ہے۔
جامعہ اور جے این یو نے اپنی کامیابی سے ظالم سرکار کو جو منہ توڑ جواب دیا
ہے اسےحال میں ہم سے جدا ہونے والے راحت اندوری نے اس طرح بیان کیا تھا کہ
؎
شاخو ں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
’جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے ‘ کی مصداق مرکزی وزارت تعلیم کی رینکنگ
میں اس جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پہلا مقام حاصل کیا جس پر گزشتہ ماہِ دسمبر
میں دہلی پولس نے اپنی درندگی کی انتہا کردی ۔ کیمپس کے اندر گھس کر حملہ ،
دارالمطالعہ کے اندر توڑ پھوڑ، سڑکوں پر بدترین سفاکی اور ذرائع ابلاغ میں
بدنامی کا طوفان بدتمیزی ۔یہ سلسلہ کورونا کی وباء کے باوجود جاری رہا
میران حیدر اور آصف اقبال کے علاوہ صفورہ زرگر جیسی حاملہ طالبہ پر دہلی
میں فساد بھڑکانے کا الزام لگا کر جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ حالیہ نتائج ان
ظالموں کی پیٹھ پر مشیت کا تازیانہ ہیں۔ جامعہ کےساتھ وہ جواہر لال نہرو
یونیورسٹی تیسرے مقام پر آئی جس کو بدنام کرنے کی خاطر بی جے پی کے آئی
ٹی سیل نے آکاش پاتال ایک کردیا تھا۔ پہلے تو تضحیک و تمسخر کا طوفان اٹھا
تے ہوئے اس کو عیاشی کا اڈہ قرار دیا گیا مگر بات نہیں بنی تو دہلی
یونیورسٹی کے اپنے غنڈوں سے حملہ کروا دیا گیا۔ احتجاج کے لیے میدان میں
آنے والے طلباکو بری طرح زدوکوب کیا گیا ۔ اس کے باوجود جب تعلیم کی سخت
کسوٹی پر ناپا گیا تو جے این ہو سرخ رو ہوگئی اور زعفرانی بدمعاشوں کا منہ
کالا ہوگیا۔
ستم بالائے ستم جامعہ اور جے این یو کے درمیان بھی دین دیال اپادھایئے کی
قائم کردہ بی ایچ یو نہیں بلکہ راجیو گاندھی یونیورسٹی تھی ۔ ویسے جامعہ
ملیہ اسلامیہ کے لیے یہ اعزاز نیا نہیں ہے ۔ پچھلے سال نومبر میں اس نے
عالمی شہرت یافتہ ادارہ کویک لے ریلی سائمنڈس (کیو ایس) انڈیا یونیورسٹی
رینکنگ 2020 میں بھی نمایاں کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پوزیشن
بہتر کی تھی جبکہ آئی آئی ٹیز سمیت تمام اعلی تعلیمی اداروں کو کیو ایس
انڈیا رینکنگ 2020 میں شامل کیا گیا تھا۔ اس سے قبل ، جامعہ نے لندن میں
قائم ٹائمز ہائیر ایجوکیشن (ڈبلیو) ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2020 میں مجموعی
درجہ بندی کے اندر 801-1000 سے 601-800 میں چھلانگ لگائی تھی۔ ایم ایچ آر
ڈی کے قومی ادارہ جاتی رینکنگ فریم ورک (این آئی آر ایف ) کےجو نتائج گزشتہ
جون میں شائع ہوئے ان میں جامعہ کو 10 ویں نمبر پر رکھا گیا یعنی دو پوزیشن
بہتری نوٹ کی گئی تھی ۔ آؤٹ لک؍آئی سی اے آر ای انڈیا نے یونیورسٹی کی درجہ
بندی 2019 میں جامعہ کو ٹاپ 25 سنٹرل یونیورسٹیوں میں تیسری پوزیشن اور
ہندوستان کی پہلی 100 یونیورسٹیوں میں 17 ویں پوزیشن ملی تھی ۔جامعہ ملیہ
اسلامیہ پر ہونے والےپہ درپہ حملوں کے باوجود یہ غیر معمولی کامیابیاں
مرحوم راحت اندوری کے اس شعر کی مصداق ہیں ؎
یہ قینچیاں ہمیں اڑنے سے خاک روکیں گی
کہ ہم پروں سے نہیں حوصلوں سے اڑتے تھے
گزشتہ سال ایک طرف جامعہ ملیہ اسلامیہ مرکزی حکومت کے عتاب کا شکار ہوئی تو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پرریاستی سرکار غضب ڈھاتی رہی ۔ کبھی تو یونیورسٹی
کو کسی راجہ کے نام پر منتقل کرنے فتنہ اٹھایا گیا تو کبھی جناح کی آڑ میں
بدنامی کا طوفان اٹھایا گیا۔ شرجیل امام اور ڈاکٹر کفیل خان کو علی گڑھ
یونیورسٹی میں کی جانے والی تقریر کے بہانے سے این ایس اے لگا کر پابند
سلاسل کیا گیا۔ پولس نے کئی مرتبہ کیمپس میں داخل ہو کر طلباء پر حملہ کرنے
کی بزدلانہ حرکت کی اس کے باوجود اے ایم یونے اترپردیش کی تمام سینٹرل
یونیوسیٹیز کو پیچھے کھدیڑ کر صوبے میں پہلا اور قومی سطح پر چوتھا مقام
حاصل کرلیا ۔ اتر پردیش کے ہیجان انگیز ماحول میں جہاں طلبا کے لیے اپنی
تعلیم پر توجہ دینا بے حد مشکل ہو یہ ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔علی گڑھ
مسلم یونیورسٹی سے اس دوران یہ خوشخبری بھی آئی کہ وائس چانسلر پروفیسر
طارق منصور کی خدمت میں بریگیڈیئر سنجے کادین نے نیشنل کیڈٹ کارپس (این سی
سی) کے اعزازی کرنل کے رینک کا سرٹیفیکٹ پیش کیا۔ کرنل کمانڈنٹ کا اعزاز
نامور شخصیات اور سینئر افسران کو عطا کیا جاتا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ ، علی گڑھ یونیوسٹی اور جے این یو کے طلباء کی احتجاجی
سرگرمیوں پر تنقید کرنے والے اکثر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آخر یہ طلباء
اپنی تعلیم پر توجہ دینے کے بجائے سیاست کیوں کرتے ہیں ؟اب یہ بات تو ثابت
ہوگئی کہ وہ تعلیم پر توجہ دیتے ہیں یا نہیں دیتے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ
جو طلباء سی اے اے جیسے مظاہروں میں شریک نہیں ہوتے وہ آخر کیا کیا گل
کھلاتے ہیں؟ اس سال 5 جنوری کو جے این یو کے ہاسٹل پر نقاب پوش غنڈوں نے
حملہ کیا اور پھر مذکورہ واقعے کی ویڈیو میں ایک نقاب پوش لڑکی سابرمتی
ہاسٹل کے اندر دو دیگر افراد کے ساتھ طالب علموں کو دھمکیاں دیتی نظر آ ئی۔
پولیس نے بتایا کہ لڑکی کی شناخت دہلییونیورسٹی کی طالبہ کے طور پر ہوگئی
ہے، لیکن چونکہ اس کا تعلق آر ایس ایس کی طلبا تنظیم اے بی وی پی سے تھا
اس لیے کومل شرما کا نام پوشیدہ رکھا گیا ۔ اس حملے کے وقت وہاں موجود پولس
اور حفاظتی دستہ خاموش تماشائی بنا ہوا تھا ۔ وائس چانسلر صاحب بھی کمبھ
کرن کی نیند سورہے تھے ۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ حملہ سرکار کے ایما پر
ہوا تھا۔
جامعہ میں تو پولس کے لباس میں اے بی وی پی کے حملہ آوروں کی شناخت ہوئی
لیکن ان سے کوئی نہیں کہتا کہ وہ کسبِ تعلیم کے بجائے یہ غنڈہ گردی کیوں
کرتے ہیں ؟ دہلی کی پولس روبوٹ کی مانند کام کرتی ہے کہ جہاں اشارہ ملا پل
پڑے اور جہاں اشارہ ہوا گاندھی جی تینوں بندر اس کے اندر سماجائیں۔ دسمبر
میں جامعہ کے اندر خوب دنگا فساد کرنے والی پولس کو فروری میں گارگی کالج
دہلی کی سالانہ تقریب پر حملے کرنے والے غنڈے دکھائی نہیں دیئے ۔ شراب کے
نشے میں بدمعاشوں کا جھنڈ طالبات سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہا لیکن پولس ٹس سے مس
نہیں ہوئی ۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے واقعات کا جامعہ ملیہ اسلامیہ یا علی
گڑھ مسلم یونیورسٹی میںتصور بھی ممکن ہے؟ نیزگارگی کالج کے طلبہ نے اس غنڈہ
گردی کو کیوں برداشت کرلیا؟ اس معاملے میں طالبات سپریم کورٹ پہنچیں تو اس
نے انہیں نچلی عدالت میں بھیجا اور وہاں سارے ملزمین کی بہ آسانی ضمانت
ہوگئی۔
اتر پردیش کے اندر بنارس ہندو یونیورسٹی اور الہ باد یونیورسٹی کو بھی
مرکزی یونیوسٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور وہ دونوں بھی حالیہ دوڑ میں شریک
تھیں۔ ان میں سے الہ باد یونیورسٹی کوتومشرق کا آکسفورڈ کہا جاتا نیز
بنارس وزیراعظم کا حلقۂ انتخاب ہے اس لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہاں
کا کیا ماحول ہے۔ بی ایچ یو کے اندر دو سال قبل سیکیورٹی گارڈ کا یونیفارم
تبدیل کیا گیا کیونکہ ان لوگوں نے پولس کے لباس میں اوباش طلبا کے ساتھ
طالبات کو چھیڑا۔ طالبات کی شکایت کے جواب میں وارڈن نے کہا، چھوا ہی تو
تھا اور کیا کیا؟ پروائس چانسلر حیرت سےبولےمعمولی سی چھیڑ خانی کےلیے
مظاہرے کی کیا ضرورت ؟ مضطرب طالبات نے اپنے میمورنڈم میں لکھا تھا کہ چھیڑ
خانی روزمرہ کا معمول ہے جس کا شکار مقامی و غیرملکی طالبات ہوتی ہیں ۔لڑکے
ہاسٹل کے باہر مشت زنی کرتے ہیں، پتھر پھینکتے اور گالیاں بکتے ہیں۔ یوگی
جی کی دلیر پولس نے احتجاج کرنے والی طالبات پرظالمانہ لاٹھی چارج کرکے
الٹا انہیں کے خلاف مقدمہ درج کردیا۔ جامعہ اور علی گڑھ پر ٹسوے بہانے والے
میڈیا کو اس جانب بھی توجہ کرنی چاہیے۔
ایک طرف جہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اعزاز سے نوازہ
جارہا ہے وہیں الہ آباد سینٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر رتن لال ہنگلو
استعفیٰ پیش فرما رہے ہیں۔ ۲۰۱۶ء میں ایچ آر ڈی منسٹری نے اُنہیں مالیات
اور دیگر اکیڈمک نیز انتظامی بے قاعدگی کے الزامات میں وجہ بتاؤ نوٹس دیا
تھا۔ ان پر غیر قانونی تقرر کے علاوہ ذاتی سیکوریٹی پر۱۰؍لاکھ روپے ماہانہ
لینے اور وی سی ہاؤس کی مرمت میں۷۰؍ لاکھ روپے کے غبن کا الزام تھا۔ الہ
آباد سینٹرل یونیورسٹی کے چانسلر پروفیسر گووردھن مہتہ نے 2017 کے
اندروزارت برائے فروغ انسانی وسائل کو بھیجے گئے اپنے ۱۴؍ صفحات کے استعفیٰ
میں تمام خامیوں کی نشاندہی کردی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ ان اسباب
کی بنیاد پر وہ کبھی الہ آباد یونیورسٹی نہیں گئے لیکن وزرات نے ہنوز ان
کا استعفیٰ منظور نہیں کیا۔
بدعنوانی کے علاوہ ان جامعات کا دوسرا مسئلہ غنڈہ گردی کا بول بالہ
ہے۔پچھلے سال الہ باد یونیورسٹی کے ہاسٹل میں روہت شکلا نامی طالبعلم کو
گولی مار دی گئی۔ اس جرم کا الزام آدرش ترپاٹھی، وشوکرما اور ابھیشیک یادو
پر لگا جو واردات کے بعد فرار ہوگئے۔ اس سے قبل بنارس ہندو یونیورسٹی کے
احاطے میں بھی ایک طالب علم کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ ایسے ماحول
میں کیسے توقع کی جائے یہ مرکزی یونیورسیٹیز تعلیمی میدان میں کوئی اہم
مقام حاصل کریں گی۔مرکزی حکومت کے ذریعہ جاری کردہ حالیہ فہرستاس حقیقت کی
تائید میں یہ ثابت کرتی ہے کہ جامعہ، جے این یو اور اے ایم یو میں ظلم و
جبر کے خلاف لڑنے والے بیدا ر مغز طالب علم ہر میدان میں کامیابی و کامرانی
کا پر چم لہراتےہیں اور زعفرانی چولہ اوڑھ کر پولس کے تحفظ میں دنگا فساد
کرنے والے ہر محاذ پر ناکام و نامراد ہوتے ہیں ۔ اس میں میڈیا کے لیے یہ
پیغام ہے کہ سورج یا چاند کی طرف منہ اٹھا کر تھوکنے سے ان کی چمک دمک یا
روشنی کم نہیں ہوتی بلکہ تھوک اپنے منہ پر واپس آتا ہے‘۔ ان جامعات کی
سرخروئی راحت اندوری کا یہ شعر یاد دلاتی ہے؎
میں نور بن کے زمانے میں پھیل جاؤں گا
تم آفتاب میں کیڑے نکالتے رہنا
|