ایک شخص نے کسی دانشور سے دریافت کیا حضرت !کرپشن
کی تعریف کیا ہے؟ اس نے بلا تامل جواب دیا اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا
کرپشن ہے۔ اگر اس فارمولے پر عمل کیا جائے تو ہماری پوری کی پوری
بیوروکریسی اور سارے کے سارے سیاستدان کرپٹ ہو جاتے ہیں ہمارا مذہب تو ہر
قسم کی کرپشن کے خلاف ہے ہمارے مذہبی، سیاسی و سماجی ،مذہبی رہنماؤں اور
اداروں کو کرپشن کے خلاف میدان میں آنا چاہیے جرأت مندی سے اس فتنے کا
مقابلہ کیا جا سکتاہے علماء کرام حلال و حرام کے فلسفہ کو اجاگر کرنے کیلئے
بڑے ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں یہ بات سب سے اہم ہے کہ ایک مسلم معاشرے
میں حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے ۔ حکمرانوں کو
اس سلسلہ میں بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے سابقہ وزیر ِ اعلیٰ پنجاب
کی اہلیہ تہمینہ درانی نے سچ کہاتھا آف شور کمپنیاں غیر اخلاقی ہیں ملکی
سرمائے کی غیر قانونی ذرائع سے غیرممالک میں منتقلی انتہائی خوفناک بات ہے
دنیا کے کئی ممالک میں منی لانڈرنگ بہت بڑا جرم تصورکیا جاتاہے کیونکہ اس
سے بہت سی معاشرتی برائیاں اور جرائم جنم لے سکتے ہیں اسلام نے ہر قسم کی
کرپشن کو حرام قرار دیا ہے اس کیلئے حرام اور حلال کا ایک وسیع تصور ا س کے
مفہوم ومعانی کااحاطہ کرتاہے جس مذہب میں اختیارات سے تجاوز کرنا کرپشن
تصورکیا جاتاہو اس کے حکمران کے لئے کیسا معیار ہونا چاہیے اس کا خود
تصورکیا جا سکتاہے یہ الگ بات کہ اب پاکستانی معاشرے میں حرام اور حلال کی
تمیز ختم ہو تی جارہی ہے یہی مسائل کی اصل جڑ ہے دولت کی ہوس ، ایک دوسرے
سے آگے نکلنے کی دوڑ، معاشرہ میں جھوٹی شان و شوکت اورراتوں رات امیربننے
کی خواہش نے اکثریت کو بے چینی میں مبتلا کرکے رکھ دیاہے۔۔انہی خواہشات نے
اختیارات سے تجاوز کرنے پر مجبور کررکھاہے لیکن میاں نوازشریف فیملی پر تو
اﷲ کا خاص کرم رہاہے انہیں ایسی کمپنیاں بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ
بات سمجھ سے بالا ہے یہ سچ ہے کہ میاں نوازشریف کی فیملی کی آف شور کمپنیوں
کے انکشاف کا عوام کیلئے بہت بڑا دھچکا لگاتھا کیونکہ میاں نوازشریف کروڑوں
عوام کیلئے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں ماضی میں آصف علی زرداری کی
کرپشن کے قصے مشہور تھے پھر سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی
ایسی ہی کئی کہانیاں گردش کرنے لگیں میاں شہبازشریف اور ان کے اہل ِ خانہ
کے اربوں کھربوں کے بے نامی اکاؤنٹس نے بی عوام کو چکرا کررکھ دیاہے پھر
تحریک ِ انصاف کی حکومت میں شامل رہنماؤں کی کرپشن کی داستانیں بھی ہرزدِ
عام ہورہی ہیں سادہ دل عوام کس پر اب یقین کریں کس پر اعتماد کریں شاید اب
راہبرکے روپ میں راہزن ہی لوگوں کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔ لیکن کتنی عجیب
بات ہے کہ ہرپارٹی کے کارکن سچ کا ساتھ دینے کی بجائے لپتے لپنے چوروں کا
دفاع کرتے نظر آرہے ہیں ایک اور بات میاں نوازشریف نے جب پارلیمنٹ میں خطاب
کرتے ہوئے عوام کو اپنی فیملی کے بارے میں’’ حقائق‘‘ بتانے کی کوشش کی اس
وقت کاش وہ یہ بھی بتاتے کہ سعودی عرب والی سٹیل ملز انہوں نے کتنے میں
فروخت کی؟ ان کے خاندان کی ملکیت آف شور کمپنیاں کتنی ہیں اور ان کا
کاروباری سرمایہ کتنا ہے ؟ اور ان کے اثاثوں کی کل مالیت کیاہے؟ کتنا
سرمایہ پاکستان سے بھیجا گیا’ لیکن انہوں نے ادھورے حقائق بیان کرکے
معاملات تشنہ چھوڑ دئیے اس مشکل کا واحد حل یہی ہے کہ قوم کو حقائق بتائے
جائیں سچ میں بڑی طاقت ہوتی ہے جھوٹ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ایک جھوٹ کو
چھپانے کیلئے ہزار جھوٹ بولنا پڑتے ہیں میاں نوازشریف فیملی کے ساتھ یہی
کچھ ہوا ہرفیملی ممبر نے اتنی بھونڈے انداز میں تاویلیں دیں اتنے جھوٹ بولے
کہ جھوٹ بھی شرما گیا ۔میاں نوازشریف کو پانامہ لے ڈوبا پیپلزپارٹی کے چیئر
مین آصف علی زرداری انکی ہمشیرہ اور اکلوتے صاحبزادے جعلی و بے نامی بینک
اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس کے گرداب میں پھنس کرہ گئے ہیں اور انہیں اس
گھن چکر سے نکلنے کی کوئی تدبیر نہیں سوجھ رہی یہی حال بحریہ ٹاؤن کے ملک
ریاض کا ہے حیرت تو اس بات پر ہے کہ نامی گرامی لوگ نیب سے ڈرتے ہیں خداسے
نہیں انسان اگر خدا سے ڈرجائے تو نہ جانے کتنے گناہوں سے بچ سکتاہے لیکن
لالچ ،ہوس اور دولت سے محبت نے اتنے مسائل پیداکردئیے ہیں کہ انسان سکون کو
ترستا پھررہاہے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کو اس حقیقت کو ادراک کرنا ہوگا
قوم کو ادھورے سچ قبول نہیں ہیں زندہ قومیں ہی فتحیاب ہوتی ہیں زندہ قوموں
کو سچائی سے پیارہوتاہے ہمیں بھی ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینا ہوگا ورنہ
اس عاشقی میں عزت ِ سادات جانے کا محاورہ سچ ثابت ہوجاتاہے ۔ ہر جائز
ناجائز طریقے سے دولت اکھٹی کرنے کی خواہش انتہاء یخوفناک ہے نہیں جانتے تو
پھر یہ جان لو کہ خواہشیں انسان کو رسوائی بھی دے سکتی ہیں۔ محبت بھی نفرت
بھی ۔۔ خواہشیں مقدر بدل بھی سکتی ہیں خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں ۔۔
خواہشات جس دل میں گھر بنا لیں اس کا سلسلہ لامتناہی دراز ہو جاتاہے جن
بھوت چمٹ جائیں تو وہ انسان کو چھوڑکر جا سکتے ہیں خواہشیں دل سے نہیں
جاتیں اس لئے انسان کے لئے ضروری ہے کہ خواہشات کی تکمیل کیلئے کوئی ایسا
گھناؤنا کام نہ کرے کہ اس سے انسانیت کوشرم محسوس ہو اسے خود اپنے آپ سے
شرمساری ہو ۔ خود اپنی نظروں میں آپ گرنا کنویں میں گرنے سے بدتر بلکہ
بدترین ہے افسوس صد افسوس ہربااختیار یہ ماننے کو تیارنہیں کہ انسان خسارے
میں ہے۔ |