اکثر مسلمان بعض اوقات پر حکمتی سے زیادہ جذباتی ہوجاتے
ہیں اور وہ اس بات کو طئے نہیں کرپاتے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے اور
جلدبازی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنا نقصان خود کرلیتے ہیں۔مسلمانوںکی جانب سے
لاپرواہی برتنے کانظام آج یا کل کا نہیں ہے بلکہ عرصہ دراز سے مسلمان جلد
بازی کے فیصلے لےرہے ہیں،بات چاہےعثمایہ سلطنت کی ہو یاپھر سلطنت عباسیہ
کی،یاپھر سلطنت خداداد کی۔ہر موقع پر چند جلد بازی اور جوشیلے مسلمانوںکی
وجہ سے اُس وقت کے سلطانوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے اور بعض موقعوں پر
سلطنتیں کھونی پڑی ہیں۔حالات اب بھی اسی طرح سے بدتر ہیں،مگر اس جذباتی قوم
میں اب بھی ہوش کا مادّہ پیدا نہیں ہواہے۔دنیا میں یہودی ،نصرانی ،عیسائی
اور آریائی قوموں کو اس بات کا اچھی طرح سے اندازا ہے کہ مسلمان اگرجذباتی
ہوتے ہیں تو وہ ان کے رسولﷺ کی توہین کے معاملے کو لیکر،اس لئے باربار
مسلمانوں کو توہین رسالت کی حرکتیں انجام دیتے ہوئے بھڑکانے کی کوشش کی
جاتی رہی ہے،اسی طرح کی ایک مذموم کوشش پچھلے دنوں کرناٹک کے بنگلورومیں
بھی پیش آیاہے۔اس پورے معاملےمیں دیکھا جائے تو توہین رسالتﷺ کو انجام
دینے والے مردود کی سزا وہی ہونی چاہیے جو اسلام نے بتایاہے،لیکن یہ ملک
اسلامی ملک نہیں ہے بلکہ یہاں جمہوری نظام ہے،اس کی بنیاد پر توہین رسالت ﷺکو
انجام دینے والے مردود کو شرعی سزانہیں دی جاسکتی۔لیکن توہین رسالت ﷺکی
مذمت کرنے پہنچےاُن لوگوں پر بھی یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ وہ نبی ﷺکی شان
میں کیسے ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں،کیونکہ اللہ کے نبیﷺ کی شان میں گستاخی
کرنے والاہی مجرم ہوتا ہے،نہ اس کا بھائی موردِ الزام ٹھہرایاجاسکتا ہے نہ
ہی اس کا باپ اور نہ ہی اس کے رشتہ دار،جس شخص نے غلطی کی ہے وہی قابل سزا
ہوگا۔مگر بنگلورومیں ہونے والے معاملہ کا جائزہ لیاجائے تو یہاں پر پوری
قوم جذباتی ہوگئی تھی اور کوئی کسی کاسننے والانہیں تھا،کوئی کسی کی نہ سنے
یہ پہلا موقع نہیں ،تاریخ گواہ ہے کہ اُمت میں ہر کوئی لیڈرہی بنتا
گیاہے،لیڈرکے ماتحت رہنے والے بہت کم رہتے ہیں،یہی حال ڈی جے ہلی کے معاملہ
میں دیکھنے کوملاہے،یہاں کونسی سیاست ہوئی ہے یہ الگ بات ہے لیکن یہاں
سیاست کا شکار مسلمان ہی ہوئےہیں۔دوسری جانب جو لوگ موقع پرقصوروار کے خلاف
شکایت کرنے پہنچے تھے،اُن لوگوں کا مطالبہ تھاکہ ملزم کو گرفتار کرکے فوری
طو رپر ہجوم کے حوالے کیاجائے،لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک جمہوری ملک میں
قصوروار کو ہجوم کے حوالے کیاجاتا ہے؟اس طرح کے معاملے کی مثال اسلامی
ممالک میں بھی نہیں ملتی۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ توہین رسالت ﷺکیلئے
ہندوستان میں الگ سے قانون نہیں ہے،کسی بھی شخص کی توہین یا کسی بھی مذہب
کے تعلق سے غلط کہنا ،لکھنا اور بتانا ہندوستانی آئین کی شق(آئی پی
سی153A) کے تحت مقدمہ درج کرنے کے اہل قرار دیاجاتا ہے،اہانت رسول کیلئے
بھی یہی شق کا استعمال ہوتا ہے۔اس سیکشن میں ملزم کو سزا تو ملتی ہے لیکن
موت کی سزا نہیں ملتی،بلکہ زیادہ سے زیادہ دو سال کی جیل کی سزا کا مجرم
ٹھہرایاجاتا ہے۔ایسے میںسوال یہ پیداہوتا ہے کہ جس قانون میں توہین رسالت ﷺکیلئے
الگ قانون نہیں ہے او رآزادی کے 74 سال کے درمیان کبھی مسلمانوں نے توہین
رسالت ﷺکو انجام دینے والے مجرموںکیلئے الگ سے قانون بنانے کا مطالبہ نہیں
کیا ہے تو کیسے آج مجرم کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کرینگے۔ہم یہ
نہیں کہہ رہے ہیںکہ توہین رسالت ﷺکے معاملات کو انجام دینے والے مردودوں کے
خلاف آواز اٹھائی نہ جائے اور نہ ہی یہ کہہ رہے ہیںکہ مسلمان خاموشی
اختیار کریں،بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیںکہ اس سنگین معاملے کیلئے مسلمان محتاط
ہوکر قانونی کارروائی کیلئے آگے بڑھے۔ڈی جے ہلی کےمعاملہ میں ایک اہم بات
یہ سامنے نکل کرآرہی ہے کہ احتجاجیوں نے جیسے ہی اس معاملے کو لیکر پولیس
تھانے میں شکایت کیلئے پہنچے تو وہاں پر اُن کی شکایت فوری طو رپر درج نہیں
کی گئی تھی جس کی وجہ سے مسلمان برہم ہوگئے۔جس ملک میں اپنے ہی پیسے نکالنے
کیلئے بینک میں گھنٹوں قطارمیں کھڑاہوناپڑتا ہے اُس ملک کے تھانوںمیں انصاف
کیلئے کم ازکم انتظار تو کرنا پڑتاہے۔اگر تھانے میں مقدمہ درج نہیں کیاجاتا
ہے توضلعی عدالت میں مقدمہ کرنے کا موقع ہے،اگر ضلعی عدالت میں بھی مقدمہ
درج نہیں ہوتا ہے تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی ایف آئی آر درج
کروائی جاسکتی ہے،غرض کہ ہر چیزکیلئے ایک نظام ہوتا ہے اور اُس نظام پر
چلیں گے تو یقیناً کامیابی ہاتھ آئیگی۔دراصل اُمت مسلمہ کوتوہین رسالتﷺ کا
مستقل حل نکالنے کی ضرورت ہے،وقتی احتجاج،جذباتی نعرے اور توڑ پھوڑ سے کوئی
حل نہیں نکلنے والانہیںہے۔اللہ نے قرآن میں فرمایاہے کہ"اے ایمان والوں
اپنی طاقت کو جمع کرواور ایک اُمت بن کر دشمن اسلام کا مقابلہ کرو،اللہ کی
رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور فرقہ فرقہ بن بنو"۔
|