جواں سال سوشانت سنگھ راجپوت کی موت افسوسناک ہے ۔ اس کے
والدکے کے سنگھ کو قتل کا شبہ واجب ہے۔ اس کی معشوقہ ریا چکرورتی پر دولت
ہڑپنے کا الزام سچ ہوسکتاہے۔ کسی نے اگر سوشانت کو خودکشی کے لیے واقعی
مجبور کیا ہو تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ اس کا اگر قتل ہوا ہے تو قاتل کو
گرفتار کرکے کیفرِ کردار تک پہنچایا جانا چاہیے نیز اگر کوئی مالی تنازع ہے
تو اس کا حل بھی نکلنا چاہیے لیکن کیا یہ کوئی قومی یا ریاستی مسئلہ ہے کہ
اس پر آسمان سر پر اٹھا لیا جائے؟ نہیں یہ ایک ایسا غبار ہے کہ جس کی آڑ
میں اہم معاملات کی پردہ پوشی کی جا رہی ہے۔ قومی سطح پر سوشانت راجپوت اور
پرشانت بھوشن کا معاملہ بیک وقت عدالت عظمیٰ میں گیا ۔ اس سے ایسا لگا کہ
گویا پرشانت بھوشن کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے جو منفی رویہ اختیار کررکھا
ہے اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے سوشانت کا معاملہوہاں لے جایا گیا ۔
اسے مہاراشٹر اور بہار کی مہا بھارت بنا کر پیش کیا گیا جس میں ایک کو
سوشانت کا دشمن دریودھن اور دوسرے کو مسیحا ارجن بنا دیا گیا ۔اس لیےسوشانت
سنگھ راجپوت کے طبی پوسٹ مارٹم کے ساتھ اس خودکشی کا سیاسی پوسٹ مارٹم
ضروری ہے ۔
سپریم کورٹ کےذریعہ سی بی آئی کی جانچ کو انصاف کی بہت بڑی جیت قرار دیا
گیا حالانکہ تفتیش کوئی بھی سرکاری ایجنسی کرے اس سے حقیقت نہیں بدلتی نیز
سی بی آئی بھی دودھ کا دھلا ادارہ نہیں ہے۔ اس کے افسران پر بھی بدعنوانی
کے سنگین الزامات لگ چکےہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پرشانت بھوشن کو نظر انداز
کرنے کی خاطر ہی سوشانت سنگھ راجپوت کے غبارے میں مسلسل ہوا بھربھر کر اسے
پھلایا جاتا رہا۔ اس لیے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ’سشانت تو بہانہ ہے پرشانت ہی
نشانہ ہے‘۔ سوشانت کی خودکشی کو میڈیا نے اس طرح اچھالا کہ جیسےملک میں
خودکشی کی یہ واحد واردات ہے۔ جنت نشان ہندوستان کا کوئی باشندہ خودکشی
کرتا ہی نہیں ہے حالانکہ جرائم کے اعداو شمار مرتب کرنے والے ادارہ این سی
آر بی کے مطابق مودی سرکار کے بعد بھی 2014 میں خودکشی کرنے والے1,31,666
تھے۔ اس کے بعد 2015 کے اندر اس میں اضافہ ہوا اور یہ وارداتیں 1,33,623
ہوگئیں۔ 2016 اور 2017میں قدرے کمی واقع ہوئی لیکن 2018میں یہ پھر سے بڑھ
کر 1,34,516 پر پہنچ گئی۔ مودی حکومت میں ان شعبوں کی رپورٹ روک دیجاتی ہے
جہاں سےبری خبر آتی ہو۔ این سی آر بی کا بھی 2019کا جائزہ ابھی تک نہیں
آیاتو گمانِ غالب ہے بہتری نہیں آئی ہوگی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ عام لوگوں
کی خبر نہیں بنتیبلکہ معروف فلمی ہستیوں یا سیاستدانوں کی بنتی ہے تو وہ
بھی درست ہے لیکن تب بھی تفریق و امتیاز تو ہے کیونکہ سشانت کو دوسروں سے
زیادہ اہمیت دی گئی ۔
1964 میں مشہور اداکار اور فلمساز گرودت کے بعد 1996 میں سلک سمیتاتک کسی
فلمی شخصیت کی خودکشی ا خبارات کی زینت نہیں بنی لیکن پھر اس رحجان میں
بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 2002 میں مونا نول نام کی اداکارہ نے خودکشی کی
اس کے بعد 2005میں میوری کا معاملہ سامنے آیا۔ 2008 کے اندرکنال سنگھ اور
2010 میں سنتوش جوگی نے خود کو ہلاک کیا۔ 2013میں جیا خان اور 2015میں اودے
کرن کے علاوہ شیکھا جوشی نے بھی خودکشی کرلی ۔ 2016 کے اندر بھی دو لوگوں
سائی پرشانت اورپرتیوشا بنرجی نے اپنی جان لی ۔ 2017 میں نتن کپور اور 2019
میں کشک پنجابی نے خودکشی کی۔ 2020میں یہ معاملہ اور کافی سنگین ہوگیا۔
سشانت سے پہلے پریکشا مہتا پھانسی کے پھندے پر لٹک گئی۔ سشانت کے بعد ٹیلی
ویژن کے اداکار سمیر شرما اورسشیل گودا نے خود کو ہلاک کیا ۔ اس لیے یہ
کوئی ایسی انوکھی بات نہیں ہے کہ جس ہر روز ذرائع ابلاغ میں بحث و مباحثہ
ہو۔
ابھی حال میں سشانت کی مانند بہار ہی کی رہنے والی انوپما پاٹھک نے بھی
خودکشی کی۔ میڈیا نے چونکہ پاٹھک کو نظر انداز کردیا اس لیے بہار کے
وزیراعلیٰنتیش کمار کو بھی پاٹھک سے کوئی ہمدردی نہیں ہوئی ۔ اسی اثنا میں
چنئی کی اداکارہ وجیا لکشمی نے تامل ناڈو کے مقامی سیاستدانوں کی جانب سے
ہراساں کیے جانے پر خودکشی کی کوشش کی تاہم بروقت کارروائی کرکے ان کی
زندگی بچالی گئی ۔ جیا لکشمی چونکہ حیات ہے اس لیے ان سے تفتیش کرکے انہیں
مجبور کرنے والوں کو بے نقاب کرنا نہایت آسان اور سزا دینا ضروری ہے لیکن
چونکہ وہ بارسوخ لوگ ہیں اس لیے غالباًاس نے میڈیا کو خرید کر اس کا گلا
گھونٹ دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا نام تک ذرائع ابلاغ سے پوشیدہ
رہا ۔ ویسے تو یہ اچھی بات ہے کہ جب تک کوئی مجرم قرار نہ دیا جائے اس
کانام نہ آئے لیکن عام لوگوں کا تو بغیر شواہد کے ہی میڈیا ٹرائل کردیا
جاتا ہے۔ ان پر سنگین الزامات کی بوچھار کی جاتی ہے لیکن بڑے سیاستدانوں کے
معاملے میں تہذیب و اخلاق سب یاد آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سشانت کے معاملے
میں دن رات آنسو بہانے والے ذرائع ابلاغ کو جیا لکشمی کے تئیں کوئی ہمدردی
نہیں ہے اور نہ وہ اسے ہراساں کرنے والوں کو سزا دلوانا چاہتا ہے۔
آج کل میڈیا سرکار سے زیادہ دیش بھکتی کا ڈھونگ رچاتا ہے لیکن اس کے نزدیک
فوجیوں کی خودکشی بھی کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہے۔امسال جب پورا یوم
آزادی سے ایک دن قبل صدر مملکت قوم سے خطاب فرمانے والے تھے ضلع بڈگام کے
رنگریٹ علاقے میں ایک فوجی اہلکار نے مبینہ طور پر خود کشی کر لی۔ صدر
جمہوریہ رام ناتھ کووند نے رام مندر کی تعمیر پر خوشی کا اظہار تو کیا مگر
اپنے فوجی کی تعزیت میں دو الفاظ نہیں کہے۔ میڈیا نےتو اس کی خبر ہی نہیں
لی کیونکہ سوشانت کے ماتم میں مصروف تھا۔ ارنب گوسوامی تو مہلوک فوجی لانس
نائیک اوم پرکاش کا نام بھی نہیں جانتا ہوگا کیونکہ اس کے نام کا جاپ کرنے
کے نہ پیسے ملتے ہیں اور ٹی آر پی بڑھتی ہے۔اس سال 21مارچ کو بھی سری نگر
کے سول سیکرٹریٹ پر مامور سی آر پی ایف کے ہیڈ کانسٹیبل دلباغ سنگھ نے
خودکشی کی تھی لیکن کسی نے ان پر نہ التفات کی نگاہ ڈالی اورنہ ان کے
گھروالوں کی خبرگیری کی۔
قومی صحافت کے سنجیدہ لوگوں نے اس کا نوٹس لیا ۔ کشمیر کے حالات پر گہری
نظر رکھنے والے مبصرین نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں بالخصوص سی آر
پی ایف جوانوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سخت ڈیوٹی، اپنے عزیز
و اقارب سے دوری اور گھریلو و ذاتی پریشانیاں ہیں۔ یوگا اور دیگر
نفسیاتیمشقوں کے باوجود کشمیر میں جوانوں کے اندر خودکشی کے واقعات گھٹنے
کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سال 2010 سے 2019 تک ملک
میں 1113 فوجی اہلکاروں کی خودکشی کے مشتبہ واقعات درج کیے گئے۔ یہ کوئی
معمولی تعداد نہیں ہے لیکن ہمارے میڈیا اور سیاستدانوں کے نزدیک غیر اہم ہے
۔ اس تناظر میں پچھلے سال کشمیر کے اندر تعینات کیے جانے والے دس ہزار سی
آرپی ایف کے جوانوں کی واپسی کا فیصلہ خوش آئند ہے ۔ اس میں کشمیر ی عوام
اور ان فوجیوں دونوں کی بھلائی ہے۔
سوشانت سنگھ کا معاملہ بنیادی طور پر اس کی معشوقہ ریا چکرورتی اور والد کے
کے سنگھ کے درمیان جائیداد کا تنازع ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے سی بی آئی
جانچ کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد کے کے سنگھ نے خود کواملاک کا قانونی وارث
بتاتے ہوئے سوشانت کے ذریعہ مقرر شدہ وکیلوں، سی ایز اور پروفیشنلز کی
خدمات منسوخ کردیں۔ انہوں نےکہا کہ اب ان کی اجازت کے بغیر کسی وکیل یا سی
اے کو سوشانت کے معاملہ میں پیش ہونے کا حق نہیں ہے۔ وہ اور ان کی بیٹیوں
نے ایس کے وی لا آفیسز وکیل ورون سنگھ یا وکیل وکاس سنگھ ہی کواپنے خاندان
کی پیروی کا ذمہ دار بنایا ہے۔ کے کے سنگھ کو اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش
آئی کہ ایک معروف چارٹرڈ اکاونٹ کمپنی نے پرشانت کے کھاتوں کی فورینسک
جانچ کرکے یہ رپورٹ دے دی ہے کہ اس کے بنک سے ریا چکرورتی کے کھانے میں
کوئی رقم منتقل نہیں ہوئی۔ اس طرح گویا سارے الزامات کی ہوا نکل گئی اس کے
باوجود ایک وراثت کی لڑائی کو سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے قومی مسئلہ بنادیا
گیا ۔ اس کی آڑ میں کورونا تقریباً 70ہزار روزآنہ کے مریضوں کو چھپادیا
گیا اور لگ بھگ دو کروڈ ملازمت پیشہ لوگوں کی بیروزگاری سے توجہ ہٹا دی گئی
۔ ویسے بے شمار روز آنہ کنواں کھود کر پانی پینے والوں کی جانب تو کبھی
کوئی دیکھتا ہی نہیں ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )
|