تاریخ کربلامیں ہے کہ حضورسیّد الانبیاء والمرسلین
کاارشادعالی ہے کہ آل محمد(خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم )
کوپہچانناآتش دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہے اورآل محمد(خاتم النبیین صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم ) سے محبت رکھناپل صراط سے گزارتاہے اورآل محمد(خاتم
النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ) سے عقیدت عذاب الٰہی سے امان ہے۔اﷲ کے
رسول ہمارے آقاومولیٰ تاجداردوعالم ہمیشہ اپنے اہل بیت اطہارکی تعظیم
وتکریم کی تعلیم صحابہ کرام (رضوان اﷲ علیہم اجمعین ) کودیتے رہے۔ یہی وجہ
ہے کہ صحابہ کرام ،تابعین، تبع تابعین اورآئمہ عظام رضوان اﷲ علیہم اجمعین
بھی ہمیشہ اہل بیت اطہارکی بہت زیادہ تعظیم و تکریم کرتے رہے۔ ان سے محبت
والفت رکھتے اوراپنے آپ کوان نفوس قدسیہ سے وابستہ رکھنے میں فخرمحسوس کرتے۔
اس تحریرمیں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق اورخلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق رضوان
اﷲ علیہم اجمعین کے اہلبیت اطہارسے محبت وعقیدت کے اقوال اورواقعات لکھنے
کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔ قارئین سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ دعا کریں کہ
اﷲ تعالیٰ اصحاب رسول واہلبیت اطہارکے ذکرخیرکی برکت سے وطن عزیزپاکستان
میں اسلام کا بول بالافرمائے، پاکستان کوامن، ترقی اورخوشحالی کی نعمتوں سے
نوازتارہے، اﷲ رب العزت صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اوراہل بیت
اطہارکے بابرکت ذکرکے وسیلے سے پاکستانی عوام کوتمام امراض اوروبائی امراض
سے محفوظ رکھے۔آمین۔ خلیفہ اول یارغارافضل البشر بعدازانبیاء حضرت سیدنا
صدیق اکبررضی اﷲ عنہ اہل بیت اطہارسے اپنی محبت کااظہاران الفاظ میں فرماتے
ہیں’’ خداکی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مجھ کواپنے اقرباء سے
حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اقرباء محبوب ترہیں۔‘‘ حضرت ابوبکرصدیق رضی
اﷲ عنہ کا ہی فرمان مبارک ہے کہ ’’ یعنی محافظت کروحضرت سیّدنا محمد ( خاتم
النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ) کی ان کے اہلبیت میں ‘‘ حضرت ابوبکرصدیق
رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ
داروں کی خدمت کرنامجھے اپنے رشتہ داروں کی صلہ رحمی سے زیادہ محبوب ہے۔
کتاب رسائل محرم کے صفحہ نمبردوسواٹھارہ پرلکھاہے کہ جب بارگاہ صدیقی میں
جناب فاطمۃ الزہرارضی اﷲ عنہا نے باغ فدک وغیرہ کامطالبہ کیا تو مسند نشین
خلافت جناب صدیق اکبررضی اﷲ عنہ نے جواب میں اپنے طرزعمل کی وضاحت فرماتے
ہوئے اہل بیت کے متعلق اپنے پاکیزہ جذبات کی یوں ترجمانی فرمائی ’’
حضور(خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبوب بیٹی (رضی اﷲ عنہا)
خداکی قسم میں اپنے عزیزوں اوررشتہ داروں سے حضوراکرم (خاتم النبیین صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم ) کے عزیزوں اوررشتہ داروں کوزیادہ محبوب رکھتا ہوں اورمجھ
کو(حضرت ) عائشہ (رضی اﷲ عنہا) سے پیاری (حضرت ) فاطمہ (رضی اﷲ عنہا) ہے۔
جس روزتمہارے والدحضرت محمدرسول اﷲ (خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم )
نے انتقال فرمایاتھا اس روزمیں نے یہ آرزوکی تھی کہ مجھ کوبھی خداموت دے دے
اورمیں حضوراقدس (خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ) کے بعدزندہ نہ رہوں
۔مگرکاش ایسانہ ہوسکا۔ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کیا آپ یہ خیال رکھتی ہو کہ میں
آپ (کی شان وعظمت ) سے واقف نہیں ہوں آپ رضی اﷲ عنہاکے فضل وشرف سے آگاہ
نہیں ہوں اورآپ رضی اﷲ عنہاکے حق سے بے خبرہوں ؟ ایسانہیں میں سب کچھ
جانتاہوں بایں ہمہ میں نے آپ رضی اﷲ عنہاکوحضورانور(خاتم النبیین صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم ) کے ترکہ سے صرف اس بناپرمحروم کیاہے کہ میں نے آپ رضی اﷲ
عنہاکے والد حضور رسالت مآب (خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ) کویہ
فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’ ہمارے مال کاکوئی وارث نہیں ہوتا ، جوکچھ ہم (اپنے
بعد)چھوڑیں صدقہ ہے۔ ‘‘ پیکرصدق وصفاحضرت صدیق اکبررضی اﷲ عنہ ذات نبوی کے
تعلق کی وجہ سے دونوں شہزادوں کے ساتھ بڑی شفقت فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت
ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ اورحضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ عصرکی نمازپڑھ
کرمسجدنبوی سے نکلے ۔راستہ میں حضرت حسن رضی اﷲ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے
تھے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ نے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کواٹھاکراپنے
کندھے پربٹھالیااورفرمانے لگے ۔قسم ہے حسن رضی اﷲ عنہ نبی (خاتم النبیین
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ) کے مشابہ ہیں علی رضی اﷲ عنہ کے مشابہ نہیں حضرت
علی رضی اﷲ عنہ ہنسنے لگے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ بھی اہل
بیت اطہارکے ساتھ بہت محبت آمیزسلوک فرماتے تھے اورہمیشہ ان کی عزت وعظمت
کاخاص خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ جب بیت المال سے کبار صحابہ رضوان اﷲ علیہم
اجمعین کے وظائف مقررکیے گئے توگوحسنین کریمین اکابرصحابہ کی صف میں نہ آتے
تھے مگرمحض نسبت رسول کی حیثیت سے ان کابھی پانچ ،پانچ ہزارماہانہ وظیفہ
مقررفرمایا۔ ایک دفعہ مسجدنبوی میں حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ مال غنیمت
تقسیم فرمارہے تھے۔ حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ تشریف لائے اورفرمایا اے
امیرالمومنین ہماراحق جواﷲ نے مقررکیاہے ہمیں عطاکرو آپ رضی اﷲ عنہ نے
فرمایا بالبرکۃ والکرامۃ اورایک ہزاردرہم نذر کیے ۔ان کے جانے کے بعدحضرت
امام حسین رضی اﷲ عنہاتشریف لائے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے حضرت امام حسین رضی اﷲ
عنہ کوبھی ایک ہزاردرہم پیش کیے۔ ان کے بعدخلیفہ ثانی رضی اﷲ عنہ کے
صاحبزادے حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ تشریف لائے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنے بیٹے
کوپانچ سودرہم دیے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے صاحبزادے عبداﷲ نے جب یہ
خصوصی امتیازدیکھا توکہا۔اے اباجان!یہ کیاانصاف ہے۔ میں بہت پہلے اسلام
لایا ۔ہجرت کی شرافت بھی حاصل کرچکاہوں اورکئی اسلامی معرکوں میں شامل
ہوچکاہوں اورحسنین کریمین رضی اﷲ عنہمااس وقت بچے تھے اورمدینہ کی گلیوں
میں کھیلاکرتے تھے۔ مگرآپ ان دونوں بچوں کومجھ پرترجیح دیتے ہیں؟ انہیں ایک
ایک ہزاردرہم کی گراں قدررقم اورمجھے صرف پانچ سودرہم ۔حضرت فاروق اعظم رضی
اﷲ عنہ نے فرمایا۔:اے جان پدر!مجھے تمہارے اس سوال سے بہت روحانی اذیت ہوئی۔
بیٹا! پہلے وہ مقام اورفضیلت توحاصل کروجوان شہزادوں کو حاصل ہے
پھرہزاردرہم کامطالبہ کرنا۔جاؤ پہلے ان کے ناناجیسانانالاؤ،ان کی نانی جیسی
نانی لاؤ، ان کے باپ جیساباپ لاؤ، ان کی ماں جیسی ماں لاؤ، ان کے
چچاجیساچچالاؤ، ان کی پھوپھی جیسی پھوپھی لاؤ، ان کے ماموں جیساماموں لاؤ،
ان کی خالہ جیسی خالہ لاؤ! اے عبداﷲ !خداکی قسم میں جانتاہوں تم ہرگزنہ
لاسکوگے۔ ان کے ناناجان رسول اﷲ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں ،ان
کی والدہ حضرت فاطمۃ سیّدہ النساء العالمین ہیں، ان کے باپ علی المرتضیٰ
رضی اﷲ عنہ ہیں، ان کی نانی ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ ہیں۔ ان کے
ماموں رسول خداکے صاحبزادے ہیں۔ ان کی خالائیں سرورعالم خاتم النبیین صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادیاں حضرت زینب رضی اﷲ عنہا، حضرت رقیہ رضی اﷲ
عنہا اور حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہاہیں۔ ان کے چچاحضرت جعفر طیاررضی اﷲ عنہ ہیں
اوران کی پھوپھی حضرت ام ہانی رضی اﷲ عنہاہیں۔ پھرتم کس منہ سے ان کی
برابری دعویٰ کرسکتے ہو۔ ایک روزحضرت سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ
منبرپرتشریف لے گئے۔ وہاں حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہمابھی موجودتھے۔ آپ
رضی اﷲ عنہ کومنبرپرتشریف فرمادیکھ کرفرمایا: میرے باباجان کے منبرسے
اتریئے۔ حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا بے شک یہ آپ کے بابا حضور سرور
کائنات خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی کامنبرہے میرے باپ کانہیں۔
مگریہ توبتاؤ کہ یہ بات تمہیں کس نے سکھائی ہے۔ حضرت مولاعلی رضی اﷲ عنہ یہ
سن کرکھڑے ہوگئے اورفرمایا:واﷲ میں نے ان سے کچھ نہیں کہاہے۔ حضرت عمرفاروق
رضی اﷲ عنہ نے فوراً فرمایاآپ سچے ہیں اورمیں آپ پربدگمانی نہیں کرتاہوں ۔
اس کے بعدحضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کو اپنے پہلومیں بٹھالیااورفرمایاکہ اے
امام حسین ہم نے یہ بلندی توتمہارے باباجان کے ذریعے ہی پائی ہے۔ ایک مرتبہ
شہزادہ کونین سیّدناامام حسین رضی اﷲ عنہ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے
دردولت پرتشریف لے گئے۔ اتفاق سے اس وقت آپ رضی اﷲ عنہ امیرشام سے کسی خاص
معاملہ پرتبادلہ خیالات فرمارہے تھے۔ دروازہ پرحضرت ابن عمررضی اﷲ عنہ کھڑے
تھے، آپ رضی اﷲ عنہ بھی انھیں کے پاس کھڑے ہوگئے اورتھوڑی دیرکے بعدواپس
تشریف لے گئے۔ اس کے بعدجب حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ سے ملاقات ہوئی۔
امیرالمومنین نے پوچھاحسین رضی اﷲ عنہ !آپ وعدہ کے مطابق آئے کیوں نہیں؟ آپ
رضی اﷲ عنہ نے فرمایا امیرالمومنین میں حاضرہواتھا مگرآپ اس وقت تنہائی میں
امیرشام سے محوگفتگوتھے،اندرآنامناسب نہ سمجھا اور آپ کے صاحبزادہ عبداﷲ کے
ساتھ تھوڑی دیرکھڑارہااورپھرانہیں کے ساتھ واپس لوٹ آیا۔حضرت فاروق اعظم
رضی اﷲ عنہ نے فرمایا آپ جیسی عزیز القدرہستی اورعبداﷲ کاکیامقابلہ
ہوسکتاہے اندرتشریف لے آتے۔ آپ ان سے زیادہ حق دارہیں ،خداکی قسم !جوکچھ
ہماری عزت ہے وہ خداکے بعدآپ ہی حضرات کی دی ہوئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی
بدولت ہمارے سروں پربال اگائے۔ آپ کے طفیل راہ راست پائی اورآپ کی برکت سے
اس بلندمقام کو پہنچے ۔حضرت آپ کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں۔ آپ جب تشریف
لایاکریں ۔بغیراجازت آ جایا کریں ۔حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ حضرت علی کرم
اﷲ وجہہ کے دولت کدہ پرتشریف لائے اورفرمایا۔اے ابوالحسن!کیاآپ نے خود
سرورعالم خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سناہے کہ ’’عمراہل جنت
کاچراغ ہے‘‘حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے فرمایاہاں میں نے اپنے کانوں
سے حضور خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کویہ ارشادگرامی فرماتے ہوئے
سناہے ۔حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔اے علی رضی اﷲ عنہ آپ اپنے ہاتھ
سے یہ حدیث لکھ کرمجھے عنایت فر ماسکتے ہیں ؟ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے
فرمایاکیوں نہیں؟ چنانچہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے اپنے دست مبارک سے یہ
تحریرلکھ کر حضرت عمررضی اﷲ عنہ کے حوالے کی۔ ’’یہ وہ بات ہے جس کے ضامن
علی ابن ابی طالب ہیں کہ رسول اﷲ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کہ عمربن خطاب اہل جنت کے چراغ ہیں۔‘‘ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ
کی نجات کی یہ دستاویزلے کرخوش خوش واپس لوٹے اورگھروالوں کوتاکیدفرمائی کہ
جب میری وفات ہوتواس تحریرکومیرے کفن میں رکھ دینا۔ چنانچہ جب حضرت
عمرفاروق رضی اﷲ عنہ شہیدہوئے توہ کاغذ حسب وصیت آپ رضی اﷲ عنہ کے کفن میں
رکھ دیاگیا۔ایک دفعہ یمن سے حلے (قیمتی جبے) آئے توحضرت عمرفاروق رضی اﷲ
عنہ نے تمام صحابہ میں بانٹ دیئے۔ اس وقت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ گنبدخضریٰ
اورمنبرنبوی کے درمیان رونق افروز تھے۔ جب لوگ حلے پہن پہن کرسلامی کے لیے
آناشروع ہوئے توٹھیک اسی وقت حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ اورحضرت امام حسین
رضی اﷲ عنہ حضرت فاطمۃ الزہرارضی اﷲ عنہاکے مکان سے باہرنکلے۔حضرت فاروق
اعظم رضی اﷲ عنہ نے دونوں شہزادوں کودیکھا۔جب انہیں حلے پہنے نہ پایا توآپ
رضی اﷲ عنہ کوبہت ملال ہوا۔آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ مجھے تم لوگوں کوحلے
پہناکرقطعاً مسرت نہیں ہوئی۔ پوچھا امیرالمومنین !یہ کیوں ؟ ارشادفرمایاکہ
دونوں صاحبزادوں کے جسم پریمنی حلے نہیں ہیں۔ اس کے بعدفوراًحاکم یمن کوحکم
صادرکیاکہ جلدسے جلددوحلے ان شہزادوں کے شایان شان بھجواؤ۔ جب حلے آئے
تودونوں شہزادوں کوپہنائے ۔فرط مسرت سے آنکھوں سے آنسورواں تھے اورفرماتے
تھے ہاں اب مجھے سچی خوشی حاصل ہوئی ہے۔ مندرجہ بالابابرکت واقعات پڑھ کریہ
حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اہل بیت اطہارسے
کتنی والہانہ محبت کرتے تھے۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ، حضرت امام حسن رضی اﷲ
عنہ اورحضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ نے اپنے بیٹوں کے نام نبی کریم خاتم
النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اورصحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین
کے ناموں پررکھے۔اس سے اہل بیت اطہارکی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین
سے محبت بھی واضح ہوتی ہے۔
|