مسلمان اسے کہتے ہیں جو اسلام پر عمل کرنے والا ہو ،
جودین ابراہیمی پر عمل پیرا ہو اور ایمان کے معنی لغت کے اعتبار سے"امن
پانا" اور "امن دینا" کے ہیں۔ کیا ہم یہ جانتے ہیں؟ میرے خیال میں تو نہیں۔
کیوں کہ نہ ہم اسلام پر عمل پیرا ہیں اور نہ ہی ہم امن کے لیےکوشاں۔ یہاں
تو دنیا دار لوگ ہیں جو اپنے تھوڑے سے فائدہ کے لیے کسی کو بھی نقصان پہنچا
سکتے ہیں۔اور بڑی آسانی سے الزام بھی کسی دوسرے پر لگا سکتے ہیں۔ا ور اسے
اپنی کامیابی گردانتے ہیں کہ دیکھو ہم کتنے ذہین ہیں ، ہم کتنے کامیاب ہیں
ہمارا مقابلہ تو کوئی کر ہی نہیں سکتا۔
ایمان والے تو وہ تھے جو اسلام پر عمل پیرا ہوئے تو اپنے ایمان کے لیے پوری
دنیا میں امن کا پیغام لے کر دوڑےتاکہ خود بھی امن پاسکیں اور دوسروں کو
بھی امن دے سکیں۔ امن نام ہے خوف سے نجات کا، دل کے اطمینان کا، خیر و
عافیت کا جس سے انسان ہمکنار ہوسکے اور اسکا ایک ہی طریقہ ہے اسلام۔مگر یہ
بات آج اگر کسی مسلمان سے کی جائے تو جواب آتا ہے کہ یہ کیا مولویانہ بات
ہوئی بھلا ، ہم تو مسلمان ہی پیدا ہوئے بھائی اورہم سے بڑا ایمان والا تو
شاید اور کوئی نہ ہو۔ہم تو پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں مگر جھوٹ بولنا نہیں
چھوڑتے، ہم صدقہ و خیرات کرتے ہیں مگر یتیم کا مال کھا جاتے ہیں، جب بھی
کوئی مصیبت آئی ہم نے سب سے زیادہ باہمی امداد کی مگر سود کا نظام چھوڑنا
ہمارے بس میں نہیں ۔
کیا مسلمان کے گھر پیدا ہونا مسلمان ہونے کی دلیل ہے ؟ چاہے ہم جتنی مرضی
اخلاقی پستی میں ہوں، چاہے ہم روز اپنے پروردگار کے احکامات سے انکار کریں،
چاہے ہم اپنے پیغمبرمحمد مصطفیٰ صلی اللہ وعلیہ وسلم کی سنتوں کے خلاف عمل
کریں، کیا ہمیں اس سے فرق نہیں پڑتا؟ کیا ہم اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ اپنے
پیدا کرنے والے رب الاعلی سے مقابلہ کرسکیں؟ العیاذ بااللہ
تاریخ گواہ ہے کہ بنی اسرائیل جب سیدھے راستے پر پلٹتے تو اللہ پاک انہیں
دنیا پر حکمرانی عطا فرماتا اور جب وہ اخلاقی پستی میں گرتے تو دنیا میں ہر
جگہ ذلیل و رسوا ہوتے اور آج دنیا میں ہر جگہ رسوا کون ہیں ؟ کیا ہم نہیں
جانتے؟ کیا ہم تعداد میں کم ہیں نہیں ہرگز نہیں بلکہ ہم نے یہ رسوائی خود
اپنے اوپر مسلط کی ہے اپنے اعمال کی وجہ سے۔ اگر ہم مسلمان ہوتے تو ہم امن
میں ہوتے، کیا ہم ہیں؟ اگر ہم مسلمان ہوتے آج ہمیں کافروں سے یہ کہنے کی
ضرورت نہ ہوتی کہ کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے، فلسطین میں ستم ڈھایا جا رہا ہے
اس لیے عالمی برادری نوٹس لے۔ کیا کبھی ظالم بھی انصاف کرتا ہے؟ نہیں بلکہ
وہ تو ہماری اس آہ وبکا سے تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کہ دیکھو یہ وہ مسلمان ہیں
جو صحرائے عرب سے اٹھ کے پوری دنیا پر چھا گئے تھے آج ہم سے بھیک مانگتے
ہیں کہ ہمیں بچاو۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
کیاہم میں احساس شرمندگی ختم ہو گیا؟مگر اب بھی ایک موقع ہے جو اللہ پاک نے
انسان کو عطا کیا جس سے شیطان فائدہ نہ اٹھا سکا اس نے تو ایک حکم سے انکار
کیا اور راندہ درگاہ ہوا مگر ہمیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے توبہ کا موقع
دیا ہے تو آو اس سے فائدہ اٹھائیں اورایک قوم ہو کر ایمان سے منور ہوں اور
پوری دنیا میں امن قائم کرنے والے بن جائیں۔آئیں آج یہی سوال اپنے آپ سے
کریں اور دین ابراہیمی پر عمل پیرا ہوں، آئیں آج تجدید ایمان کریں اور اپنے
دلوں کی تسکین کے ساتھ باقی انسانیت کے لیے بھی راحت کا سامان کریں۔
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے ناامیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
|